Sunday 25 July 2010

کیا قرآن غلامی کو فطری قرار دیتا ہے؟


بعض مستشرقین نے یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ قرآن نے غلامی کو ایک فطری چیز قرار دے کر اسے اپنے نظام میں قبول کیا ہے۔ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ انہوں نے ایک قرآنی آیت کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر اس سے ایک غلط نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ہم اگر اس آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھیں تو ایسا کوئی نتیجہ وہی اخذ کر سکتا ہے جو علمی دیانت سے واقف نہ ہو۔

وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الأَعْلَى فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ. ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلاً مِنْ أَنْفُسِكُمْ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ. بَلْ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَنْ يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ.
(روم 30:27-29)
وہی (خدا) ہی تو ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اسے دوہرائے گا اور یہ اس کے لئے آسان تر ہے۔ آسمانوں اور زمین میں اس کی یہ صفت سب سے برتر ہے اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ وہ تمہیں خود تمہاری ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے ان غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں، تم پسند کرو گے کہ کچھ غلام ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے برابر شریک ہو جائیں اور تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو جس طرح اپنے برابر کے لوگوں سے ڈرتے ہو۔ اسی طرح ہم عقل مندوں کے لئے اپنی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ مگر یہ ظالم بغیر سوچے سمجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب اس شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے جسے اللہ ہی نے گمراہی کے راستے پر (اس کے رویے کے باعث) چھوڑ دیا ہو۔ ایسے لوگوں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔
سورہ روم ایک مکی سورت ہے۔ ان آیات میں اہل مکہ کو توحید اور آخرت کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ اس کے لئے انہیں یہ بات بطور مثال بیان کی گئی ہے کہ تم لوگ اپنے غلاموں کو تو اپنے برابر سمجھتے نہیں لیکن عجیب بات ہے کہ تم لوگ خدا کے حقیقی بندوں کو اس کے برابر قرار دے دیتے ہو۔ ان آیات میں مشرکین مکہ کے ایک غلط تصور ہی کو لے کر انہیں اسی کی بنیاد پر اتمام حجت کیا گیا ہے۔

ان آیات سے یہ کہیں اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن غلامی کو قبول کرتا ہے اور وہ اسے ایک ادارے کے طور پر باقی دیکھنا چاہتا ہے۔ خاص طور پر اگر تفصیل سے ان تمام آیات و احادیث کو سامنے رکھا جائے جو ہم نے باب 7 سے لے کر باب 12 کے درمیان بیان کی ہیں تو کوئی معقول شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا۔ دوسری آیات یہ ہیں جنہیں ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے
وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ. وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنْ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً مِنْ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ شَيْئاً وَلا يَسْتَطِيعُونَ۔ فَلا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقاً حَسَناً فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرّاً وَجَهْراً هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْلَمُونَ۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهُّ لا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
(النحل 16:71-76)
اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کےبرابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے تم میں سے ہی جوڑے بنائے ہیں اور اسی نے ان میں سے تمہیں اولاد اور پوتے پوتیاں عطا کئے ہیں اور تمہارے کھانے پینے کے لئے اچھی اور صاف چیزیں پیدا کی ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ (دیکھ بھال کر بھی) باطل پر تو ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے احسانات کا انکار کرتے ہیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں آسمانوں اور زمین میں سے کوئی چیز بطور رزق کے نہیں دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پس اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کیا کرو۔ بے شک اللہ ہی جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔
اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا۔ دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے چھپے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ (جب تمہارے خیال میں یہ دونوں برابر نہیں ہیں) تو الحمد للہ مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ اللہ دو افراد کی ایک اور مثال بیان کرتا ہے۔ ان میں سے ایک گونگا بہرا ہے اور کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور مکمل طور پر اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ جہاں وہ اسے بھیجتا ہے وہ کوئی سیدھا کام کر کے نہیں آتا۔ دوسرا شخص ایسا ہے جو انصاف کی تلقین کرتا ہے اور سیدھے راستے پر ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں؟
ان میں سے پہلی آیت تو کھلم کھلا غلامی کو ختم کرنے سے متعلق ہے۔ یہ حقیقت تھی کہ اس دور کی معاشرت میں غلام کسی طرح بھی آزاد افراد کے برابر نہیں تھے۔ قرآن نے ان غلاموں کو رقم دے کر آزاد افراد کے برابر لانے کا حکم دیا ہے۔

آخری دو آیات میں اللہ تعالی نے عربوں کو خطاب کرتے ہوئے انہی کی معاشرت میں سے دو مثالیں بیان کی ہے۔ عربوں کے ہاں یہ غلط تصور پایا جاتا تھا کہ معاذ اللہ خدا بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح ہے۔ جس طرح دنیاوی بادشاہ کسی کو نہیں ملتے اور ان سے کچھ عرض کرنے کے لئے ان کے قریبی لوگوں اور درباریوں کے ذریعے ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی طرح ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس کے نیک بندوں کا وسیلہ درکار ہے۔

اللہ تعالی نے ان کے سامنے یہ مثال دی ہے کہ جس طرح تمہاری معاشرت میں آقا اور غلام کو برابر اختیارات حاصل نہیں ہیں اور غلام کو سامنے رکھ کر آقا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کےبادشاہ جو کہ اللہ تعالی کے غلام اور بندے ہیں، پر پوری کائنات کے مالک کو قیاس کر لیا جائے؟ اس سے یہ کہاں سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن غلامی کو فطری قرار دیتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

اگر ان آیات کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک غلط نتیجہ اخذ کر لیا جائے تو یہ معاملہ تو پھر دنیا کی ہر کتاب کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے والے کارل مارکس کی کتابوں سے کیپیٹل ازم کا جواز اور مہاتما گاندھی کی کتب سے تشدد کا فلسفہ اخذ کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اس رویے کو علمی بددیانتی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

(مبشر نذیر)

No comments:

Followers