Saturday 21 August 2010

احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے

احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
احادیث کے پرکھنے کے لئے سب سے پہلا اصول اور سب سے اہم معیار خود قرآن ہی ہے۔جو حدیث قرآن کے خلاف یا معارض ہوگی وہ رد کردی جائے گی۔جیسا کہ ضمناً ان عبارتوں سے جو پہلے گزریں ،سے ثابت ہوا کہ قرآن جو قطعی اور یقینی ہے ،اسکے خلاف یا معارض حدیث نہیں ہوسکتی ،جو کہ ظنّی ہے۔اب ہم احادیث اور اقوالِ علماءکو نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ قرآن ہی اصلِ معیاراور پہلا
اصول ہے احادیث کے قبول و رد کا
(ا)
امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١،میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)
(٢)
علامہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی متوفی ٨٤٧ھ٭” فقولہ علیہ السلام تکثر لکم احادیث من بعدی فاذاروی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( تو آپ علیہ السلام کا قول کہ میرے بعد تمہارے لئے احادیث کی کثرت ہوجائے گی تو جب اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( التوضیح والتلویح،بحثِ سنت،ص٠٨٤)
اس کتاب کے ماتِن صدرالشریعہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی ہیں اور ان کا متن ’التوضیح‘ کہلاتا ہے۔اور اسکی تشریح دوسرے مشہور و معروف عالم و متکلم علامہ سعدالدین تفتازانی شافعی متوفی ٢٩٧ھ نے’ التلویح‘ کے نام سے لکھی اور یہ دونوں ’التوضیح والتلویح‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ لکھتے ہیں کہ:
٭
” فدلّ ھذا الحدیث علی ان کل حدیث یخالف کتاب اللہ (تعالٰی) فانہ لیس بحدیث الرسول وانما ھو مفتری وکذلک کل حدیث یعارض دلیلاً اقوٰی منہ فانہ منقطع عنہ علیہ السلام لان الادلة الشریعة لا یناقض بعضھا بعضاً وانما التناقض من الجھل المحض۔“
( تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کی مخالف ہو ہرگز رسول (اللہ ) کی حدیث نہیں ہے اور وہ افتراءہے اور اسی طرح ہر وہ حدیث جو کسی زیادہ قوی دلیل کے معارض و مخالف ہو وہ بھی آپ علیہ السلام سے منقطع ہے( یعنی صحیح نہیں ) کیونکہ شریعت کے دلائل آپس میں ایک دوسرے کے معارض و مخالف و مناقض نہیں ہوسکتے کیونکہ تناقض تو محض جہل ہے۔)
( التوضیح والتلویح ص٠٨٤)
(٣)
علامہ حافظ جلال الدین سیُوطی متوفی ١١٩ھ” بما روی ان النبی قال: ما جاءکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ،فما وافقہ فاَنا قلتہ وما خالفہ فلم اقلہ۔“” روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ جو حدیث تمہارے پاس آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر اس ( قرآن) کے موافق ہو تو (سمجھوکہ) میں نے ہی کہی ہے اور اگر مخالف ہو تو (سمجھوکہ) میں نے نہیں کہی ۔“(مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص١٢)
(٤)
ملا علی قاری حنفی متوفی” (فصل) ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة ونحن فی الالف السابعة وھذامن ابین الکذب۔“( اور اس(اصولِ حدیثِ موضوع) میں سے ہے کہ حدیث صریحاً قرآن ہی کے مخالف ہو(تووہ موضوع ہوگی) جیسے حدیث ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار سال میں ہیں ( اور ابھی تک دنیا بھی ہے لھذا یہ صریحاً غلط ثابت ہوگئی) اور یہ انتہائی کھلا ہوا جھوٹ ہے۔)(موضوعات الکبیر ص٢٦١)
(٥)
محمد نظام الدین الشاشی المعروف بہ ملا جیون متوفی” بقولہ اذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( اور آپ کا قول کہ جب تم سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو اسکے موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اسے رد کردو۔)( فقہِ اصول حنفی کی مشہور کتاب جو مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے ’ نورالانوار ص ٥١٢،اور اسکے مصنف ملا جیون مغل بادشاہ عالمگیر کے استادتھے! )
٭
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:” اذا بلغکم منی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( مفہوم وہی جو اوپر گزرا)
( مقدمہ تفسیر احمدیہ ص٤، بحوالہ جاءالحق از مفتی احمد یار خان گجراتی ص٤٣)
( ٦)
حافظ ابن کثیر متوفی” وقال ابن جریر حدثنا محمد بن اسماعیل الَحمسی اَخبرنی جعفر بن عون عن عبدالرحمان بن المخارق عن ابیہ المخارق بن سلیم قال قال لنا عبداللہ ھوابن مسعود اذا حدثناکم بحدیث اتیناکم بتصدیق ذلک من الکتاب اللہ تعالٰی۔“
(عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔)
( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
(٧)
عنایت اللہ سبحانی
٭
” اور جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ کبھی بھی قرآن کی شرح نہیں بن سکتی ۔“
(حقیقت رجم ص٦١)
٭
” حدیث قرآن کی تشریح ہے لیکن قرآن بھی حدیث کی صحت کےلئے بہترین کسوٹی ہے۔آپ کا ارشاد ہے کہ :
تکثر لکم الاحادیث بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق فاقبلوہ وما خالف فردوہ ۔“
(مفہوم وہی جو کئی بار گزرا)
٭
اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث آتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’ ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافق کتاب اللہ اَنا اقلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ھدانی اللہ؟۔“
( یعنی تمہارے پاس جو کچھ بھی میرے پاس سے آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر کتاب اللہ کے موافق ہو تو ہو میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر مخالف ہو کتاب اللہ کے تو اسے میں نے نہیں کہا ،اور میں کیسے کتاب اللہ کی مخالفت کرسکتاہوں جبکہ اللہ نے مجھے اسی کے ذریعے ہدایت دی ۔“
( امام شاطبی ،الموافقات ج٤ص٣١)
امام شاطبی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اس حدیث کی سند صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔“
( ایضاً ص٠٥١)
٭
حضرت عیسٰی بن ابان (م ٩٤٢ھ) جو ایک بلند پایہ محدث اور ایک بالغ نظر فقیہ تھے اور جو کئی سال تک بصرہ کے قاضی رہے ،انہوں نے بھی اس روایت کی توثیق کی ہے اور اسکی اساس پر انکا مسلک یہ تھا کہ ’ خبر واحد جس کے اندر صحتِ سند کی تمام سندیں اور شرطیں موجود ہوں اسے کتاب ( اللہ) کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگا اور اس کی صحت کا آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہوگا‘۔“ [المحصول فی علم اصول فقہ از امام رازی] ( بحوالہ حقیقت رجم ص٥١)
(٨)
مولانا عبدالماجد دریا آبادی” خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو۔“
(تفسیر ماجدی ص٤٢٣ ،سورہ اعراف حاشیہ ٣)
امام ابوبکر جصاص اور امام قرطبی کا حوالہ بھی مولانا نے نقل کیا ہے جسے ہم بھی پہلے نقل کرچکے ہیں لھذا وہاں دیکھ لیا جائے ۔
(٩)
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی” اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ابو ھریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتداء یوم سبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتائی گئی ہے اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات دن میں ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عام نصوص قرآنی میں یہ تخلیق چھہ روز ہونا صراحاً مذکور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماءکے واقعات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آتی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی، یقینی کہا جاسکے بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں ،مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم اور نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی صراحت فرمائی ہے۔اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہیے۔“
( معارف القرآن ،ج٧ص٦٣٦ سورہ حٰم)
(یعنی اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہو تو وہ رد کیے جانے کے قابل ہے چاہے صحیح مسلم کی ہی کیوں نہ ہو
)
(٠١)
مولانا عبدالسلام رستم مردانی” واعلم قبل جواب ھذا الحدیث ان مسلک ابی حنیفہ اسلم ،فانہ یقدم العمل بالآیة من العمل بالحدیث اذا لم یمکن التوفیق بینھما ویتاول فی الحدیث دون الآیة۔“
( اور جان لے اس حدیث کے جواب سے قبل کہ ابو حنیفہ کا مسلک سلامتی والا ہے کیونکہ وہ آیت پر عمل کو مقدم رکھتے ہیں حدیث کے مقابلے پر جب ان دونوں(قرآن و حدیث)میں توفیق اور تطبیق ممکن نہ ہو، اور آپ حدیث میں تاویل کرتے ہیں بجائے آیت کے ۔)
(التبیان فی تفسیر امّ قرآن ص٧٣١)
٭
” وایضاًکان ھذاالحدیث مخالفاًعن ظاھرالقرآن الدال علی فوقیتہ تعالٰی علی العرش فلذا اول فی الجامع الترمذی۔“
( اور اسی طرح یہ حدیث ظاہرقرآن کے مخالف ہے لھذا جمع ترمذی میں ہی تاویل کی جائے۔)
(١١)
امام نسفی متوفی ٠١٧ھ٭” بقولہ علیہ السلام اذا روی لکم عنی الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( آپ کا قول کہ،جب تم سے کوئی حدیث بیان کرے میری طرف سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کرو ،اگر موافق ہے تو قبول کرلواوراگرنہیں تو رد کردو۔)
( کشف الاسرار علی المنار،ج٢ص٥٨)
(٢١)
امام ابوبکر السرخسی
٭
” ان کل حدیث ھو مخالف الکتاب اللہ تعالٰی فھو مردود ۔“
( ہر حدیث جو کتاب اللہ کے مخالف ہو مردود ہے)
(اصول سرخسی ج١ص٥٦٣)
٭
” وما روی من قولہ علیہ السلام فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی۔“( اورجوقول مروی ہے آپ کا کہ (حدیث کو ) کتاب اللہ پر پیش کرو)
(ایضاًج٢ص٦٧)
٭
” وبہ نقول ان الخبر الواحد لا یثبت نسخ الکتاب ،لانہ لا یثبت کونہ مسموعاًمن رسول اللہ قطعاًوالھذالایثبت بہ العلم الیقین ،علی ان المرادبقولہ
(وما خالفہ فردوہ)“
(اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد سے کتاب اللہ منسوخ ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ بات کہ وہ رسول سے ہی سے سنی گئی ہے ،قطعی نہیں ،لھذا اس سے علم یقین پیدا نہیں ہوتا، آپ کے قول مراد یہی ہےکہ جو مخالف قرآن ہو اسے رد کردو
(ایضاً)
٭
” ولا یجوز ترک ما ھو ثابت فی کتاب اللہ نصاًعندالتعارض۔“
(نص،کتاب اللہ میں جو ثابت ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں ( جب اس کا حدیث سے) تعارض ہو۔)
( ایضاً)
(٣١)
مولانا حسن بن عمار بن علی حنفی” قالت (عائشة) کیف یقول رسول اللہ ذلک رد علی الراوی واللہ تعالٰی یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،ای فلم یقلہ۔“
( حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’ رسول اللہ کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں‘( کہ مُردوں نے سنا)اور آپ نے یہ راوی پرپر رد کیا ،’ جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ مُردوںکو نہیں سنا سکتے‘یعنی آپ نے یہ بات ہی نہیں کی ( کہ مخالفِ قرآن ہوتی)
( مراقی الفلاح شرح النورالایضاح ص٧٠٣)
(٤١)
” کیونکہ فقہ حنفی کے اصول میں ہے کہ استخراج واستنباطِ مسائل کے سلسلے میں قرآن حدیث پر مقدم ہے ،حدیث کا نمبر قرآن کے بعد ہے نہ کہ قرآن سے پہلے ۔ لیکن اگر اس کے متعلق کوئی آیت موجود نہیں تو ظاھر ہے کہ اب حدیثِ صحیح کو ہی مستدل بنایا جائے گا اور اگر کسی مسئلے میں احادیث متعارض ہوں تو دین کے ناقلینِ اول صحابہ کرام کے اقوال و افعال کسی ایک کے لئے وجہءترجیح بنیں گے۔“
( رسول اکرم کا طریقہءنماز ص١١)
(٥١)
امام ابن ھمام متوفی ١٨٦ھ”قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع بما اقول منھم واجابوا تارة بانہ مردود من عائشة قالت کیف یقول ذلک واللہ یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،انک لا تسمع الموتٰی ۔“
( اور آپ کا قول قلیبِ بدر کے متعلق کہ’ تم ان(مُردوں) سے زیادہ نہیں سنتے ہو جو میں ان سے کہتا ہوں ‘اور انہوں نے ایک مرتبہ جواب بھی دیا ،تو یہ رد شدہ ہے حضرت عائشہ سے کیونکہ آپنے فرمایا کہ آپ کیسے یہ قول کہہ سکتے تھے جبکہ اللہ کہتا ہے کہ آپ ان کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں اور آپ مُردوں کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے۔ )
( فتح القدیر ،ج٢ص٩٦)
(٦١)
مولانا قاسم نانوتوی بانیء دارالعلوم دیوبند” واقعی مخالف کلام نہ کہ محدث کا قول معتبر ہے اور نہ ہی کسی منکر کا بلکہ خود حدیث اگر مخالف کلام اللہ ہو تو موضوع سمھجی جائے گی ۔“
( تصفیة العقائد ص ٠٢)
(٧١)
علامہ ابن قیّم جوزی” ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة۔“
( اور ( حدیث کے موضوع ہونے کی ایک دلیل)قرآن کی صراحت کے حدیث کا مخالف ہونا ہے جیسے مقدارِ دنیا والی حدیث کہ دنیا کی کل عمرسات ھزار سال ہے۔)( حالانکہ یہ حس و مشاھدہ کے بھی خلاف ہے چہ جائیکہ قرآن)۔
( رسالہ المنار ص١٣، نیز موضوعات الکبیر ص٢٦١)
(٨١)
یعقوب بن اسحاق کُلینی رازی
(اثنا عشری شیعہ)
٭
” عن ابوعبداللہ علیہ السلام قال:قال رسول اللہ ان علی کل حق حقیقة وعلی کل صواب نورا فماوافق کتاب اللہ فخذہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ ۔“
(ابوعبداللہ علیہ السلام نے کہا کہ کہا رسول اللہ ہر ایک حق پر ایک حقیقت اور ہر ایک صحیح و صواب پر ایک نور ہوتا ہے تو جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو اسے پکڑ لو اورجوکتاب اللہ کے مخالف ہواسے ردکردو۔“
( اصولِ کافی،باب الاخذ بالسنةوھواھدالکتاب،ج١ص٨٨)
٭
” عن ایوب بن الحر قال: سمعت اباعبداللہ یقول کل شیءمردود الی الکتاب والسنةوکل حدیث لایوافق کتاب اللہ فھو زخرف۔“
(اصولِ کافی،ج١ص٩٨)
( ایوب بن حر نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ کوکہتے سنا کہ فرماتے ہں کہ ہرشیء کتاب اورسنت کی طرف پھیری جاےگی اور ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے موافق نہیں وہ بیکار چیز ہے۔)
٭
” عن ابوعبداللہ قال:خطب النبی بمنٰی وقال:ایھاالناس ماجاءکم عنی یوافق کتاب اللہ فانہ قلتہ وماجاءکم یخالف کتاب اللہ فلم اقلہ۔“
(ایضاً)
( ابوعبداللہ نے کہا کہ نبی نے منٰی میں خطبہ دیا اورفرمایاکہ اے لوگوں!میری طرف سے تم تک جو بھی (حدیث) آئے جوکتاب اللہ کے موافق ہوتوسمجھوکہ میں نے ہی کہا ہوگااوراگرکوئی (حدیث)کتاب اللہ کے مخالف ائے تو سمجھنا کہ میں نے نہیں کہا ۔)
(٩١)
سیدظفرالحسن امروہوی(شیعہ)” حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو۔“
( فروعِ کافی کا دیباچہ ،ج١ص٤)
(٠٢)
امام دارمی محدث سمرقندی’باب تاویل حدیث رسول اللہ‘۔عن ابی ہریرةفکان ابن عباس اذاحدث قال:اذاسمعتمونی احدث عن رسول اللہ فلم تجدوہ فی کتاب اللہ اوحسناعندالناس فاعلمواا¿نی قدکذبت علیہ۔“
(سنن دارمی ج١ص٤٥١،قدیمی کتب خانہ کراچی)
(یعنی امام دارمی نے باب قائم کیا ہے’حدیث رسول اللہ میں تاویل‘اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس جب حدیث بیان کرتے توکہتے :جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنواور تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاو یا وہ لوگوں کے نزدیک وہ اچھی چیزنہ ہو(یعنی معروف نہ ہو) توسمجھوکہ میں نے آپ پر جھوٹ باندھا۔) (یعنی میں نے غلط کہاکیونکہ اس کا امکان نہیں کہ آپ پر آپ جھوٹ باندھیں مگر اس پر تنبیہ کے لیے ایسا فرمایا)
(١٢)
امام سخاویملاعلی قاری اپنی ’موضوعات الکبیر‘میں امام سخاوی کا قول بھی یہی قول کرتے ہیں کہ ’ہمارے شیخوں کے شیخ شمس الدین نے ’مقاصد الحسنة فی بیان الاحادیث المشتھرة علی الالسنة‘کے خاتمہ میں کہاکہ(موضوع حدیث ہونے کی علامت )میں سے یہ بھی ہے کہ حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو ۔‘
(موضوعات الکبیر،فصل ٣١ص٦٢٣۔قدیمی کتب خانہ کراچی)
(ختم شد معیار حدیث، قرآن)

Monday 2 August 2010

تعلیم اور سماجی خرابیاں

تعلیم اور سماجی خرابیاں
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
عنوا ن کے دو جز ہیں
ایک ہے ”تعلیم“ اور دوسرا ہے ”سما جی خرا بیاں“ ۔
میں پہلے ”تعلیم“ کے با رے میں کچھ بنیا دی اور ضر وری امو ر پر روشنی ڈالنا چاہوں گا ، پھر ”سما جی خرا بیو ں“ پر ۔
”تعلیم“ یہ در اصل عربی زبا ن کا لفظ ہے، یہ مشتق ہے ”علم“ سے، با ب تفعیل کا مصدر تفعیل کے وزن پر تعلیم ہے، جس کے معنی ہے ”سکھانا“ اور باب تفعیل کی خاصیات میں ایک خا صہ ”تکلیف“ ہے، یعنی کسی چیز کو بہ تکلف انجا م دینا۔
اس سے یہ بات معلو م ہو ئی کہ بہر حال سکھا نا کو ئی آسا ن کا م نہیں، سکھا نے میں محنت اور مشقت سے کا م لینا ہو تا ہے، تب جا کر سیکھنے والے کو کچھ حا صل ہو تا ہے ۔
جیسا کہ ابھی ابھی بیا ن کیا گیا کہ ”تعلیم“ مشتق ہے ”علم“ سے اور مشتق اور مشتق منہ میں ربط کا ہو نا ضروری ہے ،لہٰذا تعلیم کے مغر بی اور اسلامی مقا صد اور نظر یا ت کو جاننے سے پہلے، ہم ”علم“ کی لغوی واصطلا حی تعریف اور اس کی تقسیم اور اسلا م اور مغر ب کا اس با رے میں کیا نظریہ ہے؟ اس سے واقف ہو جا ئیں، کیوں کہ علم پر تعلیم کا مدار ہے، لہٰذا تعلیمی نظریات میں اختلاف کا پہلا زینہ ہی ”علم“ ہے، اگر علم کی حقیقت میں اختلاف ہو گا تو تعلیمی نظر یہ پر بھی اس کا اثر ہوگا۔
علم کی لغوی تعریف
علم کہتے ہیں اس چیز کو جس کے ذریعہ اشیاء مختلفہ کا ملکہ پیدا ہو۔ (ابن فارسی)
اصطلاحی تعریف
”الصورة الحاصلة فی الذہن“ علم ذہن میں حاصل ہونے والی صورت کو کہا جاتا ہے۔
علم شرعی کی تعریف
﴿علم ما انزل اللہ علی رسولہ من الہدی و البیان﴾۔
علم شرعی اس کو کہتے ہیں جو اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہدایت اور وضاحت کی غرض سے نازل کیا ۔
اسلامی تناظر میں ’علم‘ کا اطلاق جمہورعلماء اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ”علم شرعی“ پر ہوتا ہے، کیوں کہ عام طورپر قرآن وحدیث میں ’علم‘ کا لفظ جب معرفہ استعمال کیاگیا، یعنی ”العلم“تواس سے مراد”علم شرعی“ ہی ہوتاہے، جیسے ایک مقام پر ارشادخداوندی ہے
﴿ولئن اتبعتَ اہواء ہم من بعد ماجاء ک من العلم﴾
حدیث میں بھی ”طلب العلم فریضة“سے اسی جانب اشارہ ہے۔
اورقرآن نے جب ”علم شرعی“ کے علاوہ کسی اور دنیوی علم کے لئے ”علم“ کا استعمال کیا تومثلاً: قارون کاقول نقل کیا ”قال انما أوتیتہ علی علم عندی“، اس میں علم نکرہ ہے، زمین سے خزانہ نکالنے کا فن اورہنرمرادہے۔ قرآن وحدیث میں غوروخوض سے اکثریہی محسوس ہوتا ہے۔
علم کاصحیح اسلامی مفہوم ومقصد
اسلام کا نظریہٴ علم، بالکل واضح ہے، اسلام نے اول یوم ہی سے علم کی ترغیب دی ہے اور اس کے بے شمار فضائل اور مناقب بیان کیے ہیں، بل کہ اسے مقصدِ حیات اور عبادت کا لازمی عنصر قرار دیا ہے، سب سے پہلی وحی علم ہی کے بارے میں نازل ہوئی، کیوں کہ علم کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں اور معرفتِ الٰہی کے بغیر اس کی عبادت صحیح معنوں میں متصور نہیں اور عبادت کے بغیر زندگی نہیں، گویا زندگی کو بامقصد گذارنے کے لیے علم زینہ اور وسیلہ ہے اور بغیر وسیلے اور زینے کے انسان کا بلندی پر چڑھنا ممکن نہیں، اسی طرح اللہ تک پہنچنا بھی بغیر علم کے ممکن نہیں، اسی لیے بعض مفسرین نے:﴿وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون﴾کی تفسیر اِلاَّ لیَعلمون سے کی ہے، یعنی پہلے ”یعلمون“ تب جاکر ”یعبدون“ علی وجہ المطلوب ادا ہوگا، ورنہ بغیر علم کے ”یعبدون“ کا تصور کماحقہ ناممکن ہے، جیسے وضوکے بغیر نماز نہیں ہوسکتی، آگ کے بغیر لذیذ کھانا نہیں پک سکتا، بالکل اسی طرح علم کے بغیر لذیذ یعنی صحیح عبادت نہیں ہوسکتی، اسی لیے غارِ حرا کی پہلی وحی میں ”اِقرأ بسم ربک“ کو نازل کیا گیا ”اعبُد رَبک“ کو نہیں نازل کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم وسیلہٴ عبادت ہے، بل کہ امام ابن شہاب زہری تو کہا کرتے تھے، کہ عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ”تحصیلِ علم“ہے، اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ علم اور اسلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسلام نے دنیا میں بے شمار انقلاب پیدا کیے، اسی میں سے ایک علمی انقلاب بھی ہے، اسی لیے اسلام نے معاملات اور معاشرت کے احکام پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ ان علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ علوم کونیہ، علوم تجربیہ سے بھی بحث کی اور ہر طرح کے علم کو، نیَّتْ کی درستگی کی صورت میں مفید اور باعث اجر وثواب گردانا، بل کہ کسی کو فرض کفایہ، کسی کو فرض عین، کسی کو مستحب اور کسی کو مندوب قرار دیا۔
اسلام نے اہلِ علم کو سب سے افضل قرار دیا، قرآن نے اعلان کیا: ﴿انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلماء﴾، کہیں ﴿قُل ہَلْ یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون﴾، کہیں قلم کی قسم کھا کر کتابت علم کی طرف اہتمام کا اشارہ دیا: ﴿ن ، و القلم و ما یسطرون﴾، کہیں تفکر اور تدبر کی دعوت دی اور کہا: ﴿ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ہل تری من فطور﴾، کہیں کہا :﴿أ فَلا یتدبرون القرآن﴾، کبھی حقائق کو معلوم کرنے کے لیے ﴿سیروا فی الأرض فانظروا﴾کہہ کر حوصلہ افزائی کی، کہیں خود اپنی خلقت پر غور و فکر کی دعوت دی: ﴿وفی انفسکم أفلا تبصرون﴾ کہا، تم خود اپنی ذات پر غور وفکر نہیں کرتے، کہیں چاند اور سورج کی منزلوں، رات و دن کے آنے جانے کو معجزہٴ الٰہی کے طور پر بیان کیا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے ”علوم“ کے دروازے کھول کر رکھ دیے اور مسلمانوں کو اس میں غوطہ زنی کی دعوت دی اور بابِ علم کو مسابقہ آرائی پر آمادہ کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ”امتِ مسلمہ“ نے اس باب میں بے مثال کردار ادا کیا، اور ہر فن میں اولویت کا اسے شرف حاصل ہے، تاریخ نے اپنے صفحات پر نقش کر لیا کہ روئے زمین پر تخلیق آدم سے لے کر اب تک اگر پڑھنے لکھنے کا ریکارڈ کسی کے نام ہے تو وہ اسی امت محمدیہ کے نام ہے، جس نے علم کی تحصیل ، تالیف وتصنیف، تدوین و تحقیق، جدت اور ابتکار اور دقت و عمق میں جو عظیم کردار ادا کیا، کوئی نہ اس سے پہلے اس کا ہمسر ہو سکا اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔
آغوشِ اسلام میں اتنے علوم و فنون پلے بڑھے اور وجود میں آئے کہ اس کا احاطہ ناممکن ہے، آج دنیا میں جو بھی ظاہری و باطنی ترقی ہو رہی ہے وہ سب امتِ مسلمہ کے فیض بے مثال کا نتیجہ اور ثمرہ ہے، ان تمام علوم کی تخم ریزی اسلام اور اہلِ اسلام نے ہی کی ہے، اور چھان پھٹک کا صحیح حق اسی نے ادا کیا ہے (یعنی فلاسفہٴ یونان، ہند، فار س وغیرہ نے اپنی کاوشوں میں جو ٹھوکریں کھائی تھیں، ان کی تحقیقات کا غائرانہ اور ناقدانہ مطالعہ کرکے اس کی نشاندہی کی) اللہ علمائے اسلام کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے۔ آمین!آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی،فلسفہٴ ہند، فلسفہٴ فارس ، فلسفہٴ روما کے دوش پر ہے، تو سراسر ناانصافی اور غلط بیانی ہے اور حقائقِ تاریخ میں تحریف ہے، اس لیے کہ اہلِ اسلام نے ان فلسفوں میں جو غش اور کھوٹ تھی، اسے چھان کر منقح کیا، ”علم وحی“ کے بعد ، جو کہ خالق و مالک نے اپنے لامحدود اور وسیع علم سے عطا کیا تھا۔انصاف پسندوں کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک علم پر محنت کرکے ”انسانوں“ کو صحیح رُخ پر لاکھڑا کیا، اسی کے روشن کیے ہوئے چراغوں سے آج دنیا روشنی حاصل کررہی ہے، ”انسانیت“ کو اس بات پر مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور بجائے اس کے کہ وہ ان پر ظلم کرے انہیں مزید موقع دینا چاہیے، تاکہ ”مکار“ مغرب کی طرح علم کے نام پر دنیا ضلالت و گمراہی کی راہ سے ہٹ کر مدلل و مبرہن اسلام کو قبول کرلے، اگر واقعتا ان میں ”علمیت پسندی“ اور ”جذبہٴ معرفت“ ہے، کیوں کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اس کے بغیر کوئیچارہ ہی نہیں۔کیا لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں اور بینائی سلب ہو چکی ہے، اس بات کے سلسلہ میں کہ ”امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوات“ کے ہزاروں افراد نے اپنی قیمتی زندگیوں کو محض انسانیت کی نفع رسانی کی لیے صرف کردیااور ﴿اُخرجت للناس﴾ کا حق ادا کردیا، جس کے نتیجہ میں کتابوں سے مکتبے کے مکتبے بھر گئے، آج ان کی کاوشوں کے عُشر عشیر کی طباعت کے بعد یہ حال ہے، حالاں کہ ابھی تو اس سے دسیوں گُنا کاوش مخطوطات کی صورت میں طباعت کی منتظر ہے، اور اعدائے اسلام نے دشمنی کی خاطر کتنے بڑے بڑے ذخیروں کو برباد کردیا، یا جلا دیا، یا سمندر کی نذر کردیا۔علوم کی تعداداس امت نے انسانوں کو کتنے علوم مدون کرکے فراہم کیے ، اس سلسلے میں امام رازی اپنی کتاب ”الاَنوار فی حقائق الاَسرار“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”امتِ محمدیہ کے مدون کردہ علوم کی تعداد 60ہے، امام عبدالرحمن بن محمد بسطامی کی رائے کے مطابق 100 علوم ہیں، شیخ عصام الدین احمد ابن مصطفی طاش کبری زادہ کی تحقیق کے مطابق 500 ہیں اور بعض نے اس سے بھی کئی گنا زیادہ شمار کرائے، کسی کو اگر یہ شبہ ہو کہ یہ سب مبالغہ آرائی ہے، تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں، یا تو تعصب یا تاریخ سے عدم واقفیت، کیوں کہ یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہے، آپ ”علمائے اسلام“ کے تصنیفی، تالیفی، اور علمی کارناموں کو اٹھا کر پڑھیے، بات سمجھ میں آجائے گی۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس مذہب نے علم کو دین کا ایک لازمی جز اور عضو قرار دیا ہے، جس کے بغیر کسی کو چارہ نہیں اور اعلان کیا: ﴿طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة﴾۔(تنزیہ الشریعة:258/1، بحوالہ جامع بیان العلم وفضلہ:ابوعمر یوسف ابن عبدالبر)علم کا صحیح اسلامی مفہوماِختراعات کے اس دور میں، جو فتنوں کے عروج کا دور ہے، جہاں بہت سارے الفاظ و اصطلاحات کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹا کر غیر اصل کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں میں سے ایک علم بھی ہے، ”روشن خیال“ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا اچھا خاصا سنجیدہ دین دار طبقہ بھی بے جا وُسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معنیٴ علم میں بے جا وسعت دینے کے درپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علم ایک اِکائی ہے، اس کی تقسیم ممکن نہیں، لہٰذا علم دین اور علمِ دنیا یہ تقسیم غلط ہے، تمام علوم ایک ہی ہیں۔ قرآن و حدیث نے جس علم کی فضیلت بیان کی ہے، وہ ان تمام کو شامل ہے، جب کہ علمائے ربانیین اور راسخین فی العلم کی اکثریت بل کہ جمہور علما اس کے قائل ہیں کہ یا تو علم کی تقسیم ہی مُسَلَّم نہیں، علم صرف ایک ہے اور وہ ہے علم دین، کیوں کہ آخرت کی فکر وہی پیدا کرتا ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو فضیلت وارد ہے، وہ صرف اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں اور دنیوی علم، علم کے زمرے میں داخل ہی نہیں، وہ تو فن، ہنر اور کاری گری ہے، وہ علم کہے جانے کے قابل ہی نہیں، تب ان کا بھی موقف یہی ہے کہ علم اِکائی نہیں بل کہ علم ایک ہی ہے اور اگر لغتاً معلومات کے معنی میں لیا جائے تب تو تقسیم کے سوا چارہٴ کار نہیں، آخرت کی فکر پیدا کرنے والا علم دین اور دنیا اور معاش کا مسئلہ حل کرنے والا علم دنیا۔ اسی کو علم معاش و علم معادبھی کہتے ہیں۔حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:” علم کا شرف معلوم کے شرف پر موقوف ہے اور معلوم اس کو کہتے ہیں جس کے حالات اس علم میں بیان کیے جائیں۔علم دین کا معلوم حق تعالیٰ شانہ کی ذات ہے اور تمام علم دین کا حاصل بھی یہی ہے اور دیگر تمام علوم کا معلوم ماسوی اللہ ہے، پس جو نسبت دنیا یا ماسوی اللہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ہے، وہی نسبت علوم دنیویہ کو علم دین کے ساتھ ہوگی اور اس کی نسبت بجز اس کے کیا کہا جاسکتا ہے # چہ نسبت خاک را با عالم پاکحق تعالیٰ کی ذات وصفات تو کسی چیز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں رکھتی، وہ باقی اور سب فانی، وہ زندہ اور سب مردہ، وہ غنی اور سب محتاج، وہ موجود اور سب معدوم (کل شیء ہالک الا وجہہ)۔ غرض دونوں چیزوں میں کوئی نسبت نہیں قرار دی جاسکتی ہے، سوائے اس کے کہ علم دین پر موجود کا اطلاق کیا جائے اور علم دنیا پر معدوم کا، اب میرا دعویٰ قریب الفہم ہوگیا ہے، کہ علم دین کے سامنے دیگر علوم علم کہلانے کے مستحق ہی نہیں تو مقابلہ کیا کیا جائے! علومِ دنیا کو علم مت کہو، فن کہو، پیشہ کہو، حرفت کہو۔ “ (انفاس عیسیٰ)شیخ الاسلام ترجمان اہل سنت و الجماعت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ تو ”جدید دور میں علم اور اس کا استعمال، فتنہٴ الفاظ کا جائزہ“ کے تحت فرماتے ہیں: ”موجودہ دورکے علمی و ذہنی فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ ”فریب الفاظ“ کا بھی ہے، ایک لفظ جسے ہم بولتے ہیں، وہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایسے حقائق پر مشتمل ہوتا ہے، جو بالکل صحیح و صادق، مقدس و متبرک، اور نہایت معقول و محمود ہے، مگر اسی لفظ کے عام لغوی معنی کی وسعت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اسے بہ طور تلبیس و تلمیح، ایک ایسے معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو بجائے مقبول ہونے کے مردود اور مذموم ہوتا ہے، اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مخاطب کو مغالطہ دے کر، محض خوش نما اور دل فریب الفاظ سے مسحور کردیں۔آزادی ، مساوات ، تہذیب ، ترقی اور اسی طر ح کے اور الفاظ ہیں، جو اگر اپنے اصلی وحقیقی معانی میں مستعمل ہوں ، نہا یت محمود، مستحسن اور قابلِ تعریف ہیں ، لیکن جب کسی زشت وشنیع مفہوم کو خوبصورت ظاہر کرنے کے لیے یہی الفاظ بطو ر نقاب استعمال ہونے لگیں تو یہ خالص تلبیس و خداع ہے ۔ ٹھیک یہی صورت آج کل، لفظ ”علم “ کے متعلق واقع ہوئی ہے۔کسی مسلم اسکو ل کا افتتا ح ہو ، کسی کا لج کی بنیاد رکھی جائے، کسی یونیور سٹی کی تقسیم اسناد کا جلسہ ہو ، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرات مقررین کس شدومد سے ”علم “ کے فضائل میں، قرآنِ پاک کی بہت سی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث پڑھتے رہتے ہیں، گویا اپنے اس طرزِعمل سے مخاطبین پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جدید علم کے ایسے ایسے فضائل قرآن پاک میں موجود ہیں، حالاں کہ قرآن کریم کو ایک سرسری نظر سے پڑھ جائیے تو ظاہر ہوجائے گا کہ وہ خود علم کی دو قسمیں قرار دیتا ہے:ایک علم نافع ومطلوب ومحبوب؛ دوسرا مضرومردود․․․․․․اس کے نزدیک ایک علم زہر ہے، دوسرا تریاق، ایک پاک شراب ہے، دوسرا محض سراب۔ ایک سببِ ہلاکت ہے ، دوسرا سامانِ نجات۔ ایک آسمان کی بلندیوں پر اٹھا نے والا ہے ، دوسرا اسفل السافلین کی پستیوں میں پہنچانے والا ۔جو علم اپنے اثرات کے اعتبار سے آخرکار خشیت الٰہی اور رغبتِ آخرت پر منتج نہ ہو ، جو علم انسان کو خدا سے نڈراور زندگی کے آخری انجام سے بالکل غافل کردے، جو علم ایسی مادی دنیا کی لذت وانبساط وشہوات حیوانیہ کو (خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں ہوں) انسان کا معبود ٹھہرائے ، کیا ایسا علم بارگاہ رب العزت میں درخور اعتنا یا لائق التفات ٹھہرسکتا ہے؟ یا قرآن حکیم اس کے اکتساب کی ایک لمحہ کے لیے بھی ترغیب دے سکتا ہے ؟قرآن تو ایسے علم کی نسبت صاف طور پر یہ حکم دیتا ہے:﴿فَاعرض عن من تولیٰ عَن ذکرِنا و لم یرد الا الحیوة الدنیا ذلک مبلغھم من العلم ﴾․یعنی تومنہ پھیرلے اس کی طرف سے ، جس نے ہماری بات سے منہ پھیرلیا اور جس کا مقصد اس دنیوی زندگی سے آگے کچھ نہیں ،ان کے علم کی رسائی اور پرواز یہیں تک ہے۔اس کے بالمقابل ایک وہ لوگ ہیں ، جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، اس کی مخلوق پر رحم کھاتے ہیں اور ادب وتہذیب کے قاعدوں پر عمل کرتے ہیں۔اخلاقی پاکیزگی ان کا جوہر ہے ، ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ہیں۔ غرض کہ علم ان کے اندر اِنابت الی اللہ، رحمت علی الخلائق کے اوصاف پیدا کرتا ہے، تو اسی طرح کے اولواالعلم کے حق میں حق تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿یرفع اللہ الذین اٰمنوا منکم و الذین أوتوا العلم درجات﴾۔قرآن پاک نے ایک شخص (قارون ) کا ذکر کیا ہے ، جس کی دنیوی دولت اب تک ضرب المثل ہے۔ جس کے خزائن کی کثرت کا اندازہ ﴿ان مفاتحہ﴾ کے الفاظ سے ہوسکتا ہے ، جس کا سامان دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں ، حتی کہ بہت سے تمنا کرتے تھے کہ﴿یالیت لنا مثل ما أوتی قارون انہ لذو حظ عظیم﴾ اس نے ترقی کی اس معراج پر پہنچ کر ایک علم کا دعویٰ کیا تھا ، جس کے ذریعہ اس کویہ عروج حاصل ہوا ﴿قال انما أوتیتہ علی علم عندی ﴾․بہر حال وہ علم تھا ، اس کے بالمقابل دوسرا گروہ تھا ، جس کا ذکر حق تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے : ﴿وقال الذین أوتوا العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن آمن و عمل صالحًا﴾یہ﴿الذین اوتوا العلم ﴾ اُس علم والے تھے جوقارون کے اُس تمام ترقیات اور علم وہنر کو حقیر سمجھ رہے تھے اور اُدھار کو نقد پر ترجیح دے رہے تھے۔ قرآن کریم نے تو ایک آیت میں مسئلہ کا دوٹوک فیصلہ کردیاہے: ﴿انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء﴾․اس ”انما“کے لفظ پرغور کیجیے ۔ گویا جو علم قلب میں خشیت الٰہی پیدا نہ کرے ، وہ علم ہی نہیں ۔ ایسے اصطلاحی علم سے جہل ہزاردرجے بہتر ہے ۔حدیث صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے ، جو نفع سے خالی ہو، قرآن کریم میں بھی ہے: ﴿و یتعلمون ما یضرھم و لا ینفعھم﴾(سورہٴ بقرہ:102) معلوم ہواکہ علم نافع بھی ہوتا ہے اور مضر بھی۔پس ایسے علوم جو انسان کو شیطان یا درندہ بنادیں یااسے ترقی یافتہ بہائم کے زمرہ میں داخل کردیں ۔ان کی طرف ترغیب دلانے کے موقع پر مطلق علم کے فضائل قرآن وحدیث سے پیش کرنا ،انتہائی تلبیس اور گمراہی ہے۔مقصد یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ علوم وفنون حاصل نہ کیے جائیں ، لیکن درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ، اگر علم وفن کی ترقی کا ما حصل یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں تو فی الحقیقت ایسے علم سے جہل بہتر ہے ، اگر علم وفن کی چکا چوند کرنے والی ترقیات مذہبی اور دینی علم وتہذیب کے ماتحت رہتیں تو دنیا کو ایسے بھیانک نتائج ہرگز نہ دیکھنے پڑتے ۔“ (بیداری ، حیدرآباد ،سندھ ، جون2006ء)مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں: ایک علم، دین اور دنیا کے اعتبار سے۔ اور دوسرا نفع اور نقصان کے اعتبار سے۔ تحصیل علم دین تو خیر الناس والا عمل یعنی انسانوں کے کاموں میں سے ایک بہترین کام ہے، البتہ علم دنیا کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے، ہاں! اگر اچھی نیت ہو، مثلاً کسبِ حلال کی نیت سے تمام دینی احکام کی رعایت کرتے ہوئے اسے حاصل کیا جائے تو ہوسکتا ہے کارِثواب ہو جائے ، جب کہ کسی حلال چیز کا کسب حلال طریقے سے ہو اور اگر محض ”علمِ دنیا“ ہی مقصود ہو، تب تو ہلاکت اور ضرر کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جتنی احادیث اور آیات فضیلتِ علم میں وارد ہوئی ہیں وہ سب علم دین کے بارے میں ہیں۔ حضرت تھانوی تو فرماتے ہیں کہ علم نام ہی علمِ نافع کا ہے، ورنہ اگر عمل نہ ہو تو علم نہیں معلومات ہے، چاہے علمِ دین ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ ایسا علم دین، جس پر عمل نہیں، بندہ پر حجت اور دلیل بن جاتا ہے، جو ازدیادِ عذاب کا سبب ہوگا، اسی لیے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں، کہ علم کا ثمرہ اور اس کی حقیقی علامت اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے۔علم کی تعریف ومقصدمگر یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم وہی ہے جس سے انسان کو انسانیت کا سبق ملے ، اخلاق فاضلہ میں رسوخ حاصل ہو ، تہذیب وشرافت پروان چڑھے اور اس کے ساتھ وہ حق وباطل میں تمیز ، مغز وپوست میں فرق اور صلاح وفساد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بخشتا ہو اور انسان کو صراط مستقیم پر گام زن کرتا ہو اور رضائے الٰہی اور قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال کرتا ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سائنس وٹکنالوجی (Science & Technology) کے علوم ہوں یا طب وانجینئری کے فنون ہوں، تاریخ وفلسفہ کے اسباق ہوں، یازبان وادب کے دروس ہوں، اگر یہ تمام علوم وفنون انسان کو اس مقصد تک پہنچاتے ہیں جو ابھی مذکور ہوا، تو بلا شبہ یہ علوم و فنون ہیں اور اگر اس مقصد تک نہیں پہنچاتے تو یہ سب ایک شعبہٴ جنون ہے۔ علامہ اقبالنے کہا ہے # جوہر میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ (جواہرِ شریعت:ج1/107)تعلیم اور ہمارے اسلاف چناں چہ جس دور میں یہ تمام علوم وفنون اہل اسلام کے ہاتھوں پروان چڑھ رہے تھے، ان علوم وفنون سے انسان کو انسانیت کا سبق ، شرافت کا درس ، اخلاق فاضلہ میں رسوخ ، حق وباطل میں تمیز وپہچان کی صلاحیت ، بھرپور طریقے پر حاصل ہوتی رہی اور انسان ہدایت کی شاہراہ پر گام زن اور صراط مستقیم پر قائم تھا ، سائنس کا ہر سبق اس کے لیے وجود خداوندی اور توحید باری کا سبق تھا، ٹکنالوجی کے فنون اس کے لیے قدرتِ خداوندی پر یقین کا باعث بن جاتے تھے،تاریخ کے واقعات اور قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں اس کے لیے عبرت وموعظت کے اسباق قرار پاتے تھے اور وہ ان سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتاتھا:غرض یہ کہ تمام علوم وفنون اس کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ رضائے الٰہی و قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال ہوجاتا تھا۔(ایضاً:18)زوالِ اسپین کے بعدمگراسپین کے زوال کے بعد جب یہ تمام علوم وفنون ( جن کو ہمارے اسلاف نے ایمانی فراست اور روحانی حرارت کے ذریعہ پروان چڑھایا تھا اور وہ ان علوم وفنون سے انسانیت کی خدمت لیتے رہے تھے) الحاد ودہریت کے شکار لوگوں ، خداورسول کے باغیوں ، انسانیت وشرافت سے محروم لوگوں ، حرص و ہوس کے پجاریوں کے ظالمانہ ومجرمانہ پنجے اور قبضے میں چلے گئے ، تو ان علوم وفنون کو ان کے اصل مقصد ومنشا کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اوراپنے ذاتی مفادات کے لیے ان کا کھلے طور پر استحصال کیا جانے لگا ۔اور یہ ملحد وزندیق اور اہلِ حرص وہوا لوگ اپنی مکاری وعیاری ، چالاکی وچالبازی سے شعبہٴ تعلیم پر چھاتے ہی چلے گئے ، یہاں تک کہ ان علوم وفنون کو انہوں نے خدا اور رسولوں سے بغاوت ، مذہب وایمان سے عداوت ، انسانیت وتہذیب سے کھیل واستہزا اور اخلاقی اقدار کی تحقیر وتوہین کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔اور آج کے دور میں علم وتعلیم نام ہی اس بات کا ہے کہ مذہب وایمان کو فضول اور بے کارچیز سمجھا جائے ، اخلاقی اقدار، جیسے شرم وحیا تواضع وانکساری، احسان وسلوک وغیرہ کو عجز وکمزوری پر محمول کیا جائے اور انسانی اقدار کو دقیانوسی ٹھہرایاجائے اور اس کے برعکس ہر بے حیائی اور بے شرمی کو تعلیم کا لازمہ اور ہر بے ایمانی اور بد اعتقادی کو عقل وشعور کا نتیجہ اور ہر بد اخلاقی وبدتہذیبی کو روشن خیالی کا اثر قراد دیا جائے ۔ (ایضاً:19)اب آیئے! علم کے بارے میں مغربی نظریات پرایک نظر دوڑائیں۔علم کے بارے میں مغربی نظریاتالحمدللہ! اللہ نے ہمیں مشرق میں پیدا کیا، کیوں کہ اسم کا اثر مسمّٰی میں پایا جاتا ہے؛ مشرق کے معنی ”روشن“۔ اور الحمدللہ! مشرق کی تاریخ ہمیشہ روشن رہی ہے، پہلے نبی بھی اور اولواالعزم انبیا بھی اسی حصے میں مبعوث کیے گئے، بلکہ تمام انبیا اسی خطے میں مبعوث ہوئے۔ مغرب میں انسان آباد ہی مدتوں بعد ہوا، وہ انسان کی آبادی کے اعتبار سے بھی موٴخر اور اس کے افکارونظریات بھی ظلمت کے شکار، ان کے اخلاق و اطوار بھی نہایت پست اور ان کی معیشت و معاشرت برائیوں سے تعبیر۔ تو آیئے! مغربی نظریہٴ تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔مغربی نظریہٴ علم کی اساس اور بنیاد ”عقل انسانی، مشاہدہ، تجربہ“ ہے؛ وحی سے کٹ کر محض ”عقل، تجربہ اور مشاہدہ“ پر پوری صلاحیتیں مرکوز کی جائیں۔ (مستفاد از اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش:52)اسی مغربی نظریہٴ علم کی وجہ سے مغرب نے دنیا کو ملحد دیے ، اس کا اندازہ ذیل میں دیے جارہے : ان کے نظریات اور اقوال ہوسکتا ہے۔
سورج کی مرکزیت کا نظریہ
کوپرنیکس
(Copernicus-1473-1543)
کا نظریہ: اس نے کائنات کا مرکز سورج کو ثابت کیا، جس سے انسان کی اشرفیت بھی ختم ہوگئی، کیوں کہ قرآن نے اصل مخلوق انسان کو قرار دیا۔﴿خلق لکم ما فی السموات وما فی الأرض﴾۔
خالص مادہ پسندانہ نظریہ
دیکارٹ
(Descartes-1597-1650)
کا نظریہ دیکارٹ نے روح کو مادی جز سے اور ذہن کو جسمانی جز سے جدا کردیا، جس کے نتیجہ میں روح پر محنت کو ترک کر کے، انسان مادہ اور مادیت کے پیچھے لگ گیا اور اس طرح گمراہیوں کا دروازہ کھول دیا گیا، اسی لیے دیکارٹ کو الحاد جدید کا محرک کہا جاتا ہے؛ اس نے وحی کا انکار کردیا اور کہا: ”علم“ حواس اور عقل ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
نظریہٴ انکار خالق
اسحق نیوٹن
(Isac newton-1642-1727)
نے خالق کا انکار کیا اور دعوی کیا کہ کائنات اور تمام اشیا خود بہ خود وجود میں آئیں اور طبعی قوانین کی روشنی پر دنیا جاری وساری ہے۔
مادے کے غیرفانی ہونے کا نظریہ
لوائے زر
(Lavoisier-1743-94)
نے مادے کو غیرفانی قرار دیا یعنی یہ دنیاغیر فانی ہے، کبھی فنا نہ ہوگی، جس کو اب خود سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے۔
مادے کے وجود حقیقی کا نظریہ
ٹائٹ
(P.G.Tait-1876)
نے کہا کہ حقیقی وجود مادے کا ہے، انسان مادے کو نہ فنا کر کرسکتا ہے اور نہ پیدا کرسکتا ہے۔
نظریہٴ ارتقا
آخر کار چارلس ڈارون
(Dorwin-1809-82)
نے کہاکہ طبعی قوانین کے زیرِ اثر دنیا میں حیات نمودار ہوئی اور حیات سے جرثومہ اور جرثومہ سے خلیہ اور خلیہ سے حیوان اور حیوان سے ترقی کرتے کرتے انسان وجود میں آگیا، مگر بیسوی صدی میں خود سائنس نے اس کی تردید کر دی اور ثابت کیا کہ ہر مخلوق الگ الگ ہے، ڈارون نے یہ بھی دعوی کیا کہ عقلِ انسانی غذا تلاش کرنے کا ایک آلہ ہے۔
نظریہٴ جنسیت
فرائڈ
(Frend-1856-1939)
نے کہا کہ ذہن انسانی غیر مادی نہیں اور انسان کے اعمال کا محرک اول جذبہ کشش جنسی ہے اس کے افکارنے آزادشہوت رانی کی راہ ہموار کی اور ازدواجی تعلقات کی اہمیت ختم ہوگئی۔
نظریہٴ انکار مذہب
ڈرکھائم
(Durkheim-1912)
نے دعوی کیا کہ مذہب کا آغاز طوطمیت کے خرافات سے ہوا ،خوف ،خرافات ،شرک وبت پرستی کے مختلف مراحل سے گذر کر توحیدی مذاہب وجود میں آئے، اس طرح مذہب کی بندش سے انسان کو آزاد کر دیا گیا۔
نظریہٴ انکار شعور
واٹسن
(Watson-1958)
نے انسان کے ذہنی شعور کا انکار کر دیا اور جسمانی کردارہی کو اصل قرار دیا۔
نظریہٴ نقص انسان ماضی
والٹیئر
(Voltair-1758)
نے ماضی کے انسان کو ناقص قرار دیا،جس سے انبیا کی عظمت کو پامال کر دیا گیا۔
نظریہٴ ضبط ولادت
مالٹھیس
(Malthus-1834)
نے اللہ کی رزاقیت کا انکار کیا اور برتھ کنڑول کانظریہ پیش کیا۔
نظریہٴ انکار غیب
ہیگل
(Hagla-1831)
نے دعوی کردیا کہ جو موجود ہے وہی حقیقت، اس طرح غیبیات کا انکار لازم آیا۔
نظریہٴ تفریق معیشت و دین
آدم اسمتھ
(Adam smith-1823)
نے معاشیات سے مذہب کو خارج کر دیا ۔
نظریہٴ تفریق قانون و مذہب
جین آسٹن
(Jane Austin-1813)
نے قانون سے مذہب کو نکال باہر کیا۔
نظریہٴ انکار مذہب
ء1766
میں فری میسن لاج
(Free mosson ladae)
نے انسانی معاملات سے مذہب کو خارج کر دیا اور سیکولرازم کی بنیاد باقاعدہ ڈال دی۔
نظریہٴ عدم ابدیت خیر و شر
اسٹورٹ مل
(Sturt Mill-1873)
نے خیر وشر کو نفع بخش اور مضرت رساں کے پیمانہ پر رکھ دیا کہ جو نافع ہے وہ خیر اور جو مضر ہے وہ شر۔
نظریہٴ انکار آخرت
ہولیاک
(Holyake-1906)
نے آخرت کے وجود کا انکار کردیا۔
نظریہٴ وجودیت
جان پال سارتر
(John Pall Sarter)
نے وجودیت کے نظریہ کی تائید کی ،اور کہا آزادی کے لئے خدا مذہب اور اخلاق سے بے زاری لازم ہے۔
نظریہٴ انکار خدا
کارل مارکس
(Karl Marc-1883)
نے کارزار حیات میں خدا کی کار فرمائی کا انکار کردیا۔
نظریہٴ موت خدا
نطشے
(Nietshe-1900)
نے توایسی جرأت کی کہ( الامان والحفیظ)” خدا مر چکا “ہے ،اناللہ وإنا الیہ راجعون
نظریہٴ انکار اخلاق
جان دیوی
(John Dewy-1902)
نے اخلاقی قدروں کا انکار کر دیا۔
نظریہٴ تفریق قوانین و مذہب
1648ء
میں یورپ کے سیاست دانوں نے صلح نامہ ویست فیلیا
(Treaty of west phalia)
کے ذریعہ مذہبی اور دنیوی قوانین میں تفریق کی قرارداد پاس کی ۔
نظریہٴ حقوق نسواں
والسٹن کرافٹ
(Wall stone craft-1797)
نے خواتین کے حقوق کا ہوا کھڑاکیا۔
نظریہٴ پرستش وطن
فکٹے نے سب سے پہلے وطن پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ حقوق انسانی
1789 ء
French Revolution
کے دوران”حقوق انسانی “کے نام پر” قانون عوام کی رضامندی کے مطابق ہو“کااعلان کیا گیا۔
نظریہٴ ریاست پرستی
ہیگل
(Hagal)
نے ریاست پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ مساوات مردوزن
(Sturt Mill-1873) اسٹورٹ مِل
نے مساوات مردوزن کا نعرہ بلند کیا۔
نظریہٴ نسل پرستی
(Gobineau-1862) گوبینو
نے نسل پرستی کا نظریہ پیش کیااور کہاکہ انسانوں میں سفید فام سب سے اعلیٰ ہے۔
نظریہٴ ہم جنسیت
(Thams mann-1955) تھامس مین
نے ہم جنس پرستی کے حق میں زبردست پروپیگنڈہ کیا۔
نظریہٴ اجتماعیت
(Lenin-1924)لینن
نے قومیتوں کا نظریہ پیش کیا ۔ (مستفاد از مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ:ص40 تا 58)
یہ تو مشت از خروار ے چند مشہور نظریات کو بیان کیا گیا ہے، ورنہ ایسے دسیوں اور سیکڑوں نہیں، ہزاروں نظریات مغرب میں ظاہر ہوئے اور فنا بھی ہو گئے، کسی نے صحیح کہا ہے کہ انسان کو (24) گھنٹے میں80 ہزار وسوسے آتے ہیں ۔

Followers