Monday 26 July 2010

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

اسلامی فقہ سے متعلق کوئی بات کرنے سے پہلے چند حقائق ذہن نشین کر لینا ضروری ہیں۔ ان حقائق کا تعلق اسلامی فقہ کی نوعیت کے بارے میں ہے۔ ان حقائق کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق رائے ہے اور ان سے کسی بھی صاحب علم کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔
شریعت اور فقہ میں فرقشریعت اللہ تعالی کے نازل کردہ قوانین اور احکام کا مجموعہ ہے جس کی تفصیلات قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں ملتی ہیں۔ اس کے برعکس فقہ ایک انسانی کام ہے جس میں قوانین کو اگرچہ خدائی شریعت کی بنیاد پر اخذ کیا جاتا ہے مگر بہرحال یہ خدائی نہیں بلکہ انسانی کام ہے اور اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
فقہ کے مآخذاسلامی فقہ میں احکام اور قوانین کو ان مآخذ سے اخذ کیا جاتا ہے*قرآن مجید : قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا موضوع ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے سامنے جواب دہ ہونے کے لئے انسانوں کے ذہن کو تیار کرنا ہے۔ احکام اور قوانین سے متعلق آیات قرآن مجید کے صرف دس فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں تاریخی طور پر یہ تو متعین ہے کہ یہ صد فیصد وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے کلام الہی کی حیثیت سے پیش کی تھی۔ اس کتاب کے متن میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ اس کی متعدد تشریحات
(Interpretations)
کی گئی ہیں جن میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں درست تشریح کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
*
سنت متواترہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قرآن مجید کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی اور اللہ تعالی کے بعض احکامات جو قرآن میں بیان نہیں ہوئے، انہیں اپنے مخاطبین کے سامنے پیش فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ سنت امت تک صحابہ کرام کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔
*
احادیث و آثار : یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ بھی کی گئی ہے۔ محدثین کی عظیم کاوشوں کے نتیجے میں ایسے طریق کار وجود میں آ گئے ہیں جن کی بدولت اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف صحیح حدیث کی بنیاد پر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ احادیث کے بارے میں بھی محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث کے مخالف مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔
(دیکھیے خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایۃ اور جلال الدین سیوطی کی تدریب الراوی)
*
اجماع امت : اگر کسی قانون کے بارے میں مسلمانوں کے ماہرین قانون کے ہاں اتفاق رائے ہو گیا ہو تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن و سنت کے کسی حکم کے بارے میں اتفاق ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کا حکم ہے اور اس کی تعمیل اس طریقے سے کی جائے گی۔ مثال کے طور پر نماز، زکوۃ، حج اور روزے کی شرعی حکم ہونے اور ان کے طریق کار کے بارے میں اجماع۔ ایسے اجماع کے بارے میں یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس سے اختلاف رائے نہیں کیا جا سکتا۔ اجماع کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسے قانون کے بارے میں ایک زمانے کے مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے جو قرآن و سنت میں بیان نہیں کیا گیا۔ مسلم علماء کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اس قسم کے اجماع سے بعد کے ادوار میں اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*قیاس : قرآن و سنت کے کسی حکم کی بنیاد پر اس سے ملتی جلتی صورتحال کے بارے میں حکم اخذ کرنے کو قیاس کہا جاتا ہے۔ قیاس ایک خالصتاً انسانی عمل ہے جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس وجہ سے دلائل کی بنیاد پر قیاس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*استحسان : بعض اوقات فقہاء دو فقہی آراء میں سے کسی ایک کو مصلحت کی بنیاد پر اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض فقہاء استحسان کو جائز سمجھتے ہیں اور بعض اسے درست قرار نہیں دیتے۔*عرف و عادت : بعض قوانین کسی معاشرے کے عام رسم و رواج کی بنیاد پر اختیار کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان قوانین کی بنیاد قرآن و سنت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے یہ قوانین زمانے اور علاقے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔اگر فقہ کے مآخذوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے صرف پہلے دو مآخذ مقدس حیثیت رکھتے ہیں جبکہ باقی تمام مآخذ انسانی نوعیت کے ہیں۔ جس طرح فقہ کا ایک ماہر دلائل کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر قائم کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح فقہ کا دوسرا ماہر دلائل ہی کی بنیاد پر اس نقطہ نظر کو مسترد کر سکتا ہے۔
اہم فقہی مکاتب فکرجس طرح دنیا کے دیگر علوم میں فکر کے اختلاف اور اتفاق کے باعث متعدد مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح علم فقہ میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے علم فقہ میں درج ذیل مکاتب فکر مشہور ہوئے
*
فقہ حنفی : یہ مکتب فکر امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ ( 150ھجری / 767عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہ مکتب فکر عالم اسلام میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بنو عباس نے فقہ حنفی کو سرکاری سطح پر نافذ کیا تھا۔
*
فقہ مالکی : یہ مکتب فکر امام مالک بن انس علیہ الرحمۃ (179ھجری / 795عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اسپین کی مسلم سلطنت نے اس فقہ کو سرکاری قانون کی حیثیت دی جس کی وجہ سے اس کا فروغ زیادہ تر شمالی اور مغربی افریقہ کے ممالک میں ہوا۔
*
فقہ شافعی : یہ مکتب فکر امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمۃ ( 204ھجری / 819عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔
*
فقہ حنبلی : یہ مکتب فکر امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ ( 241ھجری / 855عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔*فقہ جعفری : یہ مکتب فکر امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ ( 148ھجری / 765عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر وجود پذیر ہوا۔ چونکہ امام صاحب سے استفادہ زیادہ تر اہل تشیع نے کیا ہے، اس وجہ سے اس مکتب فکر کو بالخصوص اہل تشیع ہی میں اختیار کیا گیا۔
*
فقہ ظاہری : یہ مکتب فکر امام داؤد ظاہری علیہ الرحمۃ (270ھجری / 883عیسوی ) کی کاوشوں کے
نتیجے میں وجود پذیر ہوا۔اس مکتب فکر کے دیگر اہل علم میں امام ابن حزم علیہ الرحمۃ ( 456ھجری / 1064عیسوی) بھی شامل ہیں۔
*
فقہ اہل الحدیث : اہل حدیث فقہاء کا وہ طبقہ تھا جو مختلف ائمہ کی آراء کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کسی ایک امام کے مقلد نہیں ہوتے تھے اور بعض شافعی، حنبلی یا ظاہری مکتب فکر سے تعلق رکھا کرتے تھے۔
*
دیگر مکاتب فکر : ان مشہور فقہی مکاتب فکر کے علاوہ بعض دیگر جلیل القدر فقہاء جیسے سفیان ثوری، لیث بن سعد اور بعض دیگر اہل علم شامل تھے۔ایسا نہیں ہے کہ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے تمام فقہاء ہر معاملے میں ایک ہی نقطہ نظر پر متفق ہیں۔ ایک مکتب فکر کے فقہاء کے درمیان اتفاق رائے صرف چند بنیادی اصولوں پر ہوا کرتا ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد پر مسائل استنباط و استخراج کرتے ہوئے ان کے مابین بھی بہت سے مسائل میں اختلاف رائے واقع ہو جایا کرتا ہے۔
فقہاء کے اختلافات کی بنیادی وجہشریعت کے چند بنیادی احکام کو چھوڑ کر، فقہاء کے ہاں بالعموم بہت سے معاملات میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف رائے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے بعض اہم یہ ہیں
*
فقہاء کے مابین قرآن مجید کی کسی آیت کی تشریح میں فرق واقع ہو سکتا ہے۔ ایک فقیہ، ایک آیت سے ایک نقطہ نظر اخذ کر سکتا ہے جبکہ دوسرا فقیہ اسی آیت سے دوسرا نقطہ نظر۔
*
فقہاء کے مابین کسی حدیث کی تشریح میں بھی فرق واقع ہو سکتا ہے۔
*
فقہاء کے مابین بسا اوقات آیات اور احادیث کو ملا کر ان سے نتائج اخذ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک فقیہ کسی ایک آیت یا حدیث کی بنیاد پر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو جبکہ دوسرا اس آیت یا حدیث کو کسی اور آیت اور حدیث کے ساتھ ملا کر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو۔ ایک فقیہ ایک آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر دوسری آیت یا حدیث کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو اور دوسرا فقیہ اس کے برعکس دوسری آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر پہلی کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو۔
*
ایک فقیہ کسی صورتحال کو قرآن و سنت کے ایک حکم پر قیاس کر سکتا ہے جبکہ دوسرا دوسرے حکم پر۔
*
ایک فقیہ استحسان کی بنیاد پر ایک حکم کو ترجیح دے سکتا ہے اور دوسرا دوسرے کو۔
*
ایک فقیہ ایک شہر کے رسم رواج (معروف) کی بنیاد پر قانون سازی کر سکتا ہے اور دوسرا دوسرے شہر کے قانون کی بنیاد پر۔
فقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں ترجیح کے اصولفقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف رائے کی اس صورتحال میں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان کے مابین بالکل ہی متضاد نقطہ ہائے نظر قائم ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے صرف ایک رائے ہی درست ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے ضروری ہے کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے کسی ایک رائے کو ترجیح دی جائے۔ ہمارے ہاں یہ غلط طور پر یہ بات رواج پذیر ہو چکی ہے کہ ایک شخص کو ایک ہی مکتب فکر تک محدود رہنا چاہیے۔ صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ فقہ کا یہ پورا ذخیرہ ہمارے ہی بزرگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں کسی مسلکی یا فقہی تعصب کے بغیر اس پورے ذخیرے کا جائزہ لیتے ہوئے جس معاملے میں جو نقطہ نظر صحیح ہو، اختیار کر لینا چاہیے۔ ترجیح دینے کے لئے جن اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہیں *اگر فقہاء کے مابین قرآن کی کسی آیت یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کسی حدیث کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو اس عالم کی رائے کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات، آیت یا حدیث کے سیاق و سباق اور موقع محل، عربی زبان کے اصولوں اور عقل عام (Common Sense)
سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو۔
*
اگر فقہاء کے ہاں استدلال کی بنیاد پر اختلاف رائے پایا جاتا ہو، تو ترجیح اس نقطہ نظر کو دی جائے گی جس کا استدلال قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات اور عقل عام کے زیادہ قریب ہے۔*اگر اختلاف قیاس کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر اس نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جس کا قیاس قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات کے زیادہ قریب ہے اور دوسرے کی نسبت بہتر اور معقول بنیادوں پر قائم ہے۔
*
اگر اختلاف مختلف علاقوں میں رسم و رواج کے فرق کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر ظاہر ہے اسی نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور عقل عام سے مطابقت رکھتا ہو گا۔اب ہم غلامی سے متعلق ایک ایک فقہی مسئلے کو لے کر اس سے متعلق فقہاء کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم صرف انہی مسائل کا جائزہ لیں گے جن میں غلاموں کے حقوق سے متعلق اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہو رہا ہو۔اس ضمن میں ہم جان بوجھ کر کسی فقیہ کا نام پیش نہیں کر رہے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے ہاں مسلکی تعصب اس شدت میں موجود ہے کہ اپنے مسلک کے کسی عالم کا نام آتے ہی لوگ تمام دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی کی بات کو قبول کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے مسلک کے کسی عالم کا نام سنتے ہی اس کی صحیح بات کو بھی دلیل سنے بغیر غلط قرار دے دیا کرتے ہیں۔ نام بیان کئے بغیر ہم صرف مختلف اہل علم کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا جائزہ پیش کریں گے۔
(مبشر نذیر)

No comments:

Followers