Sunday 25 July 2010

اسلام نے غلامی کو ایک دم ختم کیوں نہیں کیا؟


یہ ایک اہم سوال ہے۔ ہم نے یہ بحث تفصیل سے باب 8 میں کی ہے۔ یہاں ہم اسے دوبارہ نقل کر رہے ہیں۔
دین اسلام نے غلاموں کو آزادی عطا کرنے کے لئے جو اقدامات کئے، ان کے نتائج فوری طور پر برآمد ہونا ممکن نہ تھا۔ غلامی کی جڑیں پوری دنیا کے معاشروں میں اتنی گہری تھیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں دین اسلام نے تدریجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیا۔
انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دسیوں نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم "انقلاب
(Revolution)
" کی بجائے "تدریجی اصلاح
(Evolution)
" کا طریقہ اختیار کیا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہوگا۔

موجودہ دور میں بہت سے مالکان
(Employers)
اپنے ملازمین
(Employees)
کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل
(Self Employed)
ہوجائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لئے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے؟

اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے ۔ یہ بے روزگار یقینا روٹی ، کپڑے اور مکان کے حصول کے لئے چوری ، ڈاکہ زنی ، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے۔ جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تلپٹ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔ انہیں کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ جو لوگ اس میں آگے بڑھیں، انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں گے اور تدریجاً تمام لوگوں کو 8 گھنٹے کی غلامی سے نجات دلا کر مکمل آزاد کیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ کارل مارکس اس مسئلے کا ایک حل ’’کمیونزم ‘‘ پیش کرچکے ہیں اور دنیا کے ایک بڑے حصے نے اس کا تجربہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے جو ناکام رہا۔)
عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو
حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لئے ابتدائی اقدامات ضرور کئے تھے۔

اب اسی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور پر غور کیجیے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا۔ غلامی اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں غلام موجود تھے۔ جب فتوحات کے نتیجے میں ایران ، شام اورمصر کی مملکتیں مسلمانوں کے پاس آئیں تو ان غلاموں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ کروڑوں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور اور بھکاری وجود میں آ جاتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔

اس صورتحال میں اس کے سوا اور کوئی حل نہ تھا کہ غلامی کو کچھ عرصے کے لئے برداشت کر لیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ اس عرصے کے دوران جو لوگ غلامی کی حالت میں موجود ہیں، ان کے لئے قانونی اور سماجی نوعیت کی ایسی اصلاحات
(Reforms)
کر دی جائیں جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے اور انہیں معاشرے میں پہلے کی نسبت بہتر مقام مل سکے۔ اسلام نے یہ کام بخوبی کر دکھایا۔

No comments:

Followers