Tuesday 8 December 2009

سلسلہ اشاعت : ایمان

سلسلۂ اشاعت : ایمان




ایمان کسے کہتے ہیں؟
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ کے پاس سے آئے ہوئے احکام کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے۔


ایمان کا معنی و مفہوم کیا ہے؟
ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا
ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔

1. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 23
2. زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24

کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔


ایمان کی حقیقت کیا ہے؟
ایمان قلب و باطن کی یقینی حالت کا نام ہے جس میں قلب و باطن دنیا کی محبت سے خالی اور اللہ کی محبت سے معمور ہوں۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے

’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا
’’اے حارث ! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : 30325


قرآن حکیم میں لفظ ’’ایمان‘‘ کتنی بار آیا ہے؟
قرآن حکیم میں ’’ایمان‘‘ کا لفظ کم و بیش پینتالیس (45) بار آیا ہے۔


ایمان کا موضوع کیا ہے؟
ایمان کا موضوع عقائد ہیں۔


عقیدہ کسے کہتے ہیں؟
عقیدہ ’عقد‘ سے ہے جس کے معنی گرہ باندھنے کے ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم انیس، المعجم الوسیط، 2 : 614

اس سے مراد کسی شے کی ایسی تصدیق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔ عقیدہ کو ایمان کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے، اس سے مراد ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ رب العزت نے بواسطۂ رسالت ہمیں عطا فرمائی۔


ایمان اور عقیدہ میں کیا فرق ہے؟
عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہے جبکہ ایمان دین اسلام کی سب سے پہلی تعلیم ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے اور انہیں سچا جان کر ان پر یقین کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان کا دینِ اسلام کی تعلیمات کو سچا جاننا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے اور یہی اگر راسخ ہو جائے تو اس کا عقیدہ ہے کیونکہ ’’ایمان نمو پاتا ہے تو عقیدہ بنتا ہے‘‘


عقائد سے تعلق رکھنے والے علم کو کیا کہتے ہیں؟
وہ علم جس میں عقائد سے متعلق بحث کی جائے اسے علم الکلام اور علم العقائد کہتے ہیں۔


کیا محض علم آ جانے سے ایمان کی کیفیت نصیب ہوتی ہے؟
نہیں، کسی چیز کا محض علم آ جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا، اگر ایمان علم ہی سے حاصل ہوتا تو کوئی ان پڑھ مومن نہ ہوتا اور نہ کوئی علم والا کافر ہوتا جیسا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے :

مِنَّا نَبِيُّ يَأتِيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَتَی نَدْرُکُ هَذِهِ؟ وَاﷲ لَا نُوْمِنْ بِه اَبَداً وَلَا نُصَدِّقُهُ
ابن کثير، تفسير ابن کثير، 2 : 131
’’ہم مانتے ہیں کہ محمد) ہم میں سے ہی نبی ہیں اور اس کی طرف آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، پس ہم اس چیز کا انکار نہیں
کرتے (مگر) اللہ کی قسم ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘

پس واضح ہوا کہ علم اور ایمان دو الگ حقیقتیں ہیں، کبھی علم کے باوجود ایمان نہیں ہوتا اور کبھی علم کے بغیر بھی ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
البقره، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘

اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بن دیکھے ماننے کا نام ہے جبکہ علم دیکھ کر ماننے کا نام ہے۔


ایمان کی صفات کون کون سی ہیں؟
ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے

1.
ايمانِ مُجْمَل

2.
ايمانِ مُفَصَّل

اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں، جبکہ ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔


ایمانِ مُجْمَل کیا ہے؟ ایمانِ مُجْمَل یہ ہے

اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌم بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌم بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘


ایمانِ مُفَصَّل کسے کہتے ہیں؟
ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے

اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘


انسان کو کن چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے؟
ایمان کے بنیادی ارکان کی وضاحت درج ذیل آیات سے ہوتی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا
النساء، 4 : 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلَآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ
البقره، 2 : 285
’’وہ رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہل ایمان نے بھی
سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘

علاوہ ازیں متفق علیہ حدیث میں جو ’’حدیث جبریل‘‘ کے نام سے مشہور ہے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے

اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا
فرشتوں پر ایمان لانا
کتابوں پر ایمان لانا
رسولوں پر ایمان لانا
یومِ آخرت پر ایمان لانا
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبرئيل، 1 : 27، رقم : 50


ایمان باﷲ کسے کہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے، اس کے خالق و مالک ہونے، اس کے پروردگار اور حاجت روا ہونے کا زبان سے اقرار اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی تصدیق کی جائے تو اس اقرار و تصدیق کے مجموعے کا نام ایمان باﷲ ہے۔


اللہ تعالیٰ کی صفات کون سی ہیں؟
اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں۔ اس کی صفات اور کمالات نہ تو ہمارے شمار میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ صفات ہو سکتی ہیں جن کو ہم بیان کر سکیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے حد اور بے پایاں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے اجمالاً درج ذیل ہیں

1.
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا
طه، 20 : 110
’’وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘


2.
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ
الشوری، 42 : 11
’’اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتا دیکھتا ہے۔‘‘


3.
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
الانعام، 6 : 103
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔‘‘



اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء، وہی اول اور وہی آخر ہے، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے۔


اس کے سوا جو کچھ موجود ہے سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہی سب کو فنا کر کے پھر دوبارہ مردوں کو قیامت میں زندہ کرنے والا ہے۔


وہ کسی کا محتاج نہیں، ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔


وہ جسم اور صفات جسم یعنی کھانے، پینے اور سونے وغیرہ سے پاک ہے۔


ہر چیز پر اس کی قدرت ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔


وہی جلاتا ہے، وہی مارتا ہے، وہی بیمار کرتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے۔

10۔
وہی عزت و ذلت دیتا ہے، وہی نفع و نقصان پہنچاتا اور رزق دیتا ہے۔

11۔
اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

12۔
وہ سب کا مالک و نگہبان اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔

13۔
پرستش و عبادت کی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔

Followers