Saturday 21 August 2010

احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے

احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
احادیث کے پرکھنے کے لئے سب سے پہلا اصول اور سب سے اہم معیار خود قرآن ہی ہے۔جو حدیث قرآن کے خلاف یا معارض ہوگی وہ رد کردی جائے گی۔جیسا کہ ضمناً ان عبارتوں سے جو پہلے گزریں ،سے ثابت ہوا کہ قرآن جو قطعی اور یقینی ہے ،اسکے خلاف یا معارض حدیث نہیں ہوسکتی ،جو کہ ظنّی ہے۔اب ہم احادیث اور اقوالِ علماءکو نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ قرآن ہی اصلِ معیاراور پہلا
اصول ہے احادیث کے قبول و رد کا
(ا)
امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١،میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)
(٢)
علامہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی متوفی ٨٤٧ھ٭” فقولہ علیہ السلام تکثر لکم احادیث من بعدی فاذاروی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( تو آپ علیہ السلام کا قول کہ میرے بعد تمہارے لئے احادیث کی کثرت ہوجائے گی تو جب اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( التوضیح والتلویح،بحثِ سنت،ص٠٨٤)
اس کتاب کے ماتِن صدرالشریعہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی ہیں اور ان کا متن ’التوضیح‘ کہلاتا ہے۔اور اسکی تشریح دوسرے مشہور و معروف عالم و متکلم علامہ سعدالدین تفتازانی شافعی متوفی ٢٩٧ھ نے’ التلویح‘ کے نام سے لکھی اور یہ دونوں ’التوضیح والتلویح‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ لکھتے ہیں کہ:
٭
” فدلّ ھذا الحدیث علی ان کل حدیث یخالف کتاب اللہ (تعالٰی) فانہ لیس بحدیث الرسول وانما ھو مفتری وکذلک کل حدیث یعارض دلیلاً اقوٰی منہ فانہ منقطع عنہ علیہ السلام لان الادلة الشریعة لا یناقض بعضھا بعضاً وانما التناقض من الجھل المحض۔“
( تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کی مخالف ہو ہرگز رسول (اللہ ) کی حدیث نہیں ہے اور وہ افتراءہے اور اسی طرح ہر وہ حدیث جو کسی زیادہ قوی دلیل کے معارض و مخالف ہو وہ بھی آپ علیہ السلام سے منقطع ہے( یعنی صحیح نہیں ) کیونکہ شریعت کے دلائل آپس میں ایک دوسرے کے معارض و مخالف و مناقض نہیں ہوسکتے کیونکہ تناقض تو محض جہل ہے۔)
( التوضیح والتلویح ص٠٨٤)
(٣)
علامہ حافظ جلال الدین سیُوطی متوفی ١١٩ھ” بما روی ان النبی قال: ما جاءکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ،فما وافقہ فاَنا قلتہ وما خالفہ فلم اقلہ۔“” روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ جو حدیث تمہارے پاس آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر اس ( قرآن) کے موافق ہو تو (سمجھوکہ) میں نے ہی کہی ہے اور اگر مخالف ہو تو (سمجھوکہ) میں نے نہیں کہی ۔“(مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص١٢)
(٤)
ملا علی قاری حنفی متوفی” (فصل) ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة ونحن فی الالف السابعة وھذامن ابین الکذب۔“( اور اس(اصولِ حدیثِ موضوع) میں سے ہے کہ حدیث صریحاً قرآن ہی کے مخالف ہو(تووہ موضوع ہوگی) جیسے حدیث ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار سال میں ہیں ( اور ابھی تک دنیا بھی ہے لھذا یہ صریحاً غلط ثابت ہوگئی) اور یہ انتہائی کھلا ہوا جھوٹ ہے۔)(موضوعات الکبیر ص٢٦١)
(٥)
محمد نظام الدین الشاشی المعروف بہ ملا جیون متوفی” بقولہ اذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( اور آپ کا قول کہ جب تم سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو اسکے موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اسے رد کردو۔)( فقہِ اصول حنفی کی مشہور کتاب جو مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے ’ نورالانوار ص ٥١٢،اور اسکے مصنف ملا جیون مغل بادشاہ عالمگیر کے استادتھے! )
٭
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:” اذا بلغکم منی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( مفہوم وہی جو اوپر گزرا)
( مقدمہ تفسیر احمدیہ ص٤، بحوالہ جاءالحق از مفتی احمد یار خان گجراتی ص٤٣)
( ٦)
حافظ ابن کثیر متوفی” وقال ابن جریر حدثنا محمد بن اسماعیل الَحمسی اَخبرنی جعفر بن عون عن عبدالرحمان بن المخارق عن ابیہ المخارق بن سلیم قال قال لنا عبداللہ ھوابن مسعود اذا حدثناکم بحدیث اتیناکم بتصدیق ذلک من الکتاب اللہ تعالٰی۔“
(عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔)
( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
(٧)
عنایت اللہ سبحانی
٭
” اور جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ کبھی بھی قرآن کی شرح نہیں بن سکتی ۔“
(حقیقت رجم ص٦١)
٭
” حدیث قرآن کی تشریح ہے لیکن قرآن بھی حدیث کی صحت کےلئے بہترین کسوٹی ہے۔آپ کا ارشاد ہے کہ :
تکثر لکم الاحادیث بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق فاقبلوہ وما خالف فردوہ ۔“
(مفہوم وہی جو کئی بار گزرا)
٭
اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث آتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’ ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافق کتاب اللہ اَنا اقلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ھدانی اللہ؟۔“
( یعنی تمہارے پاس جو کچھ بھی میرے پاس سے آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر کتاب اللہ کے موافق ہو تو ہو میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر مخالف ہو کتاب اللہ کے تو اسے میں نے نہیں کہا ،اور میں کیسے کتاب اللہ کی مخالفت کرسکتاہوں جبکہ اللہ نے مجھے اسی کے ذریعے ہدایت دی ۔“
( امام شاطبی ،الموافقات ج٤ص٣١)
امام شاطبی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اس حدیث کی سند صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔“
( ایضاً ص٠٥١)
٭
حضرت عیسٰی بن ابان (م ٩٤٢ھ) جو ایک بلند پایہ محدث اور ایک بالغ نظر فقیہ تھے اور جو کئی سال تک بصرہ کے قاضی رہے ،انہوں نے بھی اس روایت کی توثیق کی ہے اور اسکی اساس پر انکا مسلک یہ تھا کہ ’ خبر واحد جس کے اندر صحتِ سند کی تمام سندیں اور شرطیں موجود ہوں اسے کتاب ( اللہ) کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگا اور اس کی صحت کا آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہوگا‘۔“ [المحصول فی علم اصول فقہ از امام رازی] ( بحوالہ حقیقت رجم ص٥١)
(٨)
مولانا عبدالماجد دریا آبادی” خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو۔“
(تفسیر ماجدی ص٤٢٣ ،سورہ اعراف حاشیہ ٣)
امام ابوبکر جصاص اور امام قرطبی کا حوالہ بھی مولانا نے نقل کیا ہے جسے ہم بھی پہلے نقل کرچکے ہیں لھذا وہاں دیکھ لیا جائے ۔
(٩)
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی” اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ابو ھریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتداء یوم سبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتائی گئی ہے اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات دن میں ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عام نصوص قرآنی میں یہ تخلیق چھہ روز ہونا صراحاً مذکور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماءکے واقعات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آتی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی، یقینی کہا جاسکے بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں ،مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم اور نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی صراحت فرمائی ہے۔اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہیے۔“
( معارف القرآن ،ج٧ص٦٣٦ سورہ حٰم)
(یعنی اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہو تو وہ رد کیے جانے کے قابل ہے چاہے صحیح مسلم کی ہی کیوں نہ ہو
)
(٠١)
مولانا عبدالسلام رستم مردانی” واعلم قبل جواب ھذا الحدیث ان مسلک ابی حنیفہ اسلم ،فانہ یقدم العمل بالآیة من العمل بالحدیث اذا لم یمکن التوفیق بینھما ویتاول فی الحدیث دون الآیة۔“
( اور جان لے اس حدیث کے جواب سے قبل کہ ابو حنیفہ کا مسلک سلامتی والا ہے کیونکہ وہ آیت پر عمل کو مقدم رکھتے ہیں حدیث کے مقابلے پر جب ان دونوں(قرآن و حدیث)میں توفیق اور تطبیق ممکن نہ ہو، اور آپ حدیث میں تاویل کرتے ہیں بجائے آیت کے ۔)
(التبیان فی تفسیر امّ قرآن ص٧٣١)
٭
” وایضاًکان ھذاالحدیث مخالفاًعن ظاھرالقرآن الدال علی فوقیتہ تعالٰی علی العرش فلذا اول فی الجامع الترمذی۔“
( اور اسی طرح یہ حدیث ظاہرقرآن کے مخالف ہے لھذا جمع ترمذی میں ہی تاویل کی جائے۔)
(١١)
امام نسفی متوفی ٠١٧ھ٭” بقولہ علیہ السلام اذا روی لکم عنی الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( آپ کا قول کہ،جب تم سے کوئی حدیث بیان کرے میری طرف سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کرو ،اگر موافق ہے تو قبول کرلواوراگرنہیں تو رد کردو۔)
( کشف الاسرار علی المنار،ج٢ص٥٨)
(٢١)
امام ابوبکر السرخسی
٭
” ان کل حدیث ھو مخالف الکتاب اللہ تعالٰی فھو مردود ۔“
( ہر حدیث جو کتاب اللہ کے مخالف ہو مردود ہے)
(اصول سرخسی ج١ص٥٦٣)
٭
” وما روی من قولہ علیہ السلام فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی۔“( اورجوقول مروی ہے آپ کا کہ (حدیث کو ) کتاب اللہ پر پیش کرو)
(ایضاًج٢ص٦٧)
٭
” وبہ نقول ان الخبر الواحد لا یثبت نسخ الکتاب ،لانہ لا یثبت کونہ مسموعاًمن رسول اللہ قطعاًوالھذالایثبت بہ العلم الیقین ،علی ان المرادبقولہ
(وما خالفہ فردوہ)“
(اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد سے کتاب اللہ منسوخ ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ بات کہ وہ رسول سے ہی سے سنی گئی ہے ،قطعی نہیں ،لھذا اس سے علم یقین پیدا نہیں ہوتا، آپ کے قول مراد یہی ہےکہ جو مخالف قرآن ہو اسے رد کردو
(ایضاً)
٭
” ولا یجوز ترک ما ھو ثابت فی کتاب اللہ نصاًعندالتعارض۔“
(نص،کتاب اللہ میں جو ثابت ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں ( جب اس کا حدیث سے) تعارض ہو۔)
( ایضاً)
(٣١)
مولانا حسن بن عمار بن علی حنفی” قالت (عائشة) کیف یقول رسول اللہ ذلک رد علی الراوی واللہ تعالٰی یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،ای فلم یقلہ۔“
( حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’ رسول اللہ کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں‘( کہ مُردوں نے سنا)اور آپ نے یہ راوی پرپر رد کیا ،’ جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ مُردوںکو نہیں سنا سکتے‘یعنی آپ نے یہ بات ہی نہیں کی ( کہ مخالفِ قرآن ہوتی)
( مراقی الفلاح شرح النورالایضاح ص٧٠٣)
(٤١)
” کیونکہ فقہ حنفی کے اصول میں ہے کہ استخراج واستنباطِ مسائل کے سلسلے میں قرآن حدیث پر مقدم ہے ،حدیث کا نمبر قرآن کے بعد ہے نہ کہ قرآن سے پہلے ۔ لیکن اگر اس کے متعلق کوئی آیت موجود نہیں تو ظاھر ہے کہ اب حدیثِ صحیح کو ہی مستدل بنایا جائے گا اور اگر کسی مسئلے میں احادیث متعارض ہوں تو دین کے ناقلینِ اول صحابہ کرام کے اقوال و افعال کسی ایک کے لئے وجہءترجیح بنیں گے۔“
( رسول اکرم کا طریقہءنماز ص١١)
(٥١)
امام ابن ھمام متوفی ١٨٦ھ”قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع بما اقول منھم واجابوا تارة بانہ مردود من عائشة قالت کیف یقول ذلک واللہ یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،انک لا تسمع الموتٰی ۔“
( اور آپ کا قول قلیبِ بدر کے متعلق کہ’ تم ان(مُردوں) سے زیادہ نہیں سنتے ہو جو میں ان سے کہتا ہوں ‘اور انہوں نے ایک مرتبہ جواب بھی دیا ،تو یہ رد شدہ ہے حضرت عائشہ سے کیونکہ آپنے فرمایا کہ آپ کیسے یہ قول کہہ سکتے تھے جبکہ اللہ کہتا ہے کہ آپ ان کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں اور آپ مُردوں کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے۔ )
( فتح القدیر ،ج٢ص٩٦)
(٦١)
مولانا قاسم نانوتوی بانیء دارالعلوم دیوبند” واقعی مخالف کلام نہ کہ محدث کا قول معتبر ہے اور نہ ہی کسی منکر کا بلکہ خود حدیث اگر مخالف کلام اللہ ہو تو موضوع سمھجی جائے گی ۔“
( تصفیة العقائد ص ٠٢)
(٧١)
علامہ ابن قیّم جوزی” ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة۔“
( اور ( حدیث کے موضوع ہونے کی ایک دلیل)قرآن کی صراحت کے حدیث کا مخالف ہونا ہے جیسے مقدارِ دنیا والی حدیث کہ دنیا کی کل عمرسات ھزار سال ہے۔)( حالانکہ یہ حس و مشاھدہ کے بھی خلاف ہے چہ جائیکہ قرآن)۔
( رسالہ المنار ص١٣، نیز موضوعات الکبیر ص٢٦١)
(٨١)
یعقوب بن اسحاق کُلینی رازی
(اثنا عشری شیعہ)
٭
” عن ابوعبداللہ علیہ السلام قال:قال رسول اللہ ان علی کل حق حقیقة وعلی کل صواب نورا فماوافق کتاب اللہ فخذہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ ۔“
(ابوعبداللہ علیہ السلام نے کہا کہ کہا رسول اللہ ہر ایک حق پر ایک حقیقت اور ہر ایک صحیح و صواب پر ایک نور ہوتا ہے تو جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو اسے پکڑ لو اورجوکتاب اللہ کے مخالف ہواسے ردکردو۔“
( اصولِ کافی،باب الاخذ بالسنةوھواھدالکتاب،ج١ص٨٨)
٭
” عن ایوب بن الحر قال: سمعت اباعبداللہ یقول کل شیءمردود الی الکتاب والسنةوکل حدیث لایوافق کتاب اللہ فھو زخرف۔“
(اصولِ کافی،ج١ص٩٨)
( ایوب بن حر نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ کوکہتے سنا کہ فرماتے ہں کہ ہرشیء کتاب اورسنت کی طرف پھیری جاےگی اور ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے موافق نہیں وہ بیکار چیز ہے۔)
٭
” عن ابوعبداللہ قال:خطب النبی بمنٰی وقال:ایھاالناس ماجاءکم عنی یوافق کتاب اللہ فانہ قلتہ وماجاءکم یخالف کتاب اللہ فلم اقلہ۔“
(ایضاً)
( ابوعبداللہ نے کہا کہ نبی نے منٰی میں خطبہ دیا اورفرمایاکہ اے لوگوں!میری طرف سے تم تک جو بھی (حدیث) آئے جوکتاب اللہ کے موافق ہوتوسمجھوکہ میں نے ہی کہا ہوگااوراگرکوئی (حدیث)کتاب اللہ کے مخالف ائے تو سمجھنا کہ میں نے نہیں کہا ۔)
(٩١)
سیدظفرالحسن امروہوی(شیعہ)” حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو۔“
( فروعِ کافی کا دیباچہ ،ج١ص٤)
(٠٢)
امام دارمی محدث سمرقندی’باب تاویل حدیث رسول اللہ‘۔عن ابی ہریرةفکان ابن عباس اذاحدث قال:اذاسمعتمونی احدث عن رسول اللہ فلم تجدوہ فی کتاب اللہ اوحسناعندالناس فاعلمواا¿نی قدکذبت علیہ۔“
(سنن دارمی ج١ص٤٥١،قدیمی کتب خانہ کراچی)
(یعنی امام دارمی نے باب قائم کیا ہے’حدیث رسول اللہ میں تاویل‘اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس جب حدیث بیان کرتے توکہتے :جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنواور تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاو یا وہ لوگوں کے نزدیک وہ اچھی چیزنہ ہو(یعنی معروف نہ ہو) توسمجھوکہ میں نے آپ پر جھوٹ باندھا۔) (یعنی میں نے غلط کہاکیونکہ اس کا امکان نہیں کہ آپ پر آپ جھوٹ باندھیں مگر اس پر تنبیہ کے لیے ایسا فرمایا)
(١٢)
امام سخاویملاعلی قاری اپنی ’موضوعات الکبیر‘میں امام سخاوی کا قول بھی یہی قول کرتے ہیں کہ ’ہمارے شیخوں کے شیخ شمس الدین نے ’مقاصد الحسنة فی بیان الاحادیث المشتھرة علی الالسنة‘کے خاتمہ میں کہاکہ(موضوع حدیث ہونے کی علامت )میں سے یہ بھی ہے کہ حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو ۔‘
(موضوعات الکبیر،فصل ٣١ص٦٢٣۔قدیمی کتب خانہ کراچی)
(ختم شد معیار حدیث، قرآن)

Monday 2 August 2010

تعلیم اور سماجی خرابیاں

تعلیم اور سماجی خرابیاں
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
عنوا ن کے دو جز ہیں
ایک ہے ”تعلیم“ اور دوسرا ہے ”سما جی خرا بیاں“ ۔
میں پہلے ”تعلیم“ کے با رے میں کچھ بنیا دی اور ضر وری امو ر پر روشنی ڈالنا چاہوں گا ، پھر ”سما جی خرا بیو ں“ پر ۔
”تعلیم“ یہ در اصل عربی زبا ن کا لفظ ہے، یہ مشتق ہے ”علم“ سے، با ب تفعیل کا مصدر تفعیل کے وزن پر تعلیم ہے، جس کے معنی ہے ”سکھانا“ اور باب تفعیل کی خاصیات میں ایک خا صہ ”تکلیف“ ہے، یعنی کسی چیز کو بہ تکلف انجا م دینا۔
اس سے یہ بات معلو م ہو ئی کہ بہر حال سکھا نا کو ئی آسا ن کا م نہیں، سکھا نے میں محنت اور مشقت سے کا م لینا ہو تا ہے، تب جا کر سیکھنے والے کو کچھ حا صل ہو تا ہے ۔
جیسا کہ ابھی ابھی بیا ن کیا گیا کہ ”تعلیم“ مشتق ہے ”علم“ سے اور مشتق اور مشتق منہ میں ربط کا ہو نا ضروری ہے ،لہٰذا تعلیم کے مغر بی اور اسلامی مقا صد اور نظر یا ت کو جاننے سے پہلے، ہم ”علم“ کی لغوی واصطلا حی تعریف اور اس کی تقسیم اور اسلا م اور مغر ب کا اس با رے میں کیا نظریہ ہے؟ اس سے واقف ہو جا ئیں، کیوں کہ علم پر تعلیم کا مدار ہے، لہٰذا تعلیمی نظریات میں اختلاف کا پہلا زینہ ہی ”علم“ ہے، اگر علم کی حقیقت میں اختلاف ہو گا تو تعلیمی نظر یہ پر بھی اس کا اثر ہوگا۔
علم کی لغوی تعریف
علم کہتے ہیں اس چیز کو جس کے ذریعہ اشیاء مختلفہ کا ملکہ پیدا ہو۔ (ابن فارسی)
اصطلاحی تعریف
”الصورة الحاصلة فی الذہن“ علم ذہن میں حاصل ہونے والی صورت کو کہا جاتا ہے۔
علم شرعی کی تعریف
﴿علم ما انزل اللہ علی رسولہ من الہدی و البیان﴾۔
علم شرعی اس کو کہتے ہیں جو اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہدایت اور وضاحت کی غرض سے نازل کیا ۔
اسلامی تناظر میں ’علم‘ کا اطلاق جمہورعلماء اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ”علم شرعی“ پر ہوتا ہے، کیوں کہ عام طورپر قرآن وحدیث میں ’علم‘ کا لفظ جب معرفہ استعمال کیاگیا، یعنی ”العلم“تواس سے مراد”علم شرعی“ ہی ہوتاہے، جیسے ایک مقام پر ارشادخداوندی ہے
﴿ولئن اتبعتَ اہواء ہم من بعد ماجاء ک من العلم﴾
حدیث میں بھی ”طلب العلم فریضة“سے اسی جانب اشارہ ہے۔
اورقرآن نے جب ”علم شرعی“ کے علاوہ کسی اور دنیوی علم کے لئے ”علم“ کا استعمال کیا تومثلاً: قارون کاقول نقل کیا ”قال انما أوتیتہ علی علم عندی“، اس میں علم نکرہ ہے، زمین سے خزانہ نکالنے کا فن اورہنرمرادہے۔ قرآن وحدیث میں غوروخوض سے اکثریہی محسوس ہوتا ہے۔
علم کاصحیح اسلامی مفہوم ومقصد
اسلام کا نظریہٴ علم، بالکل واضح ہے، اسلام نے اول یوم ہی سے علم کی ترغیب دی ہے اور اس کے بے شمار فضائل اور مناقب بیان کیے ہیں، بل کہ اسے مقصدِ حیات اور عبادت کا لازمی عنصر قرار دیا ہے، سب سے پہلی وحی علم ہی کے بارے میں نازل ہوئی، کیوں کہ علم کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں اور معرفتِ الٰہی کے بغیر اس کی عبادت صحیح معنوں میں متصور نہیں اور عبادت کے بغیر زندگی نہیں، گویا زندگی کو بامقصد گذارنے کے لیے علم زینہ اور وسیلہ ہے اور بغیر وسیلے اور زینے کے انسان کا بلندی پر چڑھنا ممکن نہیں، اسی طرح اللہ تک پہنچنا بھی بغیر علم کے ممکن نہیں، اسی لیے بعض مفسرین نے:﴿وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون﴾کی تفسیر اِلاَّ لیَعلمون سے کی ہے، یعنی پہلے ”یعلمون“ تب جاکر ”یعبدون“ علی وجہ المطلوب ادا ہوگا، ورنہ بغیر علم کے ”یعبدون“ کا تصور کماحقہ ناممکن ہے، جیسے وضوکے بغیر نماز نہیں ہوسکتی، آگ کے بغیر لذیذ کھانا نہیں پک سکتا، بالکل اسی طرح علم کے بغیر لذیذ یعنی صحیح عبادت نہیں ہوسکتی، اسی لیے غارِ حرا کی پہلی وحی میں ”اِقرأ بسم ربک“ کو نازل کیا گیا ”اعبُد رَبک“ کو نہیں نازل کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم وسیلہٴ عبادت ہے، بل کہ امام ابن شہاب زہری تو کہا کرتے تھے، کہ عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ”تحصیلِ علم“ہے، اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ علم اور اسلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسلام نے دنیا میں بے شمار انقلاب پیدا کیے، اسی میں سے ایک علمی انقلاب بھی ہے، اسی لیے اسلام نے معاملات اور معاشرت کے احکام پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ ان علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ علوم کونیہ، علوم تجربیہ سے بھی بحث کی اور ہر طرح کے علم کو، نیَّتْ کی درستگی کی صورت میں مفید اور باعث اجر وثواب گردانا، بل کہ کسی کو فرض کفایہ، کسی کو فرض عین، کسی کو مستحب اور کسی کو مندوب قرار دیا۔
اسلام نے اہلِ علم کو سب سے افضل قرار دیا، قرآن نے اعلان کیا: ﴿انما یخشیٰ اللہ من عبادہ العلماء﴾، کہیں ﴿قُل ہَلْ یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون﴾، کہیں قلم کی قسم کھا کر کتابت علم کی طرف اہتمام کا اشارہ دیا: ﴿ن ، و القلم و ما یسطرون﴾، کہیں تفکر اور تدبر کی دعوت دی اور کہا: ﴿ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ہل تری من فطور﴾، کہیں کہا :﴿أ فَلا یتدبرون القرآن﴾، کبھی حقائق کو معلوم کرنے کے لیے ﴿سیروا فی الأرض فانظروا﴾کہہ کر حوصلہ افزائی کی، کہیں خود اپنی خلقت پر غور و فکر کی دعوت دی: ﴿وفی انفسکم أفلا تبصرون﴾ کہا، تم خود اپنی ذات پر غور وفکر نہیں کرتے، کہیں چاند اور سورج کی منزلوں، رات و دن کے آنے جانے کو معجزہٴ الٰہی کے طور پر بیان کیا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے ”علوم“ کے دروازے کھول کر رکھ دیے اور مسلمانوں کو اس میں غوطہ زنی کی دعوت دی اور بابِ علم کو مسابقہ آرائی پر آمادہ کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ”امتِ مسلمہ“ نے اس باب میں بے مثال کردار ادا کیا، اور ہر فن میں اولویت کا اسے شرف حاصل ہے، تاریخ نے اپنے صفحات پر نقش کر لیا کہ روئے زمین پر تخلیق آدم سے لے کر اب تک اگر پڑھنے لکھنے کا ریکارڈ کسی کے نام ہے تو وہ اسی امت محمدیہ کے نام ہے، جس نے علم کی تحصیل ، تالیف وتصنیف، تدوین و تحقیق، جدت اور ابتکار اور دقت و عمق میں جو عظیم کردار ادا کیا، کوئی نہ اس سے پہلے اس کا ہمسر ہو سکا اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔
آغوشِ اسلام میں اتنے علوم و فنون پلے بڑھے اور وجود میں آئے کہ اس کا احاطہ ناممکن ہے، آج دنیا میں جو بھی ظاہری و باطنی ترقی ہو رہی ہے وہ سب امتِ مسلمہ کے فیض بے مثال کا نتیجہ اور ثمرہ ہے، ان تمام علوم کی تخم ریزی اسلام اور اہلِ اسلام نے ہی کی ہے، اور چھان پھٹک کا صحیح حق اسی نے ادا کیا ہے (یعنی فلاسفہٴ یونان، ہند، فار س وغیرہ نے اپنی کاوشوں میں جو ٹھوکریں کھائی تھیں، ان کی تحقیقات کا غائرانہ اور ناقدانہ مطالعہ کرکے اس کی نشاندہی کی) اللہ علمائے اسلام کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے۔ آمین!آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی،فلسفہٴ ہند، فلسفہٴ فارس ، فلسفہٴ روما کے دوش پر ہے، تو سراسر ناانصافی اور غلط بیانی ہے اور حقائقِ تاریخ میں تحریف ہے، اس لیے کہ اہلِ اسلام نے ان فلسفوں میں جو غش اور کھوٹ تھی، اسے چھان کر منقح کیا، ”علم وحی“ کے بعد ، جو کہ خالق و مالک نے اپنے لامحدود اور وسیع علم سے عطا کیا تھا۔انصاف پسندوں کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک علم پر محنت کرکے ”انسانوں“ کو صحیح رُخ پر لاکھڑا کیا، اسی کے روشن کیے ہوئے چراغوں سے آج دنیا روشنی حاصل کررہی ہے، ”انسانیت“ کو اس بات پر مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور بجائے اس کے کہ وہ ان پر ظلم کرے انہیں مزید موقع دینا چاہیے، تاکہ ”مکار“ مغرب کی طرح علم کے نام پر دنیا ضلالت و گمراہی کی راہ سے ہٹ کر مدلل و مبرہن اسلام کو قبول کرلے، اگر واقعتا ان میں ”علمیت پسندی“ اور ”جذبہٴ معرفت“ ہے، کیوں کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اس کے بغیر کوئیچارہ ہی نہیں۔کیا لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں اور بینائی سلب ہو چکی ہے، اس بات کے سلسلہ میں کہ ”امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوات“ کے ہزاروں افراد نے اپنی قیمتی زندگیوں کو محض انسانیت کی نفع رسانی کی لیے صرف کردیااور ﴿اُخرجت للناس﴾ کا حق ادا کردیا، جس کے نتیجہ میں کتابوں سے مکتبے کے مکتبے بھر گئے، آج ان کی کاوشوں کے عُشر عشیر کی طباعت کے بعد یہ حال ہے، حالاں کہ ابھی تو اس سے دسیوں گُنا کاوش مخطوطات کی صورت میں طباعت کی منتظر ہے، اور اعدائے اسلام نے دشمنی کی خاطر کتنے بڑے بڑے ذخیروں کو برباد کردیا، یا جلا دیا، یا سمندر کی نذر کردیا۔علوم کی تعداداس امت نے انسانوں کو کتنے علوم مدون کرکے فراہم کیے ، اس سلسلے میں امام رازی اپنی کتاب ”الاَنوار فی حقائق الاَسرار“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”امتِ محمدیہ کے مدون کردہ علوم کی تعداد 60ہے، امام عبدالرحمن بن محمد بسطامی کی رائے کے مطابق 100 علوم ہیں، شیخ عصام الدین احمد ابن مصطفی طاش کبری زادہ کی تحقیق کے مطابق 500 ہیں اور بعض نے اس سے بھی کئی گنا زیادہ شمار کرائے، کسی کو اگر یہ شبہ ہو کہ یہ سب مبالغہ آرائی ہے، تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں، یا تو تعصب یا تاریخ سے عدم واقفیت، کیوں کہ یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہے، آپ ”علمائے اسلام“ کے تصنیفی، تالیفی، اور علمی کارناموں کو اٹھا کر پڑھیے، بات سمجھ میں آجائے گی۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس مذہب نے علم کو دین کا ایک لازمی جز اور عضو قرار دیا ہے، جس کے بغیر کسی کو چارہ نہیں اور اعلان کیا: ﴿طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة﴾۔(تنزیہ الشریعة:258/1، بحوالہ جامع بیان العلم وفضلہ:ابوعمر یوسف ابن عبدالبر)علم کا صحیح اسلامی مفہوماِختراعات کے اس دور میں، جو فتنوں کے عروج کا دور ہے، جہاں بہت سارے الفاظ و اصطلاحات کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹا کر غیر اصل کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں میں سے ایک علم بھی ہے، ”روشن خیال“ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہمارا اچھا خاصا سنجیدہ دین دار طبقہ بھی بے جا وُسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معنیٴ علم میں بے جا وسعت دینے کے درپے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علم ایک اِکائی ہے، اس کی تقسیم ممکن نہیں، لہٰذا علم دین اور علمِ دنیا یہ تقسیم غلط ہے، تمام علوم ایک ہی ہیں۔ قرآن و حدیث نے جس علم کی فضیلت بیان کی ہے، وہ ان تمام کو شامل ہے، جب کہ علمائے ربانیین اور راسخین فی العلم کی اکثریت بل کہ جمہور علما اس کے قائل ہیں کہ یا تو علم کی تقسیم ہی مُسَلَّم نہیں، علم صرف ایک ہے اور وہ ہے علم دین، کیوں کہ آخرت کی فکر وہی پیدا کرتا ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو فضیلت وارد ہے، وہ صرف اسی کی ہے، کسی اور کی نہیں اور دنیوی علم، علم کے زمرے میں داخل ہی نہیں، وہ تو فن، ہنر اور کاری گری ہے، وہ علم کہے جانے کے قابل ہی نہیں، تب ان کا بھی موقف یہی ہے کہ علم اِکائی نہیں بل کہ علم ایک ہی ہے اور اگر لغتاً معلومات کے معنی میں لیا جائے تب تو تقسیم کے سوا چارہٴ کار نہیں، آخرت کی فکر پیدا کرنے والا علم دین اور دنیا اور معاش کا مسئلہ حل کرنے والا علم دنیا۔ اسی کو علم معاش و علم معادبھی کہتے ہیں۔حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:” علم کا شرف معلوم کے شرف پر موقوف ہے اور معلوم اس کو کہتے ہیں جس کے حالات اس علم میں بیان کیے جائیں۔علم دین کا معلوم حق تعالیٰ شانہ کی ذات ہے اور تمام علم دین کا حاصل بھی یہی ہے اور دیگر تمام علوم کا معلوم ماسوی اللہ ہے، پس جو نسبت دنیا یا ماسوی اللہ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ہے، وہی نسبت علوم دنیویہ کو علم دین کے ساتھ ہوگی اور اس کی نسبت بجز اس کے کیا کہا جاسکتا ہے # چہ نسبت خاک را با عالم پاکحق تعالیٰ کی ذات وصفات تو کسی چیز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں رکھتی، وہ باقی اور سب فانی، وہ زندہ اور سب مردہ، وہ غنی اور سب محتاج، وہ موجود اور سب معدوم (کل شیء ہالک الا وجہہ)۔ غرض دونوں چیزوں میں کوئی نسبت نہیں قرار دی جاسکتی ہے، سوائے اس کے کہ علم دین پر موجود کا اطلاق کیا جائے اور علم دنیا پر معدوم کا، اب میرا دعویٰ قریب الفہم ہوگیا ہے، کہ علم دین کے سامنے دیگر علوم علم کہلانے کے مستحق ہی نہیں تو مقابلہ کیا کیا جائے! علومِ دنیا کو علم مت کہو، فن کہو، پیشہ کہو، حرفت کہو۔ “ (انفاس عیسیٰ)شیخ الاسلام ترجمان اہل سنت و الجماعت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ تو ”جدید دور میں علم اور اس کا استعمال، فتنہٴ الفاظ کا جائزہ“ کے تحت فرماتے ہیں: ”موجودہ دورکے علمی و ذہنی فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ ”فریب الفاظ“ کا بھی ہے، ایک لفظ جسے ہم بولتے ہیں، وہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایسے حقائق پر مشتمل ہوتا ہے، جو بالکل صحیح و صادق، مقدس و متبرک، اور نہایت معقول و محمود ہے، مگر اسی لفظ کے عام لغوی معنی کی وسعت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اسے بہ طور تلبیس و تلمیح، ایک ایسے معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو بجائے مقبول ہونے کے مردود اور مذموم ہوتا ہے، اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مخاطب کو مغالطہ دے کر، محض خوش نما اور دل فریب الفاظ سے مسحور کردیں۔آزادی ، مساوات ، تہذیب ، ترقی اور اسی طر ح کے اور الفاظ ہیں، جو اگر اپنے اصلی وحقیقی معانی میں مستعمل ہوں ، نہا یت محمود، مستحسن اور قابلِ تعریف ہیں ، لیکن جب کسی زشت وشنیع مفہوم کو خوبصورت ظاہر کرنے کے لیے یہی الفاظ بطو ر نقاب استعمال ہونے لگیں تو یہ خالص تلبیس و خداع ہے ۔ ٹھیک یہی صورت آج کل، لفظ ”علم “ کے متعلق واقع ہوئی ہے۔کسی مسلم اسکو ل کا افتتا ح ہو ، کسی کا لج کی بنیاد رکھی جائے، کسی یونیور سٹی کی تقسیم اسناد کا جلسہ ہو ، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرات مقررین کس شدومد سے ”علم “ کے فضائل میں، قرآنِ پاک کی بہت سی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث پڑھتے رہتے ہیں، گویا اپنے اس طرزِعمل سے مخاطبین پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جدید علم کے ایسے ایسے فضائل قرآن پاک میں موجود ہیں، حالاں کہ قرآن کریم کو ایک سرسری نظر سے پڑھ جائیے تو ظاہر ہوجائے گا کہ وہ خود علم کی دو قسمیں قرار دیتا ہے:ایک علم نافع ومطلوب ومحبوب؛ دوسرا مضرومردود․․․․․․اس کے نزدیک ایک علم زہر ہے، دوسرا تریاق، ایک پاک شراب ہے، دوسرا محض سراب۔ ایک سببِ ہلاکت ہے ، دوسرا سامانِ نجات۔ ایک آسمان کی بلندیوں پر اٹھا نے والا ہے ، دوسرا اسفل السافلین کی پستیوں میں پہنچانے والا ۔جو علم اپنے اثرات کے اعتبار سے آخرکار خشیت الٰہی اور رغبتِ آخرت پر منتج نہ ہو ، جو علم انسان کو خدا سے نڈراور زندگی کے آخری انجام سے بالکل غافل کردے، جو علم ایسی مادی دنیا کی لذت وانبساط وشہوات حیوانیہ کو (خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں ہوں) انسان کا معبود ٹھہرائے ، کیا ایسا علم بارگاہ رب العزت میں درخور اعتنا یا لائق التفات ٹھہرسکتا ہے؟ یا قرآن حکیم اس کے اکتساب کی ایک لمحہ کے لیے بھی ترغیب دے سکتا ہے ؟قرآن تو ایسے علم کی نسبت صاف طور پر یہ حکم دیتا ہے:﴿فَاعرض عن من تولیٰ عَن ذکرِنا و لم یرد الا الحیوة الدنیا ذلک مبلغھم من العلم ﴾․یعنی تومنہ پھیرلے اس کی طرف سے ، جس نے ہماری بات سے منہ پھیرلیا اور جس کا مقصد اس دنیوی زندگی سے آگے کچھ نہیں ،ان کے علم کی رسائی اور پرواز یہیں تک ہے۔اس کے بالمقابل ایک وہ لوگ ہیں ، جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، اس کی مخلوق پر رحم کھاتے ہیں اور ادب وتہذیب کے قاعدوں پر عمل کرتے ہیں۔اخلاقی پاکیزگی ان کا جوہر ہے ، ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ہیں۔ غرض کہ علم ان کے اندر اِنابت الی اللہ، رحمت علی الخلائق کے اوصاف پیدا کرتا ہے، تو اسی طرح کے اولواالعلم کے حق میں حق تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿یرفع اللہ الذین اٰمنوا منکم و الذین أوتوا العلم درجات﴾۔قرآن پاک نے ایک شخص (قارون ) کا ذکر کیا ہے ، جس کی دنیوی دولت اب تک ضرب المثل ہے۔ جس کے خزائن کی کثرت کا اندازہ ﴿ان مفاتحہ﴾ کے الفاظ سے ہوسکتا ہے ، جس کا سامان دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں ، حتی کہ بہت سے تمنا کرتے تھے کہ﴿یالیت لنا مثل ما أوتی قارون انہ لذو حظ عظیم﴾ اس نے ترقی کی اس معراج پر پہنچ کر ایک علم کا دعویٰ کیا تھا ، جس کے ذریعہ اس کویہ عروج حاصل ہوا ﴿قال انما أوتیتہ علی علم عندی ﴾․بہر حال وہ علم تھا ، اس کے بالمقابل دوسرا گروہ تھا ، جس کا ذکر حق تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے : ﴿وقال الذین أوتوا العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن آمن و عمل صالحًا﴾یہ﴿الذین اوتوا العلم ﴾ اُس علم والے تھے جوقارون کے اُس تمام ترقیات اور علم وہنر کو حقیر سمجھ رہے تھے اور اُدھار کو نقد پر ترجیح دے رہے تھے۔ قرآن کریم نے تو ایک آیت میں مسئلہ کا دوٹوک فیصلہ کردیاہے: ﴿انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء﴾․اس ”انما“کے لفظ پرغور کیجیے ۔ گویا جو علم قلب میں خشیت الٰہی پیدا نہ کرے ، وہ علم ہی نہیں ۔ ایسے اصطلاحی علم سے جہل ہزاردرجے بہتر ہے ۔حدیث صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے ، جو نفع سے خالی ہو، قرآن کریم میں بھی ہے: ﴿و یتعلمون ما یضرھم و لا ینفعھم﴾(سورہٴ بقرہ:102) معلوم ہواکہ علم نافع بھی ہوتا ہے اور مضر بھی۔پس ایسے علوم جو انسان کو شیطان یا درندہ بنادیں یااسے ترقی یافتہ بہائم کے زمرہ میں داخل کردیں ۔ان کی طرف ترغیب دلانے کے موقع پر مطلق علم کے فضائل قرآن وحدیث سے پیش کرنا ،انتہائی تلبیس اور گمراہی ہے۔مقصد یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ علوم وفنون حاصل نہ کیے جائیں ، لیکن درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ، اگر علم وفن کی ترقی کا ما حصل یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں تو فی الحقیقت ایسے علم سے جہل بہتر ہے ، اگر علم وفن کی چکا چوند کرنے والی ترقیات مذہبی اور دینی علم وتہذیب کے ماتحت رہتیں تو دنیا کو ایسے بھیانک نتائج ہرگز نہ دیکھنے پڑتے ۔“ (بیداری ، حیدرآباد ،سندھ ، جون2006ء)مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں: ایک علم، دین اور دنیا کے اعتبار سے۔ اور دوسرا نفع اور نقصان کے اعتبار سے۔ تحصیل علم دین تو خیر الناس والا عمل یعنی انسانوں کے کاموں میں سے ایک بہترین کام ہے، البتہ علم دنیا کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے، ہاں! اگر اچھی نیت ہو، مثلاً کسبِ حلال کی نیت سے تمام دینی احکام کی رعایت کرتے ہوئے اسے حاصل کیا جائے تو ہوسکتا ہے کارِثواب ہو جائے ، جب کہ کسی حلال چیز کا کسب حلال طریقے سے ہو اور اگر محض ”علمِ دنیا“ ہی مقصود ہو، تب تو ہلاکت اور ضرر کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جتنی احادیث اور آیات فضیلتِ علم میں وارد ہوئی ہیں وہ سب علم دین کے بارے میں ہیں۔ حضرت تھانوی تو فرماتے ہیں کہ علم نام ہی علمِ نافع کا ہے، ورنہ اگر عمل نہ ہو تو علم نہیں معلومات ہے، چاہے علمِ دین ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ ایسا علم دین، جس پر عمل نہیں، بندہ پر حجت اور دلیل بن جاتا ہے، جو ازدیادِ عذاب کا سبب ہوگا، اسی لیے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں، کہ علم کا ثمرہ اور اس کی حقیقی علامت اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے۔علم کی تعریف ومقصدمگر یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم وہی ہے جس سے انسان کو انسانیت کا سبق ملے ، اخلاق فاضلہ میں رسوخ حاصل ہو ، تہذیب وشرافت پروان چڑھے اور اس کے ساتھ وہ حق وباطل میں تمیز ، مغز وپوست میں فرق اور صلاح وفساد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بخشتا ہو اور انسان کو صراط مستقیم پر گام زن کرتا ہو اور رضائے الٰہی اور قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال کرتا ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ سائنس وٹکنالوجی (Science & Technology) کے علوم ہوں یا طب وانجینئری کے فنون ہوں، تاریخ وفلسفہ کے اسباق ہوں، یازبان وادب کے دروس ہوں، اگر یہ تمام علوم وفنون انسان کو اس مقصد تک پہنچاتے ہیں جو ابھی مذکور ہوا، تو بلا شبہ یہ علوم و فنون ہیں اور اگر اس مقصد تک نہیں پہنچاتے تو یہ سب ایک شعبہٴ جنون ہے۔ علامہ اقبالنے کہا ہے # جوہر میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ (جواہرِ شریعت:ج1/107)تعلیم اور ہمارے اسلاف چناں چہ جس دور میں یہ تمام علوم وفنون اہل اسلام کے ہاتھوں پروان چڑھ رہے تھے، ان علوم وفنون سے انسان کو انسانیت کا سبق ، شرافت کا درس ، اخلاق فاضلہ میں رسوخ ، حق وباطل میں تمیز وپہچان کی صلاحیت ، بھرپور طریقے پر حاصل ہوتی رہی اور انسان ہدایت کی شاہراہ پر گام زن اور صراط مستقیم پر قائم تھا ، سائنس کا ہر سبق اس کے لیے وجود خداوندی اور توحید باری کا سبق تھا، ٹکنالوجی کے فنون اس کے لیے قدرتِ خداوندی پر یقین کا باعث بن جاتے تھے،تاریخ کے واقعات اور قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں اس کے لیے عبرت وموعظت کے اسباق قرار پاتے تھے اور وہ ان سے ہدایت حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتاتھا:غرض یہ کہ تمام علوم وفنون اس کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ رضائے الٰہی و قرب خداوندی کی دولت سے مالا مال ہوجاتا تھا۔(ایضاً:18)زوالِ اسپین کے بعدمگراسپین کے زوال کے بعد جب یہ تمام علوم وفنون ( جن کو ہمارے اسلاف نے ایمانی فراست اور روحانی حرارت کے ذریعہ پروان چڑھایا تھا اور وہ ان علوم وفنون سے انسانیت کی خدمت لیتے رہے تھے) الحاد ودہریت کے شکار لوگوں ، خداورسول کے باغیوں ، انسانیت وشرافت سے محروم لوگوں ، حرص و ہوس کے پجاریوں کے ظالمانہ ومجرمانہ پنجے اور قبضے میں چلے گئے ، تو ان علوم وفنون کو ان کے اصل مقصد ومنشا کے خلاف استعمال کیا جانے لگا اوراپنے ذاتی مفادات کے لیے ان کا کھلے طور پر استحصال کیا جانے لگا ۔اور یہ ملحد وزندیق اور اہلِ حرص وہوا لوگ اپنی مکاری وعیاری ، چالاکی وچالبازی سے شعبہٴ تعلیم پر چھاتے ہی چلے گئے ، یہاں تک کہ ان علوم وفنون کو انہوں نے خدا اور رسولوں سے بغاوت ، مذہب وایمان سے عداوت ، انسانیت وتہذیب سے کھیل واستہزا اور اخلاقی اقدار کی تحقیر وتوہین کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔اور آج کے دور میں علم وتعلیم نام ہی اس بات کا ہے کہ مذہب وایمان کو فضول اور بے کارچیز سمجھا جائے ، اخلاقی اقدار، جیسے شرم وحیا تواضع وانکساری، احسان وسلوک وغیرہ کو عجز وکمزوری پر محمول کیا جائے اور انسانی اقدار کو دقیانوسی ٹھہرایاجائے اور اس کے برعکس ہر بے حیائی اور بے شرمی کو تعلیم کا لازمہ اور ہر بے ایمانی اور بد اعتقادی کو عقل وشعور کا نتیجہ اور ہر بد اخلاقی وبدتہذیبی کو روشن خیالی کا اثر قراد دیا جائے ۔ (ایضاً:19)اب آیئے! علم کے بارے میں مغربی نظریات پرایک نظر دوڑائیں۔علم کے بارے میں مغربی نظریاتالحمدللہ! اللہ نے ہمیں مشرق میں پیدا کیا، کیوں کہ اسم کا اثر مسمّٰی میں پایا جاتا ہے؛ مشرق کے معنی ”روشن“۔ اور الحمدللہ! مشرق کی تاریخ ہمیشہ روشن رہی ہے، پہلے نبی بھی اور اولواالعزم انبیا بھی اسی حصے میں مبعوث کیے گئے، بلکہ تمام انبیا اسی خطے میں مبعوث ہوئے۔ مغرب میں انسان آباد ہی مدتوں بعد ہوا، وہ انسان کی آبادی کے اعتبار سے بھی موٴخر اور اس کے افکارونظریات بھی ظلمت کے شکار، ان کے اخلاق و اطوار بھی نہایت پست اور ان کی معیشت و معاشرت برائیوں سے تعبیر۔ تو آیئے! مغربی نظریہٴ تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔مغربی نظریہٴ علم کی اساس اور بنیاد ”عقل انسانی، مشاہدہ، تجربہ“ ہے؛ وحی سے کٹ کر محض ”عقل، تجربہ اور مشاہدہ“ پر پوری صلاحیتیں مرکوز کی جائیں۔ (مستفاد از اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش:52)اسی مغربی نظریہٴ علم کی وجہ سے مغرب نے دنیا کو ملحد دیے ، اس کا اندازہ ذیل میں دیے جارہے : ان کے نظریات اور اقوال ہوسکتا ہے۔
سورج کی مرکزیت کا نظریہ
کوپرنیکس
(Copernicus-1473-1543)
کا نظریہ: اس نے کائنات کا مرکز سورج کو ثابت کیا، جس سے انسان کی اشرفیت بھی ختم ہوگئی، کیوں کہ قرآن نے اصل مخلوق انسان کو قرار دیا۔﴿خلق لکم ما فی السموات وما فی الأرض﴾۔
خالص مادہ پسندانہ نظریہ
دیکارٹ
(Descartes-1597-1650)
کا نظریہ دیکارٹ نے روح کو مادی جز سے اور ذہن کو جسمانی جز سے جدا کردیا، جس کے نتیجہ میں روح پر محنت کو ترک کر کے، انسان مادہ اور مادیت کے پیچھے لگ گیا اور اس طرح گمراہیوں کا دروازہ کھول دیا گیا، اسی لیے دیکارٹ کو الحاد جدید کا محرک کہا جاتا ہے؛ اس نے وحی کا انکار کردیا اور کہا: ”علم“ حواس اور عقل ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
نظریہٴ انکار خالق
اسحق نیوٹن
(Isac newton-1642-1727)
نے خالق کا انکار کیا اور دعوی کیا کہ کائنات اور تمام اشیا خود بہ خود وجود میں آئیں اور طبعی قوانین کی روشنی پر دنیا جاری وساری ہے۔
مادے کے غیرفانی ہونے کا نظریہ
لوائے زر
(Lavoisier-1743-94)
نے مادے کو غیرفانی قرار دیا یعنی یہ دنیاغیر فانی ہے، کبھی فنا نہ ہوگی، جس کو اب خود سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے۔
مادے کے وجود حقیقی کا نظریہ
ٹائٹ
(P.G.Tait-1876)
نے کہا کہ حقیقی وجود مادے کا ہے، انسان مادے کو نہ فنا کر کرسکتا ہے اور نہ پیدا کرسکتا ہے۔
نظریہٴ ارتقا
آخر کار چارلس ڈارون
(Dorwin-1809-82)
نے کہاکہ طبعی قوانین کے زیرِ اثر دنیا میں حیات نمودار ہوئی اور حیات سے جرثومہ اور جرثومہ سے خلیہ اور خلیہ سے حیوان اور حیوان سے ترقی کرتے کرتے انسان وجود میں آگیا، مگر بیسوی صدی میں خود سائنس نے اس کی تردید کر دی اور ثابت کیا کہ ہر مخلوق الگ الگ ہے، ڈارون نے یہ بھی دعوی کیا کہ عقلِ انسانی غذا تلاش کرنے کا ایک آلہ ہے۔
نظریہٴ جنسیت
فرائڈ
(Frend-1856-1939)
نے کہا کہ ذہن انسانی غیر مادی نہیں اور انسان کے اعمال کا محرک اول جذبہ کشش جنسی ہے اس کے افکارنے آزادشہوت رانی کی راہ ہموار کی اور ازدواجی تعلقات کی اہمیت ختم ہوگئی۔
نظریہٴ انکار مذہب
ڈرکھائم
(Durkheim-1912)
نے دعوی کیا کہ مذہب کا آغاز طوطمیت کے خرافات سے ہوا ،خوف ،خرافات ،شرک وبت پرستی کے مختلف مراحل سے گذر کر توحیدی مذاہب وجود میں آئے، اس طرح مذہب کی بندش سے انسان کو آزاد کر دیا گیا۔
نظریہٴ انکار شعور
واٹسن
(Watson-1958)
نے انسان کے ذہنی شعور کا انکار کر دیا اور جسمانی کردارہی کو اصل قرار دیا۔
نظریہٴ نقص انسان ماضی
والٹیئر
(Voltair-1758)
نے ماضی کے انسان کو ناقص قرار دیا،جس سے انبیا کی عظمت کو پامال کر دیا گیا۔
نظریہٴ ضبط ولادت
مالٹھیس
(Malthus-1834)
نے اللہ کی رزاقیت کا انکار کیا اور برتھ کنڑول کانظریہ پیش کیا۔
نظریہٴ انکار غیب
ہیگل
(Hagla-1831)
نے دعوی کردیا کہ جو موجود ہے وہی حقیقت، اس طرح غیبیات کا انکار لازم آیا۔
نظریہٴ تفریق معیشت و دین
آدم اسمتھ
(Adam smith-1823)
نے معاشیات سے مذہب کو خارج کر دیا ۔
نظریہٴ تفریق قانون و مذہب
جین آسٹن
(Jane Austin-1813)
نے قانون سے مذہب کو نکال باہر کیا۔
نظریہٴ انکار مذہب
ء1766
میں فری میسن لاج
(Free mosson ladae)
نے انسانی معاملات سے مذہب کو خارج کر دیا اور سیکولرازم کی بنیاد باقاعدہ ڈال دی۔
نظریہٴ عدم ابدیت خیر و شر
اسٹورٹ مل
(Sturt Mill-1873)
نے خیر وشر کو نفع بخش اور مضرت رساں کے پیمانہ پر رکھ دیا کہ جو نافع ہے وہ خیر اور جو مضر ہے وہ شر۔
نظریہٴ انکار آخرت
ہولیاک
(Holyake-1906)
نے آخرت کے وجود کا انکار کردیا۔
نظریہٴ وجودیت
جان پال سارتر
(John Pall Sarter)
نے وجودیت کے نظریہ کی تائید کی ،اور کہا آزادی کے لئے خدا مذہب اور اخلاق سے بے زاری لازم ہے۔
نظریہٴ انکار خدا
کارل مارکس
(Karl Marc-1883)
نے کارزار حیات میں خدا کی کار فرمائی کا انکار کردیا۔
نظریہٴ موت خدا
نطشے
(Nietshe-1900)
نے توایسی جرأت کی کہ( الامان والحفیظ)” خدا مر چکا “ہے ،اناللہ وإنا الیہ راجعون
نظریہٴ انکار اخلاق
جان دیوی
(John Dewy-1902)
نے اخلاقی قدروں کا انکار کر دیا۔
نظریہٴ تفریق قوانین و مذہب
1648ء
میں یورپ کے سیاست دانوں نے صلح نامہ ویست فیلیا
(Treaty of west phalia)
کے ذریعہ مذہبی اور دنیوی قوانین میں تفریق کی قرارداد پاس کی ۔
نظریہٴ حقوق نسواں
والسٹن کرافٹ
(Wall stone craft-1797)
نے خواتین کے حقوق کا ہوا کھڑاکیا۔
نظریہٴ پرستش وطن
فکٹے نے سب سے پہلے وطن پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ حقوق انسانی
1789 ء
French Revolution
کے دوران”حقوق انسانی “کے نام پر” قانون عوام کی رضامندی کے مطابق ہو“کااعلان کیا گیا۔
نظریہٴ ریاست پرستی
ہیگل
(Hagal)
نے ریاست پرستی کی دعوت دی۔
نظریہٴ مساوات مردوزن
(Sturt Mill-1873) اسٹورٹ مِل
نے مساوات مردوزن کا نعرہ بلند کیا۔
نظریہٴ نسل پرستی
(Gobineau-1862) گوبینو
نے نسل پرستی کا نظریہ پیش کیااور کہاکہ انسانوں میں سفید فام سب سے اعلیٰ ہے۔
نظریہٴ ہم جنسیت
(Thams mann-1955) تھامس مین
نے ہم جنس پرستی کے حق میں زبردست پروپیگنڈہ کیا۔
نظریہٴ اجتماعیت
(Lenin-1924)لینن
نے قومیتوں کا نظریہ پیش کیا ۔ (مستفاد از مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ:ص40 تا 58)
یہ تو مشت از خروار ے چند مشہور نظریات کو بیان کیا گیا ہے، ورنہ ایسے دسیوں اور سیکڑوں نہیں، ہزاروں نظریات مغرب میں ظاہر ہوئے اور فنا بھی ہو گئے، کسی نے صحیح کہا ہے کہ انسان کو (24) گھنٹے میں80 ہزار وسوسے آتے ہیں ۔

Tuesday 27 July 2010

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر اعتراضات

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔ اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر کئے گئے اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔
اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی اور اسی کتاب کے ص ۱۰۷۸ پر احمد ابن تیمیہ جنبلی کی ایک کتاب بنام ”الصراط المستقیم والرد علی اھل الجحیم ،، کا ذکر کیا ھے اور اسی میں ایسی باتیں لکھی ھیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نھیں ھے مثلا عبد الله ابن عباس کو کافر قرار دینا ۔حصینی نے اپنی کتاب میں اس کی رد لکھی ھے ۔ جامعہ ا زھر کے ایک عالم شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی نے اپنی کتاب ” تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ،،میںص۹ پر ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ھے کہ اس نے اپنی کتاب ”الواسطہ ،، وغیرہ کی تالیف کی تو ایسی باتیں گڑھیں جن سے مسلمانوں کے اجماع کو پارہ کر دیا ۔اس نے کتاب خدا ، صریح سنت اور سلف صالح کی مخالفت کی ھے۔
اپنی فاسد عقل کا مطیع ھوا ھے اور جان بوجہ کر گمراہ ھواھے ۔اس کا معبود اس کی ھوائے نفس ھے۔ اسے یہ گمان ھوا ھے کہ جو کچہ اس نے بیان کیا ھے حق ھے حالانکہ وہ حق نھیں ھے بلکہ یہ جھوٹ اور قول منکر ھے ،اور اسی کتاب کے ص۱۳پر ھے :یہ کتاب ابن تیمیہ کی بھت سی من گڑھت باتوں پر مشتمل ھے جوکتاب و سنّت اور جماعت مسلمین کے مخالف ھے ۔
اور صفحھ۱۰ /۱۱پر ھے:وہ برابر اکابر کے پیچھے پڑا رھا یھاں تک کہ اس کے زمانے والے اس کے خلاف مجتمع ھوئے اسے فاسق قرار دیا اور بدعتی ٹھھرایا بلکہ ان میں سے زیا دہ لوگوں نے اسے کافر قرار دیا ۔
اور صفحہ ۱۷پر ھے :اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کا وتیرہ ادب اورھر زمانے میں اس کے پیروٴوں کا یھی طریقہ رھا ھے کھ:
”یقولون آمنّا بالله و بالیوم الاخروما ھم بمومنین ،یخادعون اللهوالذین آمنوا وما یخدعون الاانفسھم وما یشعرون ،،یہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم الله اور روز قیامت پر ایمان لائے ھیں حالانکہ یہ مومن نھیں ھیں ۔یہ الله کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ھیں حالانکہ یہ خود اپنے کو دھوکہ دے رھے ھیں اور انھیں اس کا احساس نھیں ھے ۔،،
موٴلف کھتا ھے :یہ منافقیں کی صفت ھے جسے خدا وند عالم نے اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ھے ۔
اور یافعی نے ”مرآةالجنان ،،ج۴/ص۲۴۰طبع حیدرآباد دکن ۱۳۳۹ھئمطبع دائرةالمعارف النظامیہ میں ابن تیمیہ کے بعض مھمل اقوال کا ذکر کیا ھے مثلاًلکھا ھے:خدا حقیقتاًعرش پر بیٹھا ھے اور الفاظ وآواز سے گفتگو کرتا ھے پھرلکھا ھے کہ دمشق میںیہ اعلا ن کردیا گیا کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ پر ھوگا اس کی جان اور اس کا مال مباح ھے ۔
اور صفحھ۲۷۸پر۷۲۸ ئکے واقعات کے سلسلہ میں ھے :اس (ابن تیمیہ )کے عجیب وغریب مسائل ھیں جن کے بارے میں اس پر طعن وتشنیع کی گئی ھے اورجن کے سبب مذھب اھل سنّت ترک کرنے کی خاطر اسے قید کیا گیا ۔پھر اس کی بھت سی برائیوں کو شمار کراتے ھوئے لکھا ھے کھ:اس کی قبیح ترین برائی یہ تھی کہ اس نے پیغبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کر دیا تھا ۔آپ پر اور دوسرے اولیاء خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں پر طعن و تشنیع کی تھی اور اسی طرح مسٴلہ طلاق وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا مسلک اور جھت کے بارے میں اس کا عقیدہ اور اس بارے میں جوباطل اقوال اس سے نقل ھوئے ھیں یہ سب اور اس کے علاوہ اور بھی بھت سی باتیں اس کے قبائح میں سے ھیں ۔
شیخ ابن حجر ھیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ھے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ھونے کا دعویٰ ایساھے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ھے ۔سفینةالراغب ص۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ
شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواھدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷پر لکھا ھے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاھب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اھم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ھونا ،کے بارے میں اھل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ھے جنھوں نے اس پر طعن کیاھے لکھا ھے :
”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ھیںجو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ھوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رھنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ھے اور اسے برا کھا ھے ۔،،
انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ھیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ھے :
حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ھے چنانچہ کھا ھے :زیارت کا باعث تقرب خدا ھونا ضرویات دین میں سے ھے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ھے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ھے کیونکہ جس کے مستحب ھونے پر اجماع ھو اس کا حرام قراردینا کفر ھوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ھے۔
اور انھیں میں سے شباب الدین خفاجی حنفی ھیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ھے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ھیں جن کا ذکر کرنا مناسب نھیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ھو ھی نھیں سکتیںچہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ھو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ ”قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ھے ،،کذب محض،لغو ھے اوربکواس ھے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نھیں ھے ،،باطل ھے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی اللهعنھم کا مذھب یہ ھے کہ سلام ودعا میںقبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ھے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ھے۔
اور انھیں میں سے امام محمدزرقانی مالکی ھیں ۔(بنھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواھب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ھے جسے ھم یھاںپیش کررھے ھیں:
”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ھے اور وہ ھے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نھیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاھے؟ اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کمال الدین ز ملکانی شافعی متوفی۷۲۷ھئنے کشف الظنون میں ان کی ایک کتاب”الذرةالمضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ ،،کا ذکر کیا ھے انھوں نے ان مسائل میں اس سے مناظرہ کیا ھے جن میں وہ مذاھب اربعہ سے منحرف ھوگیا ھے اور ان میں قبیح ترین مسئلہ اس کا انبیاء وصالحین خصوصاًسیدالمرسلین کی قبروں کی زیارت اور آپ کے وسیلہ سے خدا سے مانگنے کو منع کرنا ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کبیرشھیر تقی الدین سبکی شافعی ھیں(ابن تیمیہ پر اعتراضات کو ان کی کتاب شفاء السقام فی زیارت خیر الانام علیہ السلا م سے نقل کیا ھے) اس کتاب میں انھوں نے اسے بدعتی کھا ھے ۔ اور انھیں میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ھیں(انھوں نے اپنی کتاب فتح الباری فی شرح البخاری میں اس پر رد کی ھے )اور انھیں میں سے امام عبد الروٴوف منادی شافعی ھیں انھوں نے شرح شمائل میں کھا ھے :اور ابن قیّم کا اپنے شیخ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ کھناکہ ”مصطفی صلّی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پرور دگارکو اپنے دونوں شانوں کے درمیان اپنے ھاتہ رکہ کر دکھائے تو خدااس جگہ کو بالوں کو نوازا ۔اس کی ردشارح یعنی ابن حجرمکّی نے اس طرح کی بات ان دو نوں (ابن تیمیہ وابن قیم)کی بد ترین گمراھی ھے اور یہ ان دونوں کے اس عقیدہ پر مبنی ھے کہ خدا جھت اور جسم رکھتا ھے۔خدا وند عالم ظالموں کے اس قول سے کھیں بزرگ وبرتر ھے اس کے بعد منادی نے لکھا ھے :اب میں کھتا ھوں ان دونوںکا بدعتیوں میں سے ھونا مسلّم ھے۔
اور انھیں میں سے ھمارے دوست عالم با عمل ،فاضل کامل ، شیخ مصطفی ابن احمد سطی جنبلی دمشقی حفظ الله وجزا ہ الله احسن الجزا ء ھیں ۔ مو صوف نے ایک مخصوص رسالہ تالیف کیا ھے جس کا نام ( النقول الشرعیہ فی الرد علی الو ھابیة ) ھے۔انھیں میں سے امام شھاب الدین احمد بن حجر ھیثمی مکی شافعی ھیں انھوں نے ابن تیمیہ پر بھت سخت ردو تنقید کی ھے ۔
اور نبھانی نے شواھدالحق کے ص ۱۹۱ پر پھلے تو ان لوگوں کے نام نقل کئے ھیں جنھوں نے ابن تیمہ کو طعن و تشنیع کی اور جن کا ذکر ابھی گزرا ھے ۔ اس کے بعد کھتے ھیں : لھذا ثابت ھوا اور آفتاب نصف النھار کی طرح روشن ھوا کہ علماء مذ ھب اربعہ نے ابن تیمیہ کی بد عتوں کے رد کرنے پر اتفاق کیا ھے اور کچہ علماء نے اس کی نقل کی صحت پر طعن کیا ھے تو بھلا جن مسائل میں دین سے انحراف کیا ھے اور اجماع مسلمین کی مخالفت کی ھے خاص کر ان مسائل میں جو سید المر سلین سے متعلق ھیں اس کی کھلی ھوئی غلطی پر سخت طعن وتشنیع کیوں نہ کرتے ۔
حنفیوں میں سے جنھوں نے اس کی نقل کے صحیح ھونے پر طعن کیا ھے شھاب الدین خفاجی شارح الشفا ء ھیں جن کا ذکر گزر چکا ھے ۔ اور مالکیوں میں سے امام زرقانی ھیں شرح مواھب میں ، یہ تذ کرہ بھی گزر چکا ھے ۔ اور شافیوں میں سے امام سبکی ھیں جیسا کہ ان کی کتاب شفاء السقام میں مذ کور ھے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ھے کہ نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ کی رائے غلط ھے بلکہ اس کے نقل کئے ھوئے وہ احکام شرعیہ بھی صحیح نھیں ھیں جس کے ذریعہ اس نے اپنی بدعت کی تقویت پر استدلال کیا ھے اور انھیں مذاھب اربعہ کی طرف منسوب کیا ھے حالانکہ ائمہ مذا ھب اربعہ نے وہ احکام نھیں بیان کئے ھیں ۔اسی طرح اس کے نقل کی عدم صحت کا ذکر امام ابن حجر ھیثمی نے بھی اس کے اوپر اپنے اعترا ضات میں کیا ھے اور یہ بات پو شیدہ نھیں ھے کہ یہ چیز ایک عالم کے اندر بھت بڑاعیب اور بھت بڑا اخلاقی جرم ھے جو اس پر اعتماد کو ضعیف کر دیتا ھے اور اس کے منقولات کے اعتبار کو ساقط کر دیتا ھے چاھے وہ احفظ حفاظ اورا علم علماء میں سے ھو اور ابن تیمیہ کے منقو لات کے معتبر نہ ھونے کی تقویت اس قول سے بھی ھوتی ھے جو اس کے بارے میں حافظ عراقی نے کھا ھے۔ کلام نھبانی تمام ھوا ۔شواھد الحق ص ۱۷۷تا ۱۹۱
ابن تیمیہ کا ذکر ڈاکٹر حامد حفنی داوؤد حنفی نے بھی اپنی کتاب ( نظرات فی الکتب الخالدة) ص ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۳۹۹ء دارالمعلم للطباعة میں کیا ھے اور اسے بدعتی قرار دیا ھے اور حاشیہ میں اس کلمہ پر نوٹ لگایا ھے کہ : اکثر علماء اھل سنّت نے اس کے بد عتی ھونے کا قول اختیار کیا ھے رہ گئے صوفیہ تو انھوں نے اس پر اجماع کیا ھے ، امام تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے درمیان فقہ وعقیدہ کے اکثر گوشوں کے بارے میں خط وکتابت ھوتی ھے ۔دیکھئے ھماری کتاب (التشریع الا سلامی فی مصر ) انتھی ۔
عبدالغنی حمادہ اپنی کتاب ( فضل الذاکرین والرد علی المنکر ین ) طبع سوریہ اَدْلَبْ ۹۱ ۱۳ء ص ۲۳ پر اس طرح وھابیت پر طعن کر تے ھیں :
شیخ وھابیت ابن تیمیہ کے بارے میں علامہ مصر علاء الدین بخاری نے لکھاھے کہ : ابن تیمیہ کافر ھے جیسا کہ اس کے زمانے کے بزر گ عالم زین الدین حنبلی نے کھا ھے کہ میرا اعتقاد یہ ھے کہ ابن تیمیہ کافر ھے اور کھتے تھے کہ امام سبکی رضی الله عنہ ابن تیمیہ کی تکفیر سے معذور ھیں کیونکہ اس نے امت اسلامیہ کو کافرقرار دیا ھے اور اسے قول خدا :”اتخذ وااحبار ھم ورھبانھم ار بابا من دون الله ،،کی تفسیر کر تے ھوئے یھودو نصاریٰ سے تشبیہ دی ھے۔ علماء مذاھب نے لکھا ھے کہ : ابن تیمیہ زندیق ھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی توھین کرتا تھا اور اس کی کتابیں خدا وند عالم کی تشبیہ اور اسے صاحب جسم قرار دینے سے بھری ھوئی ھیں ۔
اور اس کے زمانے کے علامہ ابن حجر رضی الله عنہ نے کھا ھے ۔ ابن تیمیہ ایک ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراھ، اندھا ، بھرا اور ذلیل کیا ھے ۔اس کے خلاف مذاھب اربعہ میں سے اس کے دور کے علماء اٹہ کھڑے ھوئے اور اکثر نے اس کو فاسق اور کافر قرار دیا ھے ۔علماء نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ نے صحابہ کرام رضی الله عنھم کو کافر قرار دینے میں خوارج کے مذ ھب کا اتباع کیا ھے ۔
اور ائمہ حفاظ نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ خوارج میں سے ھے ،جھوٹا ھے ، شریر ھے ، افترا پر داز ھے ۔”فضل الذا کرین ،،میں لفظ بہ لفظ مو جود ھے ۔
اور ابو حامد مرزوق شامی نے اپنی کتاب ۔” التوسل بالنّبی وبا لصالحین ،،مطبوعہ تر کیہ طبع آفسٹ ۸۴ ۱۹ ءء کے ص ۴ پر لکھا ھے:
” ایک بار ابن تیمیہ نے دمشق کے ممبر پر جانے کے بعد کھا : ” خدا وند عالم اسی طرح عرش سے اتر تا ھے جیسے میں ممبر سے اتر رھا ھوں اور ایک زینہ نیچے اتر کر دکھایا ھے ، ، اس کے بعد ابو حامد نے لکھا ھے کہ اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں فقیہ سیاح ابن بطوطہ مغری بھی ھیں اور ” التوسل بالنّبی وبالصالحین ،،کے ص ۶ پر ابن تیمیہ سے نقل کیا ھے کہ ابن تیمیہ نے لکھا ھے کھ” خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ،، اور اسی کتاب کے ص ۲۱۶ پر کتاب ” دفع شبہ من شبّہ وتمرّد ،،طبع مصر ۵۰ ۱۳ء ہ مطبع عیسیٰ حلبی ، تصنیف ابو بکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ ء سے نقل کر تے ھوئے لکھا ھے کہ مصنف مذکور نے ابن تیمیہ کے بارے میں کھا ھے :” میں نے اس خبیث (ابن تیمیہ ) کے کلام کو دیکھا جس کے دل میں انحراف کا مرض ھے جو فتنہ پیدا کر نے کے لئے متشابہ آیات و احادیث کا اتباع کر تا ھے اور عوام و غیر عوام میں سے ان لوگوں نے اس کی پیروی کی جس کے ھلاک کر نے کا خدا نے ارادہ کیا تھا ، میں نے اس میں ایسی باتیں پائیں جن کو ادا کر نے کی مجھ میں قدرت نھیں ھے اور نہ میری انگلیوں اورقلم میں انھیں تحریر کر نے کی جراٴت ھے کیو نکہ اس نے پر وردگار عالم کی اس بات پر تکذیب کی ھے کہ اس نے کتاب مبین میں اپنے کو منزہ قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے بر گزیدہ اور منتخب افراد خلفاء راشدین اور ان کے صالح پیروکاروں کی توھین اور عیب جوئی کی ھے لھذا میں نے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ جانا اور صرف ان باتوں کو ذکر کیا جنھیں ائمہ متقین نے ذکر کیا تھا اور جن پر ان کا اتفاق ھے وہ یہ کی ابن تیمیہ بد عتی اور دین سے خارج ھے ۔
حافظ ابن حجر نے ” الفتاوی الحدیثیہ ،، ص ۸۶ پر لکھا ھے کہ ” ابن تیمیہ ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ ، اندھا ، بھرہ ، اور ذلیل بنا دیا ھے اور اسی بات کی تصریح ان اماموں نے بھی کی ھے جنھوں نے اس کے فاسد ھونے اور اس کی باتوں کو جھوٹ ھونے کا بیان کیا ھے اور جو شخص اسے جاننا چاھتا ھو وہ امام مجتھد ابوالحسن سبکی جن کی ،امامت ، جلالت ، شان اور مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے پر اتفاق ھے ان کے اور ان کے فرزند تاج اور شیخ امام عزّ بن جماعہ اور شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، میں سے ان کے ھم عصر علماء کے کلام کو ملا حظہ کریں ، ابن تیمیہ نے صرف متاخرین صوفیہ کے اوپر اعتراض کرنے پر اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب رضی الله عنھما ،، جیسے حضرات پر بھی اعتراض کیا ھے۔
خلاصہ یہ کہ اس کے کلام کی کوئی قدرو قیمت نھیں ھے اور چاھئے کہ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بد عتی گمراہ ،گمراہ کن ، جاھل اور غلو کر نے والا ھے ، خدا اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ھمیں اس کے طریقہ ، عقیدہ ، اور عمل سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔
کلام ابن حجر تمام ھوا اسے ھم نے تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ص ۹ طبع مصر ۱۳۱۸ ء ہ تصنیف شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی سے نقل کیا ھے۔
اس کے بعد کھا کہ وہ خدا کے لئے سمت کا قائل ھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ وہ خدا کے لئے جسمیت ، محاذات ،اور استقرار کا قائل ھے ۔
کتاب ”التوسل با لنّبی وبا لصالحین ،، میں ابن تیمیہ پر اور بھی بھت سے طعن ھیں جن کو چند عناوین کے تحت ذکر کیا ھے ، جو حسب ذیل ھیں ۔
۰ علّامہ شھاب الدین احمد بن یحییٰ حلبی کی جھت کے بارے میں ابن تیمیہ پر رد۔
۰ ابن تیمیہ کے اس زعم کا ابطال کہ خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ۔
۰ عقیدہ ابن تیمیہ جس کے سبب اس نے جماعت مسلمین سے مخالفت کی ھے اور انھیں برا کھا ھے جسے قر آن میں طعن کر نے والے او باش ملحدین سے حاصل کیا ھے ۔
۰ ابن تیمیہ کی تمام علماء اسلام سے مخالفت ۔
ابن تیمیہ کے فتوٴوں کے نمو نے
عالم کبیر شیخ محمد بخیت حنفی عالم جامعہ ا زھرنے اپنی کتاب ”تطھر الفواد من دنس الا عتقاد ،،طبع مصر مطبو عہ ۱۳۱۸ئکے ص ۱۲ پر اس شخص کے کچہ فتوؤں کا ذکر کیا ھے جن میں سے بعض نمو نے ھم یھاں پر پیش کر رھے ھیں تا کہ ایک غیر جانبدارقاری کو اس کے انحراف ، فاسد عقیدے اور منحرف فتوؤں میں علماء اسلام سے اس کی مخالفت کا زیا دہ سے زیا دہ علم ھو سکے ۔
” اگر کو ئی شخص جان بو جہ کر نماز تر ک کر دے تو اس کی قضا وا جب نھیں ھے۔“
” حیض والی عورت کے لئے خانہ ء کعبہ کا طواف کرنا جائز ھے اور اس پر کوئی کفارہ نھیں ھے۔“
” تین طلاق ایک طلاق کی طرف پلٹایا جائے گا“ اور اس بات کا دعویٰ کر نے سے پھلے خود اسی نے نقل کیا ھے کہ اجماع مسلمین اس کے بر خلاف ھے ۔
” جس اونٹ کے پیر کی موٹی والی نسیں کاٹ دی گئی ھوں وہ کاٹنے والے کے لئے حلال ھے اور وہ جب تاجروں سے لے لیا جائے تو زکوٰة کے عوض کافی ھے اگر چہ زکوٰة کے نام سے نہ لیا گیا ھو ۔،،
بھنے والی چیزوں میں اگر جاندار مثلا چوھا مر جائے تو یہ چیزیں نجس نھیں ھو تیں“
جنب کو چاھئے کہ حالت جنا بت میں نافلہ شب پڑھے اور تا خیر نہ کرے کہ فجر سے پھلے غسل کر کے پڑھے گا اگر چہ اپنے ھی شھر میں ھو ۔“
” وقف کرنے والے کی شرط کا کوئی اعتبار نھیں ھے بلکہ اگر اس نے شا فعیہ پر وقف کیا ھے تو حنفیہ پر صرف کیا جائے گا اور بر عکس ،اور قاضیوں پر وقف کیا ھے تو صو فیہ پر صرف کیا جائے گا ۔،،
اسی طرح عقائد اور اصول دین کے مسائل میں بھی انحراف کا مر تکب ھوا ھے۔
ْ خدا وند عالم محل حوا دث ھے“تعالیٰ عن ذالک علوا کبیرا
خدا مرکب ھے اس کی ذات ویسے ھی محتاج ھے جیسے کل اپنے جزء کا محتاج ھوتا ھے ”تَعَا لیٰ عَنْ ذَالِکَ،،
خدا جسم رکھتا ھے،وہ خاص سمت میں ھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھوتا ھے ،وہ ٹھیک عرش کے برابر ھے نہ چھوٹا نہ بڑا“(خدا وندعالم اس قبح وبد ترین افترا ء اور صریحی کفر سے کھیں بالا تر ھے ۔خدا اس کے پیروٴوں کو رسوا کرے اور اس کے معتقدین کا شیرازہ منتشر کرے )
جھنم فنا ھوجائے گی ،انبیاء معصوم نھیں ھیں۔“
رسول الله صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی وقعت نھیں ھے ۔ان سے توسل نہ کیا جائے۔“
پیغمبر اسلام کی زیا رت کے لئے سفر کرنا معصیت ھے اس سفر میں نمازقصر نھیں ھوگی۔“
اقتباس از وھابیت :مسلمان علماء کی نظر میں آیت اللہ جعفر سبحانی

ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں کتا بیں

ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں کتا بیں موضوع
نئے مقالات
مذا ھب اربعہ کے علماء کی ایک جماعت نے ابن تیمیہ کی رد میں اس کے عقائد پر طعن کر تے ھوئے اور اس کے منحرف فتوؤں کو باطل کرنے کیغرض سے کتابیں لکھی ھیں جن میں سے کچہ حضرات کے نام یھاں درج کرتے ھیں ۔ علی بن محمد میلی جمالی تو نسی مغری مالکی ۔انھوں نے ”السّیوف المشر قیہ لقطع اعناق القائلین با لجھة والجسمیة“لکھی ” ھد یة العا ر فین“ ج ۱ ص ۷۷۴ اور ایضاح المکنون ج۲ ص ۳۷ میں اس کا تذ کرہ ملتا ھے ۔ شھا ب الدّین احمد بن یحییٰ جبرئیل شافعی ۔انھوں نے ” خبرالجھة،، لکھی ۔دیکھئے ”ھد یة العا رفین “ج ۱ ص ۱۰۸ اور ابو حا مد مرزوق کے بقول یہ بھترین رسالہ ھے ۔ ”التوسل بالنبی وبالصالحین“ تقی الدّین ابی بکر حصینی ۔انھوںنے ” دفع شبہ وتمرّد،، لکھی جو ۱۳۵۰ھء میں مصر میں طبع ھوئی اس میں ابن تیمیہ کے جھت اور تشبیہ کے قول کو باطل کیا گیا ھے۔ محمد حمید الدّ ین حنفی دمشقی فر غانی ۔ ان کی کتاب کا نام ”الردّ علیٰ ابن تیمیہ فی الا عتقادات،، ھے ۔معجم المئو لفین تا لیف عمر رضا کحالہ ج ۸ ص ۳۱۶ ۔ شیخ نجم الدین ابن ابی الد رالبغدا دی ۔انھوں نے ” رد علی الشیخ ابن تیمیھ،، لکھی۔ اس میں مو صوف نے ابن تیمیہ کے ایک رسالہ کاجواب دیا ھے ۔دیکھئے ” کشف الظنونج ۲ ص ۲۷ ۱۵ شیخ محمد ابن علی مازنی ۔انھوں نے ” رسالة فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئالة الطلاق،، اور رسالہ فی مسئلة الزیارت“ لکھی ۔معجم المئو لفین تالیف عمر رضا کحالہ ج ۱۱ ص ۳۱ ۔ ۰ عیسیٰ ابن مسعود منکالاتی مالکی ۔ انھوں نے ” الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلة الطلاق“ لکھی ھے ۔ اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین میں ج ۸ ص ۳۳ پر کیا ھے ۔ ۰ شیخ کما ل الدین محمد ابن علی بن شافعی ود مشقی معروف بہ ابن زملکانی ۔انھوں نے ” الدرة المضیة فی الرد علی ابن تیمیھ“ لکھی اس کا ذکر ” کشف الظنون“ ج ۱ ص ۷۴۴ اور ” ھدیة العارفین“ج ۲ ص ۱۴۶،اور” معجم المولفین“ ج ۱۱ ص ۲۵ پر ھے ۔ احمد ابن ابر ھیم سرو جی حنفی ۔ انھوں نے ” اعتراضات علیٰ ابن تیمیہ فی علم الکلام،، لکھی ۔دیکھئے معجم المئو لفین ج ۱ ص ۱۴۰ ۔ کمال الدین ابو القاسم احمد بن محمد شیرازی۔ انھوں نے ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی : ”رد علی ابن تیمیہ،،جس کا تذ کرہ معجم المئو لفین ج ۲ ص ۱۵۰ ، پرھے ۔ شیخ تقی الدین سبکی ، انھوں نے بھی ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی ھے ، جس کا تذ کرہ ” کشف الظنون،، ج ۱ ص ۸۳۷ اور ”ھدیةالعارفین، ، ج ۱ ص ۷۲۱ پر ھے اور شاید یھی ”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ ھو جس کے بارے میں شیخ محمد نجیت مطبعی حنفی نے اپنی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد،، ص ۱۳ پر اس طرح لکھا ھے کہ یہ کتاب غرض مقصود کو پورا کرتی ھے۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو کچہ بیان کیا ھے اس کی بنیاد کو ختم کر تی رھی ھے ، اس کے ار کان کو متز لزل اور اس کے آثار کو مٹاتی ھے ، اس کے جھوٹے وعدوں کو فنا کر نے والی ھے اس کے فساد کو ظاھر اور اس کے عناد کو واضح کر دیتی ھے“۔ شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی عالم جامعہ ا زھر۔انھوں نے ” تطھیر الفوادمن دنس الا عتقاد،، لکھی۔ اس میں مصنف مذ کور نے ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد کی ھے ۔یہ مصر میں ۱۳۱۸ ء میں طبع ھوئی ھے ۔اور چوتھی مر تبہ ۰۵ ۱۴ ء میں تر کیہ میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔ شیخ نعمان ابن محمود آلوسی بغدادی ۔ انھوں نے ” جلاء العینین فی محاکمة الا حمدین،، ”احمد ابن تیمیہ اور احمد بن حجر ھیثمی“ لکھی ۔ اس کا ذکر اسماعیل پاشا نے ایضاح المکنون ج ۱ ص ۳۶۳ پر اور عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین ج ۱۳ ص ۱۰۷ پر کیا ھے ۔ ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد میں ھمارے علماء اعلام کی طرف سے جتنا لکھا گیا ھے ان میں سے جتنے افراد سے میں آگاہ ھو سکا ان کا ذکر یھاں کر دیا۔

جو کتابیں وھابیت کی رد میں لکھی گئیں وہ کتابیں جنھیں علماء مذا ھب اربعہ نے محمد ابن عبدالوھاب کے ایجاد کردہ وھابی مذ ھب کی رد میں لکھا ھے وہ بھی بھت ھیں جن میں سے کچہ مصنفین اور ان کی کتابوں کے نام ھم یھاں پر درج کر رھے ھیں ۔ سب سے پھلے وھا بیت کی رد میں محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی سلیمان بن عبد الو ھاب نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”الصواعق الالھیة فی الرد علی الو ھا بیة“رکھا ۔ اس کے بعد تو حجاز ، مصر،ھند ،شام اور عراق کے علماء اھل سنت والجما عت بلکہ را فضیوں نے بھی پے در پے وھابیت کی رد میں کتابیں لکھیں ۔ شیخ سلیمان نے اس کتاب کے ذریعہ حسن بن عیدان کا جواب دیا ھے کیونکہ اس نے اس مذ ھب کے بطلان پر دلیلیں مانگیں تھیں ۔اس کتاب میں مو صوف نے وھابیوں کی جھالت ،گمراھی اور ان کے اندر استنباط کی صلا حیت نہ ھونا ثابت کیا ھے ۔اسی طرح نذر ، شفاعت ،دعا اور میت سے سوال وغیرہ جیسے مسائل میں اپنے فاسد عقائد کی مخالفت کر نے والوں کو کافر قرار دیتے ھیں جنھیں تمام مسلمان انجام دیتے ھیں ، اور اس میں شر عا کوئی قباحت نھیں جانتے خواہ اھل سنت ھوں یا غیر ۔ ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ھیں ، ھر ایک مسئلہ کو معتبر شرعی دلیلوں اور متواتر حدیثوں اور ائمہ اربعہ رضی الله عنھم سے حکایت شدہ اجماعات کے ذریعہ ثابت کرتے ھیں ، اس کتاب میں وھابیوں کی باطل آراء کو غلط ثابت کیا ھے ۔یہ کتاب تیسری مرتبہ استا نبول ، تر کیہ میں ۱۳۹۹ء میں طبع ھوئی ۔ شیخ سلیمان رحمتہ الله علیہ نے اس کتاب کے ص ا۴ پر وھابیوں کو مخاطب کرتے ھوئے لکھا ھے : رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اسی طرح اھل علم نے فرقہ نا جیہ کے اوصاف بیان کئے ھیں اور تم میں اس فرقہ کی ایک صفت بھی نھیں پائی جاتی ۔ مو صوف نے ان کے دعویٰ کی تردید کی ھے کہ قیامت کے دن وھابی نجات پائیں گے کیوں کہ ان کے اندر تھتر ھلاک ھونے والے اور دوزخی فرقوں میں سے ایک نجات پانے والے فر قہ کے او صاف نھیں پائے جاتے ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں سے ایک حمد الله واجوی ھیں انھوں نے ”البصائر المنکری التو سل با ھل المقابر“لکھی جو استانبول میں ۱۹۷۵ءء میں شائع ھوئی۔ ان ھی میں عامر قادری استاد دارالعلوم قادریہ کراچی پاکستان ھیں انھوں نے” المدارج السنیة فی رد الو ھابیة۔“ لکھی جو ۱۹۷۷ءء میں طبع ھوئی اور دوبارہ تر کیہ میں ۱۹۷۸ءء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی اسے حسین حلمی ابن سعید استانبولی نے شا ئع کیا۔ وھابیوں کی رد میں ابراھیم بن عثمان سمنودی مصری نے بھی ” سعادة الدارین فی الر د علی الفر قتین الو لھا بیة و مقلد ة الظاھر یة“ نام کی کتاب لکھی جو مصر میں ۱۳۲۰ء میں دو جلدوں میں شائع ھوئی ۔ اور شیخ احمد سعید سر ھند ی نقش بندی نے ”الحق المبین فی الرّ د علی الوھابین“لکھی اس کا ذکر بغدادی نے ” ھد یة العا رفین“ ج ۱ص ۱۹۰پر اور عمر رضا کحالہ نے ”معجم المو لفین“ ج ۱ ص ۲۳۲ پر کیا ھے اسی طرح ان کی رد میں لکھنے والوں میں ابو حامد بن مرذوق شامی ھیں جنھوں نے ” التوسل با لنبی و بالصالحین“ لکھی جو تر کیہ میں ۱۹۸۴ءء میں بذ ریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔ اوروھابیوںکی رد لکھنے والوں میں بغداد میں طریقئہ نقشبندیہ کے پیشوا مرحوم شیخ دا وؤد بین سلیمان بغدادی ھیں جو خالدیہ نقشبندیہ کے خلفاء میں سے ھیں انھوں نے ۔ ” المنحہ الو ھبیة فی ردالوھابیة“ لکھی جو تیسری مر تبہ استانبول تر کیہ میں ۱۹۷۸ء ء میں طبع ھو ئی۔ اس کتاب میں انھوں نے ثابت کیا ھے کہ وھابی جاھل ھیں اور احادیث صحیحہ ، ادلہ عقلیہ اور مذاھب اربعہ کے تمام علماء کی مخالفت کرتے ھیں۔ اس کتاب میں ان کے تمام فاسد عقائد اور لغو آراء کو عقلی ونقلی دلیلوں سے باطل کیا ھے ۔اور اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ انبیاء زندہ ھیں ، شفاعت کریں گے ، مردے زندوں کی گفتگو سنتے ھیں ، زیارت کر نے والے سے آگاہ ھوتے ھیں ، انھیں دیکھتے ھیں ، اور ان کے اقوال سے واقف ھوتے ھیں اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ مردوں سے توسل صحیح ھے اور وھابی ان سب باتوں کا انکار کر تے ھیں یھاں تک کی اس بات کو بھی نھیں مانتے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اپنے زیارت کر نے والوں کا علم رکھتے ھیں اور ان کے کلام کو سنتے ھیں ۔ اور وھابی جو اپنے عقائد کے مخالف مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ھیں ان کی رد میں ایک کتاب لکھی گئی ھے جس کا نام ”صلح الا خوان الرد علی من قال بالشرک والکفران،،ھے ۔ اس کا تذ کرہ بغدادی نے ۔ ”ھدیة العارفین،، ج ۱ ص ۳۶۳ پر کیا ھے۔ انھیں میں ابر ھیم ابن عبدالقادر ریا حی تو نسی مالکی بھی ھیں انھوں نے ” ردّ علی الوھابیة“کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے ”معجم المئو لفین،، ج ۱ ص ۴۹ پر کیا ھے ۔ طریقہ رفاعیہ کے رئیس مر حوم شیخ ابراھیم راوی نے بھی ان کی رد لکھی ھے۔ انھوں نے ” الا وراق البغد ادیہ فی الحوادث النجد یھ“لکھی اس میں مو صوف نے کتاب وسنت کی روشن دلیلوں سے وھابیوں کی رد کی ھے۔ یہ کتاب بغدادمیں ۱۳۴۵ءء مطبع النجاج میں اور تر کیہ میں ۱۹۷۶ءء میں طبع ھوئی۔رد لکھنے والوں میں خوجہ حافظ محمد حسن جان سر ھندی ھیں انھوں نے۔العقائد الصحیحہ فی تر دید الوھابیة النجد یة“ لکھی ۔اس کتاب میں مصنف نے وھابیوں کے تمام عقیدوں کو غلط ثابت کیا ھے اور ان کی تمام دلیلوں کو کتاب خدا سنت نبویھ، عقل اورعرف عام سے قطعی براھین کے ذریعہ باطل کیا ھے۔ یہ کتاب پھلے ۱۳۶۰ءء میں امرتسر ھندوستان میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۸ء میں استانبول ترکیہ میں آفسٹ کے ذریعہ طبع ھوئی ۔اسے برادر حسین حلمی استانبول نے شائع کیا۔ موصوف نے ایک اور کتاب بنام ” الا صول الا ربعہ فی تردید الوھابیھ“بھی لکھی جو تر کیہ میں ۱۴۰۶ء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں شیخ جمیل آفندی صدقی زھاوی ھیں۔ انھوں نے ” الفجر الصادق فی الرد علیٰ منکر التوسل والکرامات والخوارق“لکھی جو ۱۳۲۳ء میں ”مطبعة الواعظ“ مصر میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۶ء اور ۱۴۰۶ء میں استانبول ترکیہ میں طبع ھوئی جسے مکتبة الحقیقہ نے شائع کیا ۔ اس کے ناصر احمد علی ملیجی کتبی اس کی تعریف میں کھتے ھیں کہ : اس کتاب میں ایسی قوی دلیلیں اور ٹھوس برا ھین ھیں کہ سنت سے منحرف اور خیالی گمراھیوں سے تمسک کرنے والوں میں اس کا مقابلہ کرنے کہ قوت نھیں ھے ۔ موٴ لف:مذکورہ بالا کتاب کے اندر وھابیت کی تاریخ ، اس کے ظھور کا آغاز ، اس کی نشرو اشاعت ، اس کے قائد کے فاسد عقائد کا بیان ، رھبر وھابیت کے جرائم، زمین میں اس کا فساد پھیلا نا ،بے دینی ، مسلمانوں کی خونریزی ، اس کی زندگی میں وھابیوں نے جو کچہ کیا اور اس کے مرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو جرائم اور زیادتیاں کیں اور دین میں جو بدعتیں ایجاد کیں یہ ساری باتیں مذ کور ھیں لھٰذا یہ کتاب وھابیوں کی رد میں لکھی گئی کتابوں میں سب سے بھترین کتاب ھے کیونکہ اس کتاب نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ھے اور یہ واضح کر دیا ھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ھیں اور اپنے پست مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر صرف اسلام کے نام پر مظاھرہ کرتے ھیں ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ محمد کسم حنفی بھی ھیں جنھوں نے ” الا قوال المر ضیةفی الّرد علی الوھابیة“ جس کا ذکر عمر رضاکحالہ نے ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۳ پر کیا ھے ۔ محمد عطاء الله معروف بہ عطا نے ” الر سالة الردیة علی الطائفة الوھابیة“ لکھی اس کا ذکر بھی ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۴ پر ھے ۔ اور وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ عبدالمحسن اشیقری حنبلی بھی ھیں انھوں نے ”الر د علی الوھابیة“ لکھی ۔اس کا ذکر بھی ” معجم المئو لفین“ ج ۶ ص ۱۷۲ پر ھے اور وھابیوں کی ردظاھر شاہ ھندی نے بھی لکھی ھے انھوں نے۔” ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبورلکھی جو ۱۴۰۶ء میں ترکیہ میں ” الفجر الصادق“تصنیف شیخ زھاوی کے ساتھ شائع ھوئی ھے ۔ رد لکھنے والوں میں قاضی القضاة ابو الحسن علی السبکی بھی ھیں انھوں نے ۔”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ لکھی جو ۱۴۰۵ ء میں تر کیہ میں کتاب”تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد،، سے ملحق کر کے طبع ھوئی۔وھابیوں کی رد میں محمود بن مفتی عبدالغیور نے بھی کتاب بنام ” ردو ھابی“ لکھی جو ۱۴۰۱ئہ میں استانبول میں طبع ھوئی ۔ شیخ حسن خزبک نے بھی رد لکھی ھے ۔انھوں نے ” المقالات الوفیہ فی الرد علیٰ الوھابیة،، لکھی جو طبع بھی ھوئی اس کا ذکر ” التوسل بالنبی و با لصالحین“ص ۲۵۳ پرھے ۔ ان کی رد لکھنے والوں میں مفتی محمد عبد القیوم قادری ھزاروی ھیں انھوں نے ” التوسل“لکھی اور ۱۹۸۴ءء میں تر کیہ میں کتاب ” التوسل بالنبی وبالصالحین“ سے ملحق کر کے طبع ھوئی ۔اس کتاب میں وھابیوں کے اس نظریہ کو رد کیا ھے کہ نبی سے توسل کرنا جائز نھیں ھے اور سنت اجماع اور بزرگوں کے اقوال سے ثابت کیا ھے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد بھی آپ سے توسل کرنا جائز ھے ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں مالک ابن شیخ محمود داوٴد مدیر مدرسةالعرفان شھر کوتیالی جمھوریہ مالی،افریقہ ھیں ،انھوں نے ”الحقائق السلامیہ فی الردّعلی المزاحم الوھابیةبادلّة الکتاب والسنةالنبویة،،لکھی جو ۱۴۰۳ھئمیں طبع ھوئی اور پھر دوبارہ ۱۴۰۵ھء میں ترکیہ میںبذریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔ ان ھی میںابوالفداء اسماعیل تمیمی تو نسی ھیں،انھوںنے ”المنح الالٰھیہ فی طمس الضلالة الوھابیة،،لکھی ۔اس کا ذکر احمد ابن ضیاف نے ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان،، میں کیا ھے جو کتاب ”الحقائق السلامیة،،سے ملحق کرکے طبع ھوئی اور ایک دوسری کتاب ”عقدنفیس“بھی لکھی جس میں وھابیوں کے شبھات کو رد ّکیا ھے ۔اس کا ذکر ”معجم الموٴلفین،، ج۲ ص۲۶۳میںھے ۔ وھابیوں کی ردّلکھنے والوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی شافعیہ ھیں جنھوں نے ”الدّررالسنیةفی ردّعلیٰ وھابیة،،لکھی جو استانبول ترکیہ میں ۱۹۷۶ئئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ذکر بغدا دی نے ”ھدیةالعا رفین“ج۱ ص۱۹۱پر کیا ھے اور مصنّف مذکور اپنی کتاب ”الفتوحات الاسلامة،،میںوھابیوں پر ردّ کی ھے جو”فتنة الوھابیھ،،کے نام سے ۱۹۷۵ئئمیںترکیہ میں شائع ھوئی اور ”الدّررالسنیة،،کی جانب شیخ یوسف نبھانی نے ” شواھد الحق فی الاستغاثة بسیدالخلق“میں اشارہ کیا ھے اور کھا کہ سید احمد دحلان مفتی شافعیہ نے وھابیت کی ردّمیں ایک مستقل کتاب لکھی ھے ۔ اور خیر الدین زرکلی نے ”الاعلام،،ج۱/ص۱۳۵پرلکھا ھے :ان (زینی دحلان)کا ایک رسالہ وھابیوں کی ردّ میںھے ۔ اور نبھانی نے ”شواھدالحقّ،،کے تیسرے باب میںایسی باتیں نقل کی ھیں جواثبات حق اور باطل کو فنا کرنے کے لئے کافی ھیںاس طرح اس میں وھابیوں کے شبھات کو واضح بیان اور قوی ترین دلیل و برھان سے رد کیا ھے اور ان کا کلام۲۶صفحوں پر پھیلاھوا ھے۔ ملاحظہ کیجئے اس کتاب کے ص۱۵۱تا ص۷۷۱یہ تمام صفحات وھابیوں کی رد اور طعن پر مشتمل ھیں۔ ان ھی کی ردّلکھنے والوں میں مصطفی ابن احمد شطی حنبلی ھیں جنھوںنے ایک رسالہ بنام ”النقول الشرعیة فی الرد ّعلی الوھابیة،،لکھا جو۱۴۰۶ھئمیںترکیہ میں ”الفجر الصادق“تصنیف علامہ زھاوی سے ملحق کرکے شائع ھوئی۔ اس کا ذکر شیخ نبھانی نے شواھد الحق میں کیا ھے۔ ان کے علاوہ وھابیوں کی رد میں اور بھی کتابیںلکھی گئیں جن میں ایک”التوسل بالنّبی وجھلةالوھابین“ ھے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول ترکیہ میںطبع ھوئی ۔ اورانھیںمیں سے ”ضلالات الوھابین،،ھے جو ۱۹۷۶ئئمیں استانبول میں طبع ھوئی اور ”المسائل المنتخبة،،تصنیف قاضی حبیب الحق ابن قاضی عبد الحق جو ۱۹۰۶ئئمیںکتاب الانصاف سے ملحق کرکے استانبول میںطبع ھوئی” التوسل با لموتیٰ،،جو ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول طبع ھوئی ۔”علماء المسلمین والوھابیون“اسے حسین حلمی الیشیق نے جمع کیا ھے یہ کتاب ۱۹۷۳ئئمیںاستانبول ترکیہ میں طبع ھوئی اور پانچ رسالوں کا مجموعہ ھے۔ پھلا رسالہ ”میزان الکبریٰ،،شیخ عبدالوھاب شعرانی مصری کی تالیف ھے ۔دوسرا رسالہ ”شواھدالحق“سے ھے جوشیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی سابق رئیس محکمہ حقوق بیروت کی تصنیف ھے ۔تیسرا رسالھ”العقائد النسفی“تصنیف شیخ عمر ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندکی ھے ۔چوتھا رسالہ ”من معربات الکتوبات“تصنیف شیخ احمد ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندی ھے اور پانچواںرسالہ ”رسالةفی تحقیق الرابطھ،،شیخ خالد بغدادی کی تصنیف ھے یہ کتاب مکتبھٴ الیشیق کتاب اوی استانبول ترکیہ نے طبع کی ھے ۔ اور جس کتاب کی جانب ھر امین لکھنے والے اور کھلی تحقیق کر نے والے کی توجہ مبذول کرانا مناسب ھے وہ ”تاریخ آل سعود ھے“ ایک ضخیم اور ٹھوس کتاب جسے استا د مجاھد شھید ناصر السعید نے تالیف کیا ھے اس میں وھابیوں کے سیاہ ماضی اور مکروہ حال کی تاریخ موجود ھے جس میں سعودی مزدور مجرم حکام ،گمراہ و گمراہ کن وھابیوں کے دین کی بنیاد مضبوط کرنے والے ، ذلیل ورسوا ھوئے ھیں ۔ یہ کتاب ایک ھزار سے زائد صفحات پر مشتمل ھے اور اس میں ایسے ٹھوس حقائق ھیں جنھیں مضبوط مصادر سے مستحکم کیا گیا ھے اور جو اس سے پھلے کسی اور کتاب میں نھیں تھے ۔ اس کے صفحات پر بعض ان وھابی قائدین کی ناگوار تصویر یں بھی ھیںجو مقدس سر زمین حجاز پر آج ظلم وجور کے ذریعہ حاکم ھیں لیکن درحقیقت اپنے آقاوٴں ،یھودیوں اور امریکیوںکے نوکر ھیں ۔ یہ تصویر یں انھیں شراب پیتے ھوئے،سینوں پر صلیب لٹکائے ھوئے اور طوائفوں اور بد کار عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول دکھایا گیا ھے۔ لھذا یہ ایک ایسی وسیع کتاب ھے جسے پڑہ کر انسان اس من گڑھت دین کے حکّام کے جرائم اور ان کی بد کاریوں اور بد اعمالیوں سے زیا دہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرسکتا ھے۔ دینی بھائیوں کو ایک نصیحت برادران اسلا می اس کتاب کو پڑہ کر جب آپ وھابی مذ ھب اور اس کی حقیقت سے آگاہ ھو چکے اور یہ جان چکے کہ وہ ایک من گڑ ھت مذ ھب ھے جسے محمد ابن عبدالوھاب نجدی نے احمد ابن تیمیہ کے با طل آراء و عقائد کی پیروی میں ایجاد کر کے مذاھب اربعہ کی مخالفت کی ھے ۔ اور ان کتابوں سے بھی آگاہ ھو چکے جو ھمارے علماء رحمتہ الله علیھم نے اس کی رد اور اس کے جواب میں لکھی ھیں ۔ تو اس کے پیروؤں اور دوستوں کی محبت ،ھمنشینی ، ان کے باطل افکار و فاسد عقائد کی پیروی اور ان کی گمراہ کن کتابوں کے مطالعہ سے پر ھیز کریں ۔ اور ان لو گوں میں سے نہ ھوں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فر مایا ” واذا قیل لھم اتبعو اما انزل الله قالو ابل نتبع ما وجد نا علیہ آ با ئنا“اور جب ان سے کھا گیا کہ خدا نے جو دین نازل کیا ھے اس کی پیروی کرو تو انھو ں نے کھا کہ ھم اس دین کی پیروی کر تے ھیں ، جسپر اپنے باپ دادا کو پایا ھے ۔تو خدا نے اس کی رد کی اور اس جواب پر ان کی اس طرح مذ مت کی :”او لو کان الشیطان ید عو ھم الیٰ عذاب السعیر“شیطان انھیں جھنم کے عذاب کی طرف بلا رھا ھے ۔یا ان لوگوں میں سے نہ ھو جنھوں نے کھا : ”اجئتنا لتلفتنا عما وجد نا علیہ آبا ئنا“تم اس لئے آئے ھو کہ ھمیں ھمارے باپ دادا کے دین سے پھیر دو ۔ تو خدا نے ان کا اس طرح سے جواب دیا ”
لقد کنتم انتم وآبا ٴو کم فی ضلال مبین“یقیناتم اور تمھارے باپ دادا کھلی ھوئی گمراھی میں ھیں ۔ آخر میں آپ کے لئے تو فیق کی آرزو کرتا ھوں اور خدا سے دعا کرتا ھوں کہ آپ کو ھر بد عت اور گمراھی سے جو جھنم تک لے جانے والی ھے محفوظ رکھے ۔ اور خوا ھشمند ھوں کہ مطالعات و تحقیقات میں تعصب سے بلند ھوں عقیدہ اور ایمان میں آزاد ھوں اور خدا بھی یھی چاھتا ھے کہ آزاد ھوں اور غیر کے بندے نہ ھوں کیوں کہ آزاد پیدا ھو ئے ھیں ۔ سلام ھو آپ پر اور ان پر جو راہ ھدایت کی پیروی کریں اور گمراھی ، ضلالت اور ھلا کت کے راستے سے دور رھیں ۔ و السلام علیکم ورحمة الله وبر کاة


محمد ابن عبدالوھاب اور وھابیت کی رد میں لکھی گئی کتا بوں کی فھرست

v ۰ اتحاف اھل الزمان محمد ابن ابی ضیاف v ۰ الا صول الا ربعہ خواجہ سر ھندی v ۰ اظھار العقوق مشرقی مالکی جزائری v ۰ الا قوال الر ضیة فقیہ محمد الکسم v ۰ الا نتصا رللا ولیاء الا برار طاھر سنبل حنفی v ۰ الا وراق البغداد یة ابراھیم راوی v ۰ البراھین الساطعہ سلامة الغرامی v ۰ البصا ئر لمنکری التوسل حمد الله جوادی v ۰ تاریخ آل سعود ناصر سعید v ۰ تجرید سیف الجھاد عبد الله ابن عبد الطیف v ۰ تحر یض الا غبیاء عبد الله بن ابر ا ھیم v ۰ تھکم المقلّدین محمد ابن عبد الرّ حمٰن v ۰ التو سل محمد عبدالقیوم v ۰ التوسل با لنّبی وبا لصالحین ابو حامد ابن مرزوق v ۰ جلا ل الحق ابر اھیم جلمی v ۰ الحق المبین احمد سعید v ۰ الحقائق الا سلا میة مالک داوؤد v ۰ خلا صة الکلام احمد زینی دھلان v ۰ الدرر السنیة احمد بن زینی v ۰ ردّ علیٰ محمد بن عبد الوھاب اسماعیل تمیمی v ۰ الر د علیٰ الوھابیة عبدالمحسن اشیقری v رد علی الو ھابیة ابراھیم بن عبدالقادر v رد المختار علی الدرالمختار سید محمد امین v ۰ ردّ وھابی محمود بن عبد الغیور v ۰ الر سالة الردیة محمد عطاء الله v ۰ رسالة قاسم محجوب v رسالة محمد بن سلیمان v ۰ رسالة فی تحقیق الرا بطة خالد بغدادی v رسالة فی جواز التوسل مھدی ورّانی v رسالة مسجعة محکمہ کواشی تونسی v ۰ سعاد ة الدارین ابرا ھیم بن عثمان v ۰ السیف الباتر ابو حامد بن مرزوق v ۰ سیف الجبار شاہ فضل رسول v ۰ السیف الھندی عبدالله بن عیسیٰ v ۰ السیوف الصقال عالم من بیت المقدس v ۰ شفاء السقام علی سبکی v ۰ شواھد الحق شیخ یوسف نبھانی v ۰ الصارم الھندی شیخ عطاء مکی v ۰ صلح الا خوان داوؤد بن سلیمان v ۰ الصواعق الا لھیة سلیمان بن عبدالوھاب v ۰ الصواعق والر عود عبدالله بن داؤد v ۰ ضلا لات الو ھا بیین v ۰ ضیاء الصدور ظاھر شاہ میاں ھندی v ۰ العقائد الصحیحیة خواجہ سر ھندی v العقائد النسفی عمر بن محمد v ۰ عقد نفیس اسماعیل تمیمی v ۰ علماء مسلمین والو ھا بیون حسین حلمی ا یشیق v ۰غوث العباد ببیان الر شاد مصطفیٰ حمامی مصری v ۰ فتنة الو ھابیة احمد زینی دحلان v ۰ الفتو حات الا سلا میة احمد بن زینی v ۰ الفجر الصادق جمیل صدقی الزھاوی v ۰ فصل الخطاب سلیمان بن عبدالوھاب v ۰ فصل الخطاب احمد ابن علی بصری v ۰ المدارج ا لسنیة عامر قادری v ۰ المسائل المنتخبة حبیب الحق v ۰ مصباح الا نام و جلا ء الظلام علوی ابن احمد حداد v ۰ المقالات الو فیة شیخ حسن خزبک v ۰ المنح الا لھیة اسماعیل تمیمی v ۰ المنحة الو ھبیة داؤد بن سلیمان v ۰ من معر بات المکتوبات ا حمد ابن اعبد الا حد v ۰ میزان الکبریٰ عبدالوھاب شعرانی v ۰ النقول الشر عیة مصطفیٰ بن احمد شطی
__________________

Monday 26 July 2010

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

اسلامی فقہ سے متعلق کوئی بات کرنے سے پہلے چند حقائق ذہن نشین کر لینا ضروری ہیں۔ ان حقائق کا تعلق اسلامی فقہ کی نوعیت کے بارے میں ہے۔ ان حقائق کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق رائے ہے اور ان سے کسی بھی صاحب علم کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔
شریعت اور فقہ میں فرقشریعت اللہ تعالی کے نازل کردہ قوانین اور احکام کا مجموعہ ہے جس کی تفصیلات قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں ملتی ہیں۔ اس کے برعکس فقہ ایک انسانی کام ہے جس میں قوانین کو اگرچہ خدائی شریعت کی بنیاد پر اخذ کیا جاتا ہے مگر بہرحال یہ خدائی نہیں بلکہ انسانی کام ہے اور اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
فقہ کے مآخذاسلامی فقہ میں احکام اور قوانین کو ان مآخذ سے اخذ کیا جاتا ہے*قرآن مجید : قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا موضوع ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے سامنے جواب دہ ہونے کے لئے انسانوں کے ذہن کو تیار کرنا ہے۔ احکام اور قوانین سے متعلق آیات قرآن مجید کے صرف دس فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں تاریخی طور پر یہ تو متعین ہے کہ یہ صد فیصد وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے کلام الہی کی حیثیت سے پیش کی تھی۔ اس کتاب کے متن میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ اس کی متعدد تشریحات
(Interpretations)
کی گئی ہیں جن میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں درست تشریح کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
*
سنت متواترہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قرآن مجید کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی اور اللہ تعالی کے بعض احکامات جو قرآن میں بیان نہیں ہوئے، انہیں اپنے مخاطبین کے سامنے پیش فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ سنت امت تک صحابہ کرام کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔
*
احادیث و آثار : یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ بھی کی گئی ہے۔ محدثین کی عظیم کاوشوں کے نتیجے میں ایسے طریق کار وجود میں آ گئے ہیں جن کی بدولت اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف صحیح حدیث کی بنیاد پر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ احادیث کے بارے میں بھی محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث کے مخالف مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔
(دیکھیے خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایۃ اور جلال الدین سیوطی کی تدریب الراوی)
*
اجماع امت : اگر کسی قانون کے بارے میں مسلمانوں کے ماہرین قانون کے ہاں اتفاق رائے ہو گیا ہو تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن و سنت کے کسی حکم کے بارے میں اتفاق ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کا حکم ہے اور اس کی تعمیل اس طریقے سے کی جائے گی۔ مثال کے طور پر نماز، زکوۃ، حج اور روزے کی شرعی حکم ہونے اور ان کے طریق کار کے بارے میں اجماع۔ ایسے اجماع کے بارے میں یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس سے اختلاف رائے نہیں کیا جا سکتا۔ اجماع کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسے قانون کے بارے میں ایک زمانے کے مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے جو قرآن و سنت میں بیان نہیں کیا گیا۔ مسلم علماء کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اس قسم کے اجماع سے بعد کے ادوار میں اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*قیاس : قرآن و سنت کے کسی حکم کی بنیاد پر اس سے ملتی جلتی صورتحال کے بارے میں حکم اخذ کرنے کو قیاس کہا جاتا ہے۔ قیاس ایک خالصتاً انسانی عمل ہے جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس وجہ سے دلائل کی بنیاد پر قیاس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*استحسان : بعض اوقات فقہاء دو فقہی آراء میں سے کسی ایک کو مصلحت کی بنیاد پر اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض فقہاء استحسان کو جائز سمجھتے ہیں اور بعض اسے درست قرار نہیں دیتے۔*عرف و عادت : بعض قوانین کسی معاشرے کے عام رسم و رواج کی بنیاد پر اختیار کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان قوانین کی بنیاد قرآن و سنت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے یہ قوانین زمانے اور علاقے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔اگر فقہ کے مآخذوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے صرف پہلے دو مآخذ مقدس حیثیت رکھتے ہیں جبکہ باقی تمام مآخذ انسانی نوعیت کے ہیں۔ جس طرح فقہ کا ایک ماہر دلائل کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر قائم کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح فقہ کا دوسرا ماہر دلائل ہی کی بنیاد پر اس نقطہ نظر کو مسترد کر سکتا ہے۔
اہم فقہی مکاتب فکرجس طرح دنیا کے دیگر علوم میں فکر کے اختلاف اور اتفاق کے باعث متعدد مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح علم فقہ میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے علم فقہ میں درج ذیل مکاتب فکر مشہور ہوئے
*
فقہ حنفی : یہ مکتب فکر امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ ( 150ھجری / 767عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہ مکتب فکر عالم اسلام میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بنو عباس نے فقہ حنفی کو سرکاری سطح پر نافذ کیا تھا۔
*
فقہ مالکی : یہ مکتب فکر امام مالک بن انس علیہ الرحمۃ (179ھجری / 795عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اسپین کی مسلم سلطنت نے اس فقہ کو سرکاری قانون کی حیثیت دی جس کی وجہ سے اس کا فروغ زیادہ تر شمالی اور مغربی افریقہ کے ممالک میں ہوا۔
*
فقہ شافعی : یہ مکتب فکر امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمۃ ( 204ھجری / 819عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔
*
فقہ حنبلی : یہ مکتب فکر امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ ( 241ھجری / 855عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔*فقہ جعفری : یہ مکتب فکر امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ ( 148ھجری / 765عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر وجود پذیر ہوا۔ چونکہ امام صاحب سے استفادہ زیادہ تر اہل تشیع نے کیا ہے، اس وجہ سے اس مکتب فکر کو بالخصوص اہل تشیع ہی میں اختیار کیا گیا۔
*
فقہ ظاہری : یہ مکتب فکر امام داؤد ظاہری علیہ الرحمۃ (270ھجری / 883عیسوی ) کی کاوشوں کے
نتیجے میں وجود پذیر ہوا۔اس مکتب فکر کے دیگر اہل علم میں امام ابن حزم علیہ الرحمۃ ( 456ھجری / 1064عیسوی) بھی شامل ہیں۔
*
فقہ اہل الحدیث : اہل حدیث فقہاء کا وہ طبقہ تھا جو مختلف ائمہ کی آراء کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کسی ایک امام کے مقلد نہیں ہوتے تھے اور بعض شافعی، حنبلی یا ظاہری مکتب فکر سے تعلق رکھا کرتے تھے۔
*
دیگر مکاتب فکر : ان مشہور فقہی مکاتب فکر کے علاوہ بعض دیگر جلیل القدر فقہاء جیسے سفیان ثوری، لیث بن سعد اور بعض دیگر اہل علم شامل تھے۔ایسا نہیں ہے کہ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے تمام فقہاء ہر معاملے میں ایک ہی نقطہ نظر پر متفق ہیں۔ ایک مکتب فکر کے فقہاء کے درمیان اتفاق رائے صرف چند بنیادی اصولوں پر ہوا کرتا ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد پر مسائل استنباط و استخراج کرتے ہوئے ان کے مابین بھی بہت سے مسائل میں اختلاف رائے واقع ہو جایا کرتا ہے۔
فقہاء کے اختلافات کی بنیادی وجہشریعت کے چند بنیادی احکام کو چھوڑ کر، فقہاء کے ہاں بالعموم بہت سے معاملات میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف رائے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے بعض اہم یہ ہیں
*
فقہاء کے مابین قرآن مجید کی کسی آیت کی تشریح میں فرق واقع ہو سکتا ہے۔ ایک فقیہ، ایک آیت سے ایک نقطہ نظر اخذ کر سکتا ہے جبکہ دوسرا فقیہ اسی آیت سے دوسرا نقطہ نظر۔
*
فقہاء کے مابین کسی حدیث کی تشریح میں بھی فرق واقع ہو سکتا ہے۔
*
فقہاء کے مابین بسا اوقات آیات اور احادیث کو ملا کر ان سے نتائج اخذ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک فقیہ کسی ایک آیت یا حدیث کی بنیاد پر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو جبکہ دوسرا اس آیت یا حدیث کو کسی اور آیت اور حدیث کے ساتھ ملا کر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو۔ ایک فقیہ ایک آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر دوسری آیت یا حدیث کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو اور دوسرا فقیہ اس کے برعکس دوسری آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر پہلی کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو۔
*
ایک فقیہ کسی صورتحال کو قرآن و سنت کے ایک حکم پر قیاس کر سکتا ہے جبکہ دوسرا دوسرے حکم پر۔
*
ایک فقیہ استحسان کی بنیاد پر ایک حکم کو ترجیح دے سکتا ہے اور دوسرا دوسرے کو۔
*
ایک فقیہ ایک شہر کے رسم رواج (معروف) کی بنیاد پر قانون سازی کر سکتا ہے اور دوسرا دوسرے شہر کے قانون کی بنیاد پر۔
فقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں ترجیح کے اصولفقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف رائے کی اس صورتحال میں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان کے مابین بالکل ہی متضاد نقطہ ہائے نظر قائم ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے صرف ایک رائے ہی درست ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے ضروری ہے کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے کسی ایک رائے کو ترجیح دی جائے۔ ہمارے ہاں یہ غلط طور پر یہ بات رواج پذیر ہو چکی ہے کہ ایک شخص کو ایک ہی مکتب فکر تک محدود رہنا چاہیے۔ صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ فقہ کا یہ پورا ذخیرہ ہمارے ہی بزرگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں کسی مسلکی یا فقہی تعصب کے بغیر اس پورے ذخیرے کا جائزہ لیتے ہوئے جس معاملے میں جو نقطہ نظر صحیح ہو، اختیار کر لینا چاہیے۔ ترجیح دینے کے لئے جن اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہیں *اگر فقہاء کے مابین قرآن کی کسی آیت یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کسی حدیث کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو اس عالم کی رائے کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات، آیت یا حدیث کے سیاق و سباق اور موقع محل، عربی زبان کے اصولوں اور عقل عام (Common Sense)
سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو۔
*
اگر فقہاء کے ہاں استدلال کی بنیاد پر اختلاف رائے پایا جاتا ہو، تو ترجیح اس نقطہ نظر کو دی جائے گی جس کا استدلال قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات اور عقل عام کے زیادہ قریب ہے۔*اگر اختلاف قیاس کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر اس نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جس کا قیاس قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات کے زیادہ قریب ہے اور دوسرے کی نسبت بہتر اور معقول بنیادوں پر قائم ہے۔
*
اگر اختلاف مختلف علاقوں میں رسم و رواج کے فرق کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر ظاہر ہے اسی نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور عقل عام سے مطابقت رکھتا ہو گا۔اب ہم غلامی سے متعلق ایک ایک فقہی مسئلے کو لے کر اس سے متعلق فقہاء کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم صرف انہی مسائل کا جائزہ لیں گے جن میں غلاموں کے حقوق سے متعلق اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہو رہا ہو۔اس ضمن میں ہم جان بوجھ کر کسی فقیہ کا نام پیش نہیں کر رہے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے ہاں مسلکی تعصب اس شدت میں موجود ہے کہ اپنے مسلک کے کسی عالم کا نام آتے ہی لوگ تمام دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی کی بات کو قبول کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے مسلک کے کسی عالم کا نام سنتے ہی اس کی صحیح بات کو بھی دلیل سنے بغیر غلط قرار دے دیا کرتے ہیں۔ نام بیان کئے بغیر ہم صرف مختلف اہل علم کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا جائزہ پیش کریں گے۔
(مبشر نذیر)

Followers