Tuesday 27 July 2010

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر اعتراضات

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔ اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی

احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر کئے گئے اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔
اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی اور اسی کتاب کے ص ۱۰۷۸ پر احمد ابن تیمیہ جنبلی کی ایک کتاب بنام ”الصراط المستقیم والرد علی اھل الجحیم ،، کا ذکر کیا ھے اور اسی میں ایسی باتیں لکھی ھیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نھیں ھے مثلا عبد الله ابن عباس کو کافر قرار دینا ۔حصینی نے اپنی کتاب میں اس کی رد لکھی ھے ۔ جامعہ ا زھر کے ایک عالم شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی نے اپنی کتاب ” تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ،،میںص۹ پر ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ھے کہ اس نے اپنی کتاب ”الواسطہ ،، وغیرہ کی تالیف کی تو ایسی باتیں گڑھیں جن سے مسلمانوں کے اجماع کو پارہ کر دیا ۔اس نے کتاب خدا ، صریح سنت اور سلف صالح کی مخالفت کی ھے۔
اپنی فاسد عقل کا مطیع ھوا ھے اور جان بوجہ کر گمراہ ھواھے ۔اس کا معبود اس کی ھوائے نفس ھے۔ اسے یہ گمان ھوا ھے کہ جو کچہ اس نے بیان کیا ھے حق ھے حالانکہ وہ حق نھیں ھے بلکہ یہ جھوٹ اور قول منکر ھے ،اور اسی کتاب کے ص۱۳پر ھے :یہ کتاب ابن تیمیہ کی بھت سی من گڑھت باتوں پر مشتمل ھے جوکتاب و سنّت اور جماعت مسلمین کے مخالف ھے ۔
اور صفحھ۱۰ /۱۱پر ھے:وہ برابر اکابر کے پیچھے پڑا رھا یھاں تک کہ اس کے زمانے والے اس کے خلاف مجتمع ھوئے اسے فاسق قرار دیا اور بدعتی ٹھھرایا بلکہ ان میں سے زیا دہ لوگوں نے اسے کافر قرار دیا ۔
اور صفحہ ۱۷پر ھے :اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کا وتیرہ ادب اورھر زمانے میں اس کے پیروٴوں کا یھی طریقہ رھا ھے کھ:
”یقولون آمنّا بالله و بالیوم الاخروما ھم بمومنین ،یخادعون اللهوالذین آمنوا وما یخدعون الاانفسھم وما یشعرون ،،یہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم الله اور روز قیامت پر ایمان لائے ھیں حالانکہ یہ مومن نھیں ھیں ۔یہ الله کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ھیں حالانکہ یہ خود اپنے کو دھوکہ دے رھے ھیں اور انھیں اس کا احساس نھیں ھے ۔،،
موٴلف کھتا ھے :یہ منافقیں کی صفت ھے جسے خدا وند عالم نے اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ھے ۔
اور یافعی نے ”مرآةالجنان ،،ج۴/ص۲۴۰طبع حیدرآباد دکن ۱۳۳۹ھئمطبع دائرةالمعارف النظامیہ میں ابن تیمیہ کے بعض مھمل اقوال کا ذکر کیا ھے مثلاًلکھا ھے:خدا حقیقتاًعرش پر بیٹھا ھے اور الفاظ وآواز سے گفتگو کرتا ھے پھرلکھا ھے کہ دمشق میںیہ اعلا ن کردیا گیا کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ پر ھوگا اس کی جان اور اس کا مال مباح ھے ۔
اور صفحھ۲۷۸پر۷۲۸ ئکے واقعات کے سلسلہ میں ھے :اس (ابن تیمیہ )کے عجیب وغریب مسائل ھیں جن کے بارے میں اس پر طعن وتشنیع کی گئی ھے اورجن کے سبب مذھب اھل سنّت ترک کرنے کی خاطر اسے قید کیا گیا ۔پھر اس کی بھت سی برائیوں کو شمار کراتے ھوئے لکھا ھے کھ:اس کی قبیح ترین برائی یہ تھی کہ اس نے پیغبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کر دیا تھا ۔آپ پر اور دوسرے اولیاء خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں پر طعن و تشنیع کی تھی اور اسی طرح مسٴلہ طلاق وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا مسلک اور جھت کے بارے میں اس کا عقیدہ اور اس بارے میں جوباطل اقوال اس سے نقل ھوئے ھیں یہ سب اور اس کے علاوہ اور بھی بھت سی باتیں اس کے قبائح میں سے ھیں ۔
شیخ ابن حجر ھیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ھے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ھونے کا دعویٰ ایساھے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ھے ۔سفینةالراغب ص۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ
شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواھدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷پر لکھا ھے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاھب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اھم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ھونا ،کے بارے میں اھل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ھے جنھوں نے اس پر طعن کیاھے لکھا ھے :
”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ھیںجو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ھوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رھنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ھے اور اسے برا کھا ھے ۔،،
انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ھیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ھے :
حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ھے چنانچہ کھا ھے :زیارت کا باعث تقرب خدا ھونا ضرویات دین میں سے ھے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ھے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ھے کیونکہ جس کے مستحب ھونے پر اجماع ھو اس کا حرام قراردینا کفر ھوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ھے۔
اور انھیں میں سے شباب الدین خفاجی حنفی ھیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ھے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ھیں جن کا ذکر کرنا مناسب نھیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ھو ھی نھیں سکتیںچہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ھو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ ”قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ھے ،،کذب محض،لغو ھے اوربکواس ھے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نھیں ھے ،،باطل ھے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی اللهعنھم کا مذھب یہ ھے کہ سلام ودعا میںقبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ھے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ھے۔
اور انھیں میں سے امام محمدزرقانی مالکی ھیں ۔(بنھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواھب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ھے جسے ھم یھاںپیش کررھے ھیں:
”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ھے اور وہ ھے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نھیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاھے؟ اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کمال الدین ز ملکانی شافعی متوفی۷۲۷ھئنے کشف الظنون میں ان کی ایک کتاب”الذرةالمضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ ،،کا ذکر کیا ھے انھوں نے ان مسائل میں اس سے مناظرہ کیا ھے جن میں وہ مذاھب اربعہ سے منحرف ھوگیا ھے اور ان میں قبیح ترین مسئلہ اس کا انبیاء وصالحین خصوصاًسیدالمرسلین کی قبروں کی زیارت اور آپ کے وسیلہ سے خدا سے مانگنے کو منع کرنا ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کبیرشھیر تقی الدین سبکی شافعی ھیں(ابن تیمیہ پر اعتراضات کو ان کی کتاب شفاء السقام فی زیارت خیر الانام علیہ السلا م سے نقل کیا ھے) اس کتاب میں انھوں نے اسے بدعتی کھا ھے ۔ اور انھیں میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ھیں(انھوں نے اپنی کتاب فتح الباری فی شرح البخاری میں اس پر رد کی ھے )اور انھیں میں سے امام عبد الروٴوف منادی شافعی ھیں انھوں نے شرح شمائل میں کھا ھے :اور ابن قیّم کا اپنے شیخ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ کھناکہ ”مصطفی صلّی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پرور دگارکو اپنے دونوں شانوں کے درمیان اپنے ھاتہ رکہ کر دکھائے تو خدااس جگہ کو بالوں کو نوازا ۔اس کی ردشارح یعنی ابن حجرمکّی نے اس طرح کی بات ان دو نوں (ابن تیمیہ وابن قیم)کی بد ترین گمراھی ھے اور یہ ان دونوں کے اس عقیدہ پر مبنی ھے کہ خدا جھت اور جسم رکھتا ھے۔خدا وند عالم ظالموں کے اس قول سے کھیں بزرگ وبرتر ھے اس کے بعد منادی نے لکھا ھے :اب میں کھتا ھوں ان دونوںکا بدعتیوں میں سے ھونا مسلّم ھے۔
اور انھیں میں سے ھمارے دوست عالم با عمل ،فاضل کامل ، شیخ مصطفی ابن احمد سطی جنبلی دمشقی حفظ الله وجزا ہ الله احسن الجزا ء ھیں ۔ مو صوف نے ایک مخصوص رسالہ تالیف کیا ھے جس کا نام ( النقول الشرعیہ فی الرد علی الو ھابیة ) ھے۔انھیں میں سے امام شھاب الدین احمد بن حجر ھیثمی مکی شافعی ھیں انھوں نے ابن تیمیہ پر بھت سخت ردو تنقید کی ھے ۔
اور نبھانی نے شواھدالحق کے ص ۱۹۱ پر پھلے تو ان لوگوں کے نام نقل کئے ھیں جنھوں نے ابن تیمہ کو طعن و تشنیع کی اور جن کا ذکر ابھی گزرا ھے ۔ اس کے بعد کھتے ھیں : لھذا ثابت ھوا اور آفتاب نصف النھار کی طرح روشن ھوا کہ علماء مذ ھب اربعہ نے ابن تیمیہ کی بد عتوں کے رد کرنے پر اتفاق کیا ھے اور کچہ علماء نے اس کی نقل کی صحت پر طعن کیا ھے تو بھلا جن مسائل میں دین سے انحراف کیا ھے اور اجماع مسلمین کی مخالفت کی ھے خاص کر ان مسائل میں جو سید المر سلین سے متعلق ھیں اس کی کھلی ھوئی غلطی پر سخت طعن وتشنیع کیوں نہ کرتے ۔
حنفیوں میں سے جنھوں نے اس کی نقل کے صحیح ھونے پر طعن کیا ھے شھاب الدین خفاجی شارح الشفا ء ھیں جن کا ذکر گزر چکا ھے ۔ اور مالکیوں میں سے امام زرقانی ھیں شرح مواھب میں ، یہ تذ کرہ بھی گزر چکا ھے ۔ اور شافیوں میں سے امام سبکی ھیں جیسا کہ ان کی کتاب شفاء السقام میں مذ کور ھے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ھے کہ نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ کی رائے غلط ھے بلکہ اس کے نقل کئے ھوئے وہ احکام شرعیہ بھی صحیح نھیں ھیں جس کے ذریعہ اس نے اپنی بدعت کی تقویت پر استدلال کیا ھے اور انھیں مذاھب اربعہ کی طرف منسوب کیا ھے حالانکہ ائمہ مذا ھب اربعہ نے وہ احکام نھیں بیان کئے ھیں ۔اسی طرح اس کے نقل کی عدم صحت کا ذکر امام ابن حجر ھیثمی نے بھی اس کے اوپر اپنے اعترا ضات میں کیا ھے اور یہ بات پو شیدہ نھیں ھے کہ یہ چیز ایک عالم کے اندر بھت بڑاعیب اور بھت بڑا اخلاقی جرم ھے جو اس پر اعتماد کو ضعیف کر دیتا ھے اور اس کے منقولات کے اعتبار کو ساقط کر دیتا ھے چاھے وہ احفظ حفاظ اورا علم علماء میں سے ھو اور ابن تیمیہ کے منقو لات کے معتبر نہ ھونے کی تقویت اس قول سے بھی ھوتی ھے جو اس کے بارے میں حافظ عراقی نے کھا ھے۔ کلام نھبانی تمام ھوا ۔شواھد الحق ص ۱۷۷تا ۱۹۱
ابن تیمیہ کا ذکر ڈاکٹر حامد حفنی داوؤد حنفی نے بھی اپنی کتاب ( نظرات فی الکتب الخالدة) ص ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۳۹۹ء دارالمعلم للطباعة میں کیا ھے اور اسے بدعتی قرار دیا ھے اور حاشیہ میں اس کلمہ پر نوٹ لگایا ھے کہ : اکثر علماء اھل سنّت نے اس کے بد عتی ھونے کا قول اختیار کیا ھے رہ گئے صوفیہ تو انھوں نے اس پر اجماع کیا ھے ، امام تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے درمیان فقہ وعقیدہ کے اکثر گوشوں کے بارے میں خط وکتابت ھوتی ھے ۔دیکھئے ھماری کتاب (التشریع الا سلامی فی مصر ) انتھی ۔
عبدالغنی حمادہ اپنی کتاب ( فضل الذاکرین والرد علی المنکر ین ) طبع سوریہ اَدْلَبْ ۹۱ ۱۳ء ص ۲۳ پر اس طرح وھابیت پر طعن کر تے ھیں :
شیخ وھابیت ابن تیمیہ کے بارے میں علامہ مصر علاء الدین بخاری نے لکھاھے کہ : ابن تیمیہ کافر ھے جیسا کہ اس کے زمانے کے بزر گ عالم زین الدین حنبلی نے کھا ھے کہ میرا اعتقاد یہ ھے کہ ابن تیمیہ کافر ھے اور کھتے تھے کہ امام سبکی رضی الله عنہ ابن تیمیہ کی تکفیر سے معذور ھیں کیونکہ اس نے امت اسلامیہ کو کافرقرار دیا ھے اور اسے قول خدا :”اتخذ وااحبار ھم ورھبانھم ار بابا من دون الله ،،کی تفسیر کر تے ھوئے یھودو نصاریٰ سے تشبیہ دی ھے۔ علماء مذاھب نے لکھا ھے کہ : ابن تیمیہ زندیق ھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی توھین کرتا تھا اور اس کی کتابیں خدا وند عالم کی تشبیہ اور اسے صاحب جسم قرار دینے سے بھری ھوئی ھیں ۔
اور اس کے زمانے کے علامہ ابن حجر رضی الله عنہ نے کھا ھے ۔ ابن تیمیہ ایک ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراھ، اندھا ، بھرا اور ذلیل کیا ھے ۔اس کے خلاف مذاھب اربعہ میں سے اس کے دور کے علماء اٹہ کھڑے ھوئے اور اکثر نے اس کو فاسق اور کافر قرار دیا ھے ۔علماء نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ نے صحابہ کرام رضی الله عنھم کو کافر قرار دینے میں خوارج کے مذ ھب کا اتباع کیا ھے ۔
اور ائمہ حفاظ نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ خوارج میں سے ھے ،جھوٹا ھے ، شریر ھے ، افترا پر داز ھے ۔”فضل الذا کرین ،،میں لفظ بہ لفظ مو جود ھے ۔
اور ابو حامد مرزوق شامی نے اپنی کتاب ۔” التوسل بالنّبی وبا لصالحین ،،مطبوعہ تر کیہ طبع آفسٹ ۸۴ ۱۹ ءء کے ص ۴ پر لکھا ھے:
” ایک بار ابن تیمیہ نے دمشق کے ممبر پر جانے کے بعد کھا : ” خدا وند عالم اسی طرح عرش سے اتر تا ھے جیسے میں ممبر سے اتر رھا ھوں اور ایک زینہ نیچے اتر کر دکھایا ھے ، ، اس کے بعد ابو حامد نے لکھا ھے کہ اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں فقیہ سیاح ابن بطوطہ مغری بھی ھیں اور ” التوسل بالنّبی وبالصالحین ،،کے ص ۶ پر ابن تیمیہ سے نقل کیا ھے کہ ابن تیمیہ نے لکھا ھے کھ” خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ،، اور اسی کتاب کے ص ۲۱۶ پر کتاب ” دفع شبہ من شبّہ وتمرّد ،،طبع مصر ۵۰ ۱۳ء ہ مطبع عیسیٰ حلبی ، تصنیف ابو بکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ ء سے نقل کر تے ھوئے لکھا ھے کہ مصنف مذکور نے ابن تیمیہ کے بارے میں کھا ھے :” میں نے اس خبیث (ابن تیمیہ ) کے کلام کو دیکھا جس کے دل میں انحراف کا مرض ھے جو فتنہ پیدا کر نے کے لئے متشابہ آیات و احادیث کا اتباع کر تا ھے اور عوام و غیر عوام میں سے ان لوگوں نے اس کی پیروی کی جس کے ھلاک کر نے کا خدا نے ارادہ کیا تھا ، میں نے اس میں ایسی باتیں پائیں جن کو ادا کر نے کی مجھ میں قدرت نھیں ھے اور نہ میری انگلیوں اورقلم میں انھیں تحریر کر نے کی جراٴت ھے کیو نکہ اس نے پر وردگار عالم کی اس بات پر تکذیب کی ھے کہ اس نے کتاب مبین میں اپنے کو منزہ قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے بر گزیدہ اور منتخب افراد خلفاء راشدین اور ان کے صالح پیروکاروں کی توھین اور عیب جوئی کی ھے لھذا میں نے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ جانا اور صرف ان باتوں کو ذکر کیا جنھیں ائمہ متقین نے ذکر کیا تھا اور جن پر ان کا اتفاق ھے وہ یہ کی ابن تیمیہ بد عتی اور دین سے خارج ھے ۔
حافظ ابن حجر نے ” الفتاوی الحدیثیہ ،، ص ۸۶ پر لکھا ھے کہ ” ابن تیمیہ ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ ، اندھا ، بھرہ ، اور ذلیل بنا دیا ھے اور اسی بات کی تصریح ان اماموں نے بھی کی ھے جنھوں نے اس کے فاسد ھونے اور اس کی باتوں کو جھوٹ ھونے کا بیان کیا ھے اور جو شخص اسے جاننا چاھتا ھو وہ امام مجتھد ابوالحسن سبکی جن کی ،امامت ، جلالت ، شان اور مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے پر اتفاق ھے ان کے اور ان کے فرزند تاج اور شیخ امام عزّ بن جماعہ اور شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، میں سے ان کے ھم عصر علماء کے کلام کو ملا حظہ کریں ، ابن تیمیہ نے صرف متاخرین صوفیہ کے اوپر اعتراض کرنے پر اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب رضی الله عنھما ،، جیسے حضرات پر بھی اعتراض کیا ھے۔
خلاصہ یہ کہ اس کے کلام کی کوئی قدرو قیمت نھیں ھے اور چاھئے کہ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بد عتی گمراہ ،گمراہ کن ، جاھل اور غلو کر نے والا ھے ، خدا اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ھمیں اس کے طریقہ ، عقیدہ ، اور عمل سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔
کلام ابن حجر تمام ھوا اسے ھم نے تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ص ۹ طبع مصر ۱۳۱۸ ء ہ تصنیف شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی سے نقل کیا ھے۔
اس کے بعد کھا کہ وہ خدا کے لئے سمت کا قائل ھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ وہ خدا کے لئے جسمیت ، محاذات ،اور استقرار کا قائل ھے ۔
کتاب ”التوسل با لنّبی وبا لصالحین ،، میں ابن تیمیہ پر اور بھی بھت سے طعن ھیں جن کو چند عناوین کے تحت ذکر کیا ھے ، جو حسب ذیل ھیں ۔
۰ علّامہ شھاب الدین احمد بن یحییٰ حلبی کی جھت کے بارے میں ابن تیمیہ پر رد۔
۰ ابن تیمیہ کے اس زعم کا ابطال کہ خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ۔
۰ عقیدہ ابن تیمیہ جس کے سبب اس نے جماعت مسلمین سے مخالفت کی ھے اور انھیں برا کھا ھے جسے قر آن میں طعن کر نے والے او باش ملحدین سے حاصل کیا ھے ۔
۰ ابن تیمیہ کی تمام علماء اسلام سے مخالفت ۔
ابن تیمیہ کے فتوٴوں کے نمو نے
عالم کبیر شیخ محمد بخیت حنفی عالم جامعہ ا زھرنے اپنی کتاب ”تطھر الفواد من دنس الا عتقاد ،،طبع مصر مطبو عہ ۱۳۱۸ئکے ص ۱۲ پر اس شخص کے کچہ فتوؤں کا ذکر کیا ھے جن میں سے بعض نمو نے ھم یھاں پر پیش کر رھے ھیں تا کہ ایک غیر جانبدارقاری کو اس کے انحراف ، فاسد عقیدے اور منحرف فتوؤں میں علماء اسلام سے اس کی مخالفت کا زیا دہ سے زیا دہ علم ھو سکے ۔
” اگر کو ئی شخص جان بو جہ کر نماز تر ک کر دے تو اس کی قضا وا جب نھیں ھے۔“
” حیض والی عورت کے لئے خانہ ء کعبہ کا طواف کرنا جائز ھے اور اس پر کوئی کفارہ نھیں ھے۔“
” تین طلاق ایک طلاق کی طرف پلٹایا جائے گا“ اور اس بات کا دعویٰ کر نے سے پھلے خود اسی نے نقل کیا ھے کہ اجماع مسلمین اس کے بر خلاف ھے ۔
” جس اونٹ کے پیر کی موٹی والی نسیں کاٹ دی گئی ھوں وہ کاٹنے والے کے لئے حلال ھے اور وہ جب تاجروں سے لے لیا جائے تو زکوٰة کے عوض کافی ھے اگر چہ زکوٰة کے نام سے نہ لیا گیا ھو ۔،،
بھنے والی چیزوں میں اگر جاندار مثلا چوھا مر جائے تو یہ چیزیں نجس نھیں ھو تیں“
جنب کو چاھئے کہ حالت جنا بت میں نافلہ شب پڑھے اور تا خیر نہ کرے کہ فجر سے پھلے غسل کر کے پڑھے گا اگر چہ اپنے ھی شھر میں ھو ۔“
” وقف کرنے والے کی شرط کا کوئی اعتبار نھیں ھے بلکہ اگر اس نے شا فعیہ پر وقف کیا ھے تو حنفیہ پر صرف کیا جائے گا اور بر عکس ،اور قاضیوں پر وقف کیا ھے تو صو فیہ پر صرف کیا جائے گا ۔،،
اسی طرح عقائد اور اصول دین کے مسائل میں بھی انحراف کا مر تکب ھوا ھے۔
ْ خدا وند عالم محل حوا دث ھے“تعالیٰ عن ذالک علوا کبیرا
خدا مرکب ھے اس کی ذات ویسے ھی محتاج ھے جیسے کل اپنے جزء کا محتاج ھوتا ھے ”تَعَا لیٰ عَنْ ذَالِکَ،،
خدا جسم رکھتا ھے،وہ خاص سمت میں ھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھوتا ھے ،وہ ٹھیک عرش کے برابر ھے نہ چھوٹا نہ بڑا“(خدا وندعالم اس قبح وبد ترین افترا ء اور صریحی کفر سے کھیں بالا تر ھے ۔خدا اس کے پیروٴوں کو رسوا کرے اور اس کے معتقدین کا شیرازہ منتشر کرے )
جھنم فنا ھوجائے گی ،انبیاء معصوم نھیں ھیں۔“
رسول الله صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی وقعت نھیں ھے ۔ان سے توسل نہ کیا جائے۔“
پیغمبر اسلام کی زیا رت کے لئے سفر کرنا معصیت ھے اس سفر میں نمازقصر نھیں ھوگی۔“
اقتباس از وھابیت :مسلمان علماء کی نظر میں آیت اللہ جعفر سبحانی

ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں کتا بیں

ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں کتا بیں موضوع
نئے مقالات
مذا ھب اربعہ کے علماء کی ایک جماعت نے ابن تیمیہ کی رد میں اس کے عقائد پر طعن کر تے ھوئے اور اس کے منحرف فتوؤں کو باطل کرنے کیغرض سے کتابیں لکھی ھیں جن میں سے کچہ حضرات کے نام یھاں درج کرتے ھیں ۔ علی بن محمد میلی جمالی تو نسی مغری مالکی ۔انھوں نے ”السّیوف المشر قیہ لقطع اعناق القائلین با لجھة والجسمیة“لکھی ” ھد یة العا ر فین“ ج ۱ ص ۷۷۴ اور ایضاح المکنون ج۲ ص ۳۷ میں اس کا تذ کرہ ملتا ھے ۔ شھا ب الدّین احمد بن یحییٰ جبرئیل شافعی ۔انھوں نے ” خبرالجھة،، لکھی ۔دیکھئے ”ھد یة العا رفین “ج ۱ ص ۱۰۸ اور ابو حا مد مرزوق کے بقول یہ بھترین رسالہ ھے ۔ ”التوسل بالنبی وبالصالحین“ تقی الدّین ابی بکر حصینی ۔انھوںنے ” دفع شبہ وتمرّد،، لکھی جو ۱۳۵۰ھء میں مصر میں طبع ھوئی اس میں ابن تیمیہ کے جھت اور تشبیہ کے قول کو باطل کیا گیا ھے۔ محمد حمید الدّ ین حنفی دمشقی فر غانی ۔ ان کی کتاب کا نام ”الردّ علیٰ ابن تیمیہ فی الا عتقادات،، ھے ۔معجم المئو لفین تا لیف عمر رضا کحالہ ج ۸ ص ۳۱۶ ۔ شیخ نجم الدین ابن ابی الد رالبغدا دی ۔انھوں نے ” رد علی الشیخ ابن تیمیھ،، لکھی۔ اس میں مو صوف نے ابن تیمیہ کے ایک رسالہ کاجواب دیا ھے ۔دیکھئے ” کشف الظنونج ۲ ص ۲۷ ۱۵ شیخ محمد ابن علی مازنی ۔انھوں نے ” رسالة فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئالة الطلاق،، اور رسالہ فی مسئلة الزیارت“ لکھی ۔معجم المئو لفین تالیف عمر رضا کحالہ ج ۱۱ ص ۳۱ ۔ ۰ عیسیٰ ابن مسعود منکالاتی مالکی ۔ انھوں نے ” الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلة الطلاق“ لکھی ھے ۔ اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین میں ج ۸ ص ۳۳ پر کیا ھے ۔ ۰ شیخ کما ل الدین محمد ابن علی بن شافعی ود مشقی معروف بہ ابن زملکانی ۔انھوں نے ” الدرة المضیة فی الرد علی ابن تیمیھ“ لکھی اس کا ذکر ” کشف الظنون“ ج ۱ ص ۷۴۴ اور ” ھدیة العارفین“ج ۲ ص ۱۴۶،اور” معجم المولفین“ ج ۱۱ ص ۲۵ پر ھے ۔ احمد ابن ابر ھیم سرو جی حنفی ۔ انھوں نے ” اعتراضات علیٰ ابن تیمیہ فی علم الکلام،، لکھی ۔دیکھئے معجم المئو لفین ج ۱ ص ۱۴۰ ۔ کمال الدین ابو القاسم احمد بن محمد شیرازی۔ انھوں نے ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی : ”رد علی ابن تیمیہ،،جس کا تذ کرہ معجم المئو لفین ج ۲ ص ۱۵۰ ، پرھے ۔ شیخ تقی الدین سبکی ، انھوں نے بھی ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی ھے ، جس کا تذ کرہ ” کشف الظنون،، ج ۱ ص ۸۳۷ اور ”ھدیةالعارفین، ، ج ۱ ص ۷۲۱ پر ھے اور شاید یھی ”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ ھو جس کے بارے میں شیخ محمد نجیت مطبعی حنفی نے اپنی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد،، ص ۱۳ پر اس طرح لکھا ھے کہ یہ کتاب غرض مقصود کو پورا کرتی ھے۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو کچہ بیان کیا ھے اس کی بنیاد کو ختم کر تی رھی ھے ، اس کے ار کان کو متز لزل اور اس کے آثار کو مٹاتی ھے ، اس کے جھوٹے وعدوں کو فنا کر نے والی ھے اس کے فساد کو ظاھر اور اس کے عناد کو واضح کر دیتی ھے“۔ شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی عالم جامعہ ا زھر۔انھوں نے ” تطھیر الفوادمن دنس الا عتقاد،، لکھی۔ اس میں مصنف مذ کور نے ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد کی ھے ۔یہ مصر میں ۱۳۱۸ ء میں طبع ھوئی ھے ۔اور چوتھی مر تبہ ۰۵ ۱۴ ء میں تر کیہ میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔ شیخ نعمان ابن محمود آلوسی بغدادی ۔ انھوں نے ” جلاء العینین فی محاکمة الا حمدین،، ”احمد ابن تیمیہ اور احمد بن حجر ھیثمی“ لکھی ۔ اس کا ذکر اسماعیل پاشا نے ایضاح المکنون ج ۱ ص ۳۶۳ پر اور عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین ج ۱۳ ص ۱۰۷ پر کیا ھے ۔ ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد میں ھمارے علماء اعلام کی طرف سے جتنا لکھا گیا ھے ان میں سے جتنے افراد سے میں آگاہ ھو سکا ان کا ذکر یھاں کر دیا۔

جو کتابیں وھابیت کی رد میں لکھی گئیں وہ کتابیں جنھیں علماء مذا ھب اربعہ نے محمد ابن عبدالوھاب کے ایجاد کردہ وھابی مذ ھب کی رد میں لکھا ھے وہ بھی بھت ھیں جن میں سے کچہ مصنفین اور ان کی کتابوں کے نام ھم یھاں پر درج کر رھے ھیں ۔ سب سے پھلے وھا بیت کی رد میں محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی سلیمان بن عبد الو ھاب نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”الصواعق الالھیة فی الرد علی الو ھا بیة“رکھا ۔ اس کے بعد تو حجاز ، مصر،ھند ،شام اور عراق کے علماء اھل سنت والجما عت بلکہ را فضیوں نے بھی پے در پے وھابیت کی رد میں کتابیں لکھیں ۔ شیخ سلیمان نے اس کتاب کے ذریعہ حسن بن عیدان کا جواب دیا ھے کیونکہ اس نے اس مذ ھب کے بطلان پر دلیلیں مانگیں تھیں ۔اس کتاب میں مو صوف نے وھابیوں کی جھالت ،گمراھی اور ان کے اندر استنباط کی صلا حیت نہ ھونا ثابت کیا ھے ۔اسی طرح نذر ، شفاعت ،دعا اور میت سے سوال وغیرہ جیسے مسائل میں اپنے فاسد عقائد کی مخالفت کر نے والوں کو کافر قرار دیتے ھیں جنھیں تمام مسلمان انجام دیتے ھیں ، اور اس میں شر عا کوئی قباحت نھیں جانتے خواہ اھل سنت ھوں یا غیر ۔ ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ھیں ، ھر ایک مسئلہ کو معتبر شرعی دلیلوں اور متواتر حدیثوں اور ائمہ اربعہ رضی الله عنھم سے حکایت شدہ اجماعات کے ذریعہ ثابت کرتے ھیں ، اس کتاب میں وھابیوں کی باطل آراء کو غلط ثابت کیا ھے ۔یہ کتاب تیسری مرتبہ استا نبول ، تر کیہ میں ۱۳۹۹ء میں طبع ھوئی ۔ شیخ سلیمان رحمتہ الله علیہ نے اس کتاب کے ص ا۴ پر وھابیوں کو مخاطب کرتے ھوئے لکھا ھے : رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اسی طرح اھل علم نے فرقہ نا جیہ کے اوصاف بیان کئے ھیں اور تم میں اس فرقہ کی ایک صفت بھی نھیں پائی جاتی ۔ مو صوف نے ان کے دعویٰ کی تردید کی ھے کہ قیامت کے دن وھابی نجات پائیں گے کیوں کہ ان کے اندر تھتر ھلاک ھونے والے اور دوزخی فرقوں میں سے ایک نجات پانے والے فر قہ کے او صاف نھیں پائے جاتے ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں سے ایک حمد الله واجوی ھیں انھوں نے ”البصائر المنکری التو سل با ھل المقابر“لکھی جو استانبول میں ۱۹۷۵ءء میں شائع ھوئی۔ ان ھی میں عامر قادری استاد دارالعلوم قادریہ کراچی پاکستان ھیں انھوں نے” المدارج السنیة فی رد الو ھابیة۔“ لکھی جو ۱۹۷۷ءء میں طبع ھوئی اور دوبارہ تر کیہ میں ۱۹۷۸ءء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی اسے حسین حلمی ابن سعید استانبولی نے شا ئع کیا۔ وھابیوں کی رد میں ابراھیم بن عثمان سمنودی مصری نے بھی ” سعادة الدارین فی الر د علی الفر قتین الو لھا بیة و مقلد ة الظاھر یة“ نام کی کتاب لکھی جو مصر میں ۱۳۲۰ء میں دو جلدوں میں شائع ھوئی ۔ اور شیخ احمد سعید سر ھند ی نقش بندی نے ”الحق المبین فی الرّ د علی الوھابین“لکھی اس کا ذکر بغدادی نے ” ھد یة العا رفین“ ج ۱ص ۱۹۰پر اور عمر رضا کحالہ نے ”معجم المو لفین“ ج ۱ ص ۲۳۲ پر کیا ھے اسی طرح ان کی رد میں لکھنے والوں میں ابو حامد بن مرذوق شامی ھیں جنھوں نے ” التوسل با لنبی و بالصالحین“ لکھی جو تر کیہ میں ۱۹۸۴ءء میں بذ ریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔ اوروھابیوںکی رد لکھنے والوں میں بغداد میں طریقئہ نقشبندیہ کے پیشوا مرحوم شیخ دا وؤد بین سلیمان بغدادی ھیں جو خالدیہ نقشبندیہ کے خلفاء میں سے ھیں انھوں نے ۔ ” المنحہ الو ھبیة فی ردالوھابیة“ لکھی جو تیسری مر تبہ استانبول تر کیہ میں ۱۹۷۸ء ء میں طبع ھو ئی۔ اس کتاب میں انھوں نے ثابت کیا ھے کہ وھابی جاھل ھیں اور احادیث صحیحہ ، ادلہ عقلیہ اور مذاھب اربعہ کے تمام علماء کی مخالفت کرتے ھیں۔ اس کتاب میں ان کے تمام فاسد عقائد اور لغو آراء کو عقلی ونقلی دلیلوں سے باطل کیا ھے ۔اور اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ انبیاء زندہ ھیں ، شفاعت کریں گے ، مردے زندوں کی گفتگو سنتے ھیں ، زیارت کر نے والے سے آگاہ ھوتے ھیں ، انھیں دیکھتے ھیں ، اور ان کے اقوال سے واقف ھوتے ھیں اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ مردوں سے توسل صحیح ھے اور وھابی ان سب باتوں کا انکار کر تے ھیں یھاں تک کی اس بات کو بھی نھیں مانتے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اپنے زیارت کر نے والوں کا علم رکھتے ھیں اور ان کے کلام کو سنتے ھیں ۔ اور وھابی جو اپنے عقائد کے مخالف مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ھیں ان کی رد میں ایک کتاب لکھی گئی ھے جس کا نام ”صلح الا خوان الرد علی من قال بالشرک والکفران،،ھے ۔ اس کا تذ کرہ بغدادی نے ۔ ”ھدیة العارفین،، ج ۱ ص ۳۶۳ پر کیا ھے۔ انھیں میں ابر ھیم ابن عبدالقادر ریا حی تو نسی مالکی بھی ھیں انھوں نے ” ردّ علی الوھابیة“کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے ”معجم المئو لفین،، ج ۱ ص ۴۹ پر کیا ھے ۔ طریقہ رفاعیہ کے رئیس مر حوم شیخ ابراھیم راوی نے بھی ان کی رد لکھی ھے۔ انھوں نے ” الا وراق البغد ادیہ فی الحوادث النجد یھ“لکھی اس میں مو صوف نے کتاب وسنت کی روشن دلیلوں سے وھابیوں کی رد کی ھے۔ یہ کتاب بغدادمیں ۱۳۴۵ءء مطبع النجاج میں اور تر کیہ میں ۱۹۷۶ءء میں طبع ھوئی۔رد لکھنے والوں میں خوجہ حافظ محمد حسن جان سر ھندی ھیں انھوں نے۔العقائد الصحیحہ فی تر دید الوھابیة النجد یة“ لکھی ۔اس کتاب میں مصنف نے وھابیوں کے تمام عقیدوں کو غلط ثابت کیا ھے اور ان کی تمام دلیلوں کو کتاب خدا سنت نبویھ، عقل اورعرف عام سے قطعی براھین کے ذریعہ باطل کیا ھے۔ یہ کتاب پھلے ۱۳۶۰ءء میں امرتسر ھندوستان میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۸ء میں استانبول ترکیہ میں آفسٹ کے ذریعہ طبع ھوئی ۔اسے برادر حسین حلمی استانبول نے شائع کیا۔ موصوف نے ایک اور کتاب بنام ” الا صول الا ربعہ فی تردید الوھابیھ“بھی لکھی جو تر کیہ میں ۱۴۰۶ء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں شیخ جمیل آفندی صدقی زھاوی ھیں۔ انھوں نے ” الفجر الصادق فی الرد علیٰ منکر التوسل والکرامات والخوارق“لکھی جو ۱۳۲۳ء میں ”مطبعة الواعظ“ مصر میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۶ء اور ۱۴۰۶ء میں استانبول ترکیہ میں طبع ھوئی جسے مکتبة الحقیقہ نے شائع کیا ۔ اس کے ناصر احمد علی ملیجی کتبی اس کی تعریف میں کھتے ھیں کہ : اس کتاب میں ایسی قوی دلیلیں اور ٹھوس برا ھین ھیں کہ سنت سے منحرف اور خیالی گمراھیوں سے تمسک کرنے والوں میں اس کا مقابلہ کرنے کہ قوت نھیں ھے ۔ موٴ لف:مذکورہ بالا کتاب کے اندر وھابیت کی تاریخ ، اس کے ظھور کا آغاز ، اس کی نشرو اشاعت ، اس کے قائد کے فاسد عقائد کا بیان ، رھبر وھابیت کے جرائم، زمین میں اس کا فساد پھیلا نا ،بے دینی ، مسلمانوں کی خونریزی ، اس کی زندگی میں وھابیوں نے جو کچہ کیا اور اس کے مرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو جرائم اور زیادتیاں کیں اور دین میں جو بدعتیں ایجاد کیں یہ ساری باتیں مذ کور ھیں لھٰذا یہ کتاب وھابیوں کی رد میں لکھی گئی کتابوں میں سب سے بھترین کتاب ھے کیونکہ اس کتاب نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ھے اور یہ واضح کر دیا ھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ھیں اور اپنے پست مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر صرف اسلام کے نام پر مظاھرہ کرتے ھیں ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ محمد کسم حنفی بھی ھیں جنھوں نے ” الا قوال المر ضیةفی الّرد علی الوھابیة“ جس کا ذکر عمر رضاکحالہ نے ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۳ پر کیا ھے ۔ محمد عطاء الله معروف بہ عطا نے ” الر سالة الردیة علی الطائفة الوھابیة“ لکھی اس کا ذکر بھی ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۴ پر ھے ۔ اور وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ عبدالمحسن اشیقری حنبلی بھی ھیں انھوں نے ”الر د علی الوھابیة“ لکھی ۔اس کا ذکر بھی ” معجم المئو لفین“ ج ۶ ص ۱۷۲ پر ھے اور وھابیوں کی ردظاھر شاہ ھندی نے بھی لکھی ھے انھوں نے۔” ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبورلکھی جو ۱۴۰۶ء میں ترکیہ میں ” الفجر الصادق“تصنیف شیخ زھاوی کے ساتھ شائع ھوئی ھے ۔ رد لکھنے والوں میں قاضی القضاة ابو الحسن علی السبکی بھی ھیں انھوں نے ۔”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ لکھی جو ۱۴۰۵ ء میں تر کیہ میں کتاب”تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد،، سے ملحق کر کے طبع ھوئی۔وھابیوں کی رد میں محمود بن مفتی عبدالغیور نے بھی کتاب بنام ” ردو ھابی“ لکھی جو ۱۴۰۱ئہ میں استانبول میں طبع ھوئی ۔ شیخ حسن خزبک نے بھی رد لکھی ھے ۔انھوں نے ” المقالات الوفیہ فی الرد علیٰ الوھابیة،، لکھی جو طبع بھی ھوئی اس کا ذکر ” التوسل بالنبی و با لصالحین“ص ۲۵۳ پرھے ۔ ان کی رد لکھنے والوں میں مفتی محمد عبد القیوم قادری ھزاروی ھیں انھوں نے ” التوسل“لکھی اور ۱۹۸۴ءء میں تر کیہ میں کتاب ” التوسل بالنبی وبالصالحین“ سے ملحق کر کے طبع ھوئی ۔اس کتاب میں وھابیوں کے اس نظریہ کو رد کیا ھے کہ نبی سے توسل کرنا جائز نھیں ھے اور سنت اجماع اور بزرگوں کے اقوال سے ثابت کیا ھے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد بھی آپ سے توسل کرنا جائز ھے ۔ وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں مالک ابن شیخ محمود داوٴد مدیر مدرسةالعرفان شھر کوتیالی جمھوریہ مالی،افریقہ ھیں ،انھوں نے ”الحقائق السلامیہ فی الردّعلی المزاحم الوھابیةبادلّة الکتاب والسنةالنبویة،،لکھی جو ۱۴۰۳ھئمیں طبع ھوئی اور پھر دوبارہ ۱۴۰۵ھء میں ترکیہ میںبذریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔ ان ھی میںابوالفداء اسماعیل تمیمی تو نسی ھیں،انھوںنے ”المنح الالٰھیہ فی طمس الضلالة الوھابیة،،لکھی ۔اس کا ذکر احمد ابن ضیاف نے ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان،، میں کیا ھے جو کتاب ”الحقائق السلامیة،،سے ملحق کرکے طبع ھوئی اور ایک دوسری کتاب ”عقدنفیس“بھی لکھی جس میں وھابیوں کے شبھات کو رد ّکیا ھے ۔اس کا ذکر ”معجم الموٴلفین،، ج۲ ص۲۶۳میںھے ۔ وھابیوں کی ردّلکھنے والوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی شافعیہ ھیں جنھوں نے ”الدّررالسنیةفی ردّعلیٰ وھابیة،،لکھی جو استانبول ترکیہ میں ۱۹۷۶ئئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ذکر بغدا دی نے ”ھدیةالعا رفین“ج۱ ص۱۹۱پر کیا ھے اور مصنّف مذکور اپنی کتاب ”الفتوحات الاسلامة،،میںوھابیوں پر ردّ کی ھے جو”فتنة الوھابیھ،،کے نام سے ۱۹۷۵ئئمیںترکیہ میں شائع ھوئی اور ”الدّررالسنیة،،کی جانب شیخ یوسف نبھانی نے ” شواھد الحق فی الاستغاثة بسیدالخلق“میں اشارہ کیا ھے اور کھا کہ سید احمد دحلان مفتی شافعیہ نے وھابیت کی ردّمیں ایک مستقل کتاب لکھی ھے ۔ اور خیر الدین زرکلی نے ”الاعلام،،ج۱/ص۱۳۵پرلکھا ھے :ان (زینی دحلان)کا ایک رسالہ وھابیوں کی ردّ میںھے ۔ اور نبھانی نے ”شواھدالحقّ،،کے تیسرے باب میںایسی باتیں نقل کی ھیں جواثبات حق اور باطل کو فنا کرنے کے لئے کافی ھیںاس طرح اس میں وھابیوں کے شبھات کو واضح بیان اور قوی ترین دلیل و برھان سے رد کیا ھے اور ان کا کلام۲۶صفحوں پر پھیلاھوا ھے۔ ملاحظہ کیجئے اس کتاب کے ص۱۵۱تا ص۷۷۱یہ تمام صفحات وھابیوں کی رد اور طعن پر مشتمل ھیں۔ ان ھی کی ردّلکھنے والوں میں مصطفی ابن احمد شطی حنبلی ھیں جنھوںنے ایک رسالہ بنام ”النقول الشرعیة فی الرد ّعلی الوھابیة،،لکھا جو۱۴۰۶ھئمیںترکیہ میں ”الفجر الصادق“تصنیف علامہ زھاوی سے ملحق کرکے شائع ھوئی۔ اس کا ذکر شیخ نبھانی نے شواھد الحق میں کیا ھے۔ ان کے علاوہ وھابیوں کی رد میں اور بھی کتابیںلکھی گئیں جن میں ایک”التوسل بالنّبی وجھلةالوھابین“ ھے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول ترکیہ میںطبع ھوئی ۔ اورانھیںمیں سے ”ضلالات الوھابین،،ھے جو ۱۹۷۶ئئمیں استانبول میں طبع ھوئی اور ”المسائل المنتخبة،،تصنیف قاضی حبیب الحق ابن قاضی عبد الحق جو ۱۹۰۶ئئمیںکتاب الانصاف سے ملحق کرکے استانبول میںطبع ھوئی” التوسل با لموتیٰ،،جو ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول طبع ھوئی ۔”علماء المسلمین والوھابیون“اسے حسین حلمی الیشیق نے جمع کیا ھے یہ کتاب ۱۹۷۳ئئمیںاستانبول ترکیہ میں طبع ھوئی اور پانچ رسالوں کا مجموعہ ھے۔ پھلا رسالہ ”میزان الکبریٰ،،شیخ عبدالوھاب شعرانی مصری کی تالیف ھے ۔دوسرا رسالہ ”شواھدالحق“سے ھے جوشیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی سابق رئیس محکمہ حقوق بیروت کی تصنیف ھے ۔تیسرا رسالھ”العقائد النسفی“تصنیف شیخ عمر ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندکی ھے ۔چوتھا رسالہ ”من معربات الکتوبات“تصنیف شیخ احمد ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندی ھے اور پانچواںرسالہ ”رسالةفی تحقیق الرابطھ،،شیخ خالد بغدادی کی تصنیف ھے یہ کتاب مکتبھٴ الیشیق کتاب اوی استانبول ترکیہ نے طبع کی ھے ۔ اور جس کتاب کی جانب ھر امین لکھنے والے اور کھلی تحقیق کر نے والے کی توجہ مبذول کرانا مناسب ھے وہ ”تاریخ آل سعود ھے“ ایک ضخیم اور ٹھوس کتاب جسے استا د مجاھد شھید ناصر السعید نے تالیف کیا ھے اس میں وھابیوں کے سیاہ ماضی اور مکروہ حال کی تاریخ موجود ھے جس میں سعودی مزدور مجرم حکام ،گمراہ و گمراہ کن وھابیوں کے دین کی بنیاد مضبوط کرنے والے ، ذلیل ورسوا ھوئے ھیں ۔ یہ کتاب ایک ھزار سے زائد صفحات پر مشتمل ھے اور اس میں ایسے ٹھوس حقائق ھیں جنھیں مضبوط مصادر سے مستحکم کیا گیا ھے اور جو اس سے پھلے کسی اور کتاب میں نھیں تھے ۔ اس کے صفحات پر بعض ان وھابی قائدین کی ناگوار تصویر یں بھی ھیںجو مقدس سر زمین حجاز پر آج ظلم وجور کے ذریعہ حاکم ھیں لیکن درحقیقت اپنے آقاوٴں ،یھودیوں اور امریکیوںکے نوکر ھیں ۔ یہ تصویر یں انھیں شراب پیتے ھوئے،سینوں پر صلیب لٹکائے ھوئے اور طوائفوں اور بد کار عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول دکھایا گیا ھے۔ لھذا یہ ایک ایسی وسیع کتاب ھے جسے پڑہ کر انسان اس من گڑھت دین کے حکّام کے جرائم اور ان کی بد کاریوں اور بد اعمالیوں سے زیا دہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرسکتا ھے۔ دینی بھائیوں کو ایک نصیحت برادران اسلا می اس کتاب کو پڑہ کر جب آپ وھابی مذ ھب اور اس کی حقیقت سے آگاہ ھو چکے اور یہ جان چکے کہ وہ ایک من گڑ ھت مذ ھب ھے جسے محمد ابن عبدالوھاب نجدی نے احمد ابن تیمیہ کے با طل آراء و عقائد کی پیروی میں ایجاد کر کے مذاھب اربعہ کی مخالفت کی ھے ۔ اور ان کتابوں سے بھی آگاہ ھو چکے جو ھمارے علماء رحمتہ الله علیھم نے اس کی رد اور اس کے جواب میں لکھی ھیں ۔ تو اس کے پیروؤں اور دوستوں کی محبت ،ھمنشینی ، ان کے باطل افکار و فاسد عقائد کی پیروی اور ان کی گمراہ کن کتابوں کے مطالعہ سے پر ھیز کریں ۔ اور ان لو گوں میں سے نہ ھوں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فر مایا ” واذا قیل لھم اتبعو اما انزل الله قالو ابل نتبع ما وجد نا علیہ آ با ئنا“اور جب ان سے کھا گیا کہ خدا نے جو دین نازل کیا ھے اس کی پیروی کرو تو انھو ں نے کھا کہ ھم اس دین کی پیروی کر تے ھیں ، جسپر اپنے باپ دادا کو پایا ھے ۔تو خدا نے اس کی رد کی اور اس جواب پر ان کی اس طرح مذ مت کی :”او لو کان الشیطان ید عو ھم الیٰ عذاب السعیر“شیطان انھیں جھنم کے عذاب کی طرف بلا رھا ھے ۔یا ان لوگوں میں سے نہ ھو جنھوں نے کھا : ”اجئتنا لتلفتنا عما وجد نا علیہ آبا ئنا“تم اس لئے آئے ھو کہ ھمیں ھمارے باپ دادا کے دین سے پھیر دو ۔ تو خدا نے ان کا اس طرح سے جواب دیا ”
لقد کنتم انتم وآبا ٴو کم فی ضلال مبین“یقیناتم اور تمھارے باپ دادا کھلی ھوئی گمراھی میں ھیں ۔ آخر میں آپ کے لئے تو فیق کی آرزو کرتا ھوں اور خدا سے دعا کرتا ھوں کہ آپ کو ھر بد عت اور گمراھی سے جو جھنم تک لے جانے والی ھے محفوظ رکھے ۔ اور خوا ھشمند ھوں کہ مطالعات و تحقیقات میں تعصب سے بلند ھوں عقیدہ اور ایمان میں آزاد ھوں اور خدا بھی یھی چاھتا ھے کہ آزاد ھوں اور غیر کے بندے نہ ھوں کیوں کہ آزاد پیدا ھو ئے ھیں ۔ سلام ھو آپ پر اور ان پر جو راہ ھدایت کی پیروی کریں اور گمراھی ، ضلالت اور ھلا کت کے راستے سے دور رھیں ۔ و السلام علیکم ورحمة الله وبر کاة


محمد ابن عبدالوھاب اور وھابیت کی رد میں لکھی گئی کتا بوں کی فھرست

v ۰ اتحاف اھل الزمان محمد ابن ابی ضیاف v ۰ الا صول الا ربعہ خواجہ سر ھندی v ۰ اظھار العقوق مشرقی مالکی جزائری v ۰ الا قوال الر ضیة فقیہ محمد الکسم v ۰ الا نتصا رللا ولیاء الا برار طاھر سنبل حنفی v ۰ الا وراق البغداد یة ابراھیم راوی v ۰ البراھین الساطعہ سلامة الغرامی v ۰ البصا ئر لمنکری التوسل حمد الله جوادی v ۰ تاریخ آل سعود ناصر سعید v ۰ تجرید سیف الجھاد عبد الله ابن عبد الطیف v ۰ تحر یض الا غبیاء عبد الله بن ابر ا ھیم v ۰ تھکم المقلّدین محمد ابن عبد الرّ حمٰن v ۰ التو سل محمد عبدالقیوم v ۰ التوسل با لنّبی وبا لصالحین ابو حامد ابن مرزوق v ۰ جلا ل الحق ابر اھیم جلمی v ۰ الحق المبین احمد سعید v ۰ الحقائق الا سلا میة مالک داوؤد v ۰ خلا صة الکلام احمد زینی دھلان v ۰ الدرر السنیة احمد بن زینی v ۰ ردّ علیٰ محمد بن عبد الوھاب اسماعیل تمیمی v ۰ الر د علیٰ الوھابیة عبدالمحسن اشیقری v رد علی الو ھابیة ابراھیم بن عبدالقادر v رد المختار علی الدرالمختار سید محمد امین v ۰ ردّ وھابی محمود بن عبد الغیور v ۰ الر سالة الردیة محمد عطاء الله v ۰ رسالة قاسم محجوب v رسالة محمد بن سلیمان v ۰ رسالة فی تحقیق الرا بطة خالد بغدادی v رسالة فی جواز التوسل مھدی ورّانی v رسالة مسجعة محکمہ کواشی تونسی v ۰ سعاد ة الدارین ابرا ھیم بن عثمان v ۰ السیف الباتر ابو حامد بن مرزوق v ۰ سیف الجبار شاہ فضل رسول v ۰ السیف الھندی عبدالله بن عیسیٰ v ۰ السیوف الصقال عالم من بیت المقدس v ۰ شفاء السقام علی سبکی v ۰ شواھد الحق شیخ یوسف نبھانی v ۰ الصارم الھندی شیخ عطاء مکی v ۰ صلح الا خوان داوؤد بن سلیمان v ۰ الصواعق الا لھیة سلیمان بن عبدالوھاب v ۰ الصواعق والر عود عبدالله بن داؤد v ۰ ضلا لات الو ھا بیین v ۰ ضیاء الصدور ظاھر شاہ میاں ھندی v ۰ العقائد الصحیحیة خواجہ سر ھندی v العقائد النسفی عمر بن محمد v ۰ عقد نفیس اسماعیل تمیمی v ۰ علماء مسلمین والو ھا بیون حسین حلمی ا یشیق v ۰غوث العباد ببیان الر شاد مصطفیٰ حمامی مصری v ۰ فتنة الو ھابیة احمد زینی دحلان v ۰ الفتو حات الا سلا میة احمد بن زینی v ۰ الفجر الصادق جمیل صدقی الزھاوی v ۰ فصل الخطاب سلیمان بن عبدالوھاب v ۰ فصل الخطاب احمد ابن علی بصری v ۰ المدارج ا لسنیة عامر قادری v ۰ المسائل المنتخبة حبیب الحق v ۰ مصباح الا نام و جلا ء الظلام علوی ابن احمد حداد v ۰ المقالات الو فیة شیخ حسن خزبک v ۰ المنح الا لھیة اسماعیل تمیمی v ۰ المنحة الو ھبیة داؤد بن سلیمان v ۰ من معر بات المکتوبات ا حمد ابن اعبد الا حد v ۰ میزان الکبریٰ عبدالوھاب شعرانی v ۰ النقول الشر عیة مصطفیٰ بن احمد شطی
__________________

Monday 26 July 2010

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

فقہ سے متعلق چند بنیادی مباحث

اسلامی فقہ سے متعلق کوئی بات کرنے سے پہلے چند حقائق ذہن نشین کر لینا ضروری ہیں۔ ان حقائق کا تعلق اسلامی فقہ کی نوعیت کے بارے میں ہے۔ ان حقائق کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق رائے ہے اور ان سے کسی بھی صاحب علم کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔
شریعت اور فقہ میں فرقشریعت اللہ تعالی کے نازل کردہ قوانین اور احکام کا مجموعہ ہے جس کی تفصیلات قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں ملتی ہیں۔ اس کے برعکس فقہ ایک انسانی کام ہے جس میں قوانین کو اگرچہ خدائی شریعت کی بنیاد پر اخذ کیا جاتا ہے مگر بہرحال یہ خدائی نہیں بلکہ انسانی کام ہے اور اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
فقہ کے مآخذاسلامی فقہ میں احکام اور قوانین کو ان مآخذ سے اخذ کیا جاتا ہے*قرآن مجید : قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا موضوع ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کے سامنے جواب دہ ہونے کے لئے انسانوں کے ذہن کو تیار کرنا ہے۔ احکام اور قوانین سے متعلق آیات قرآن مجید کے صرف دس فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں تاریخی طور پر یہ تو متعین ہے کہ یہ صد فیصد وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے کلام الہی کی حیثیت سے پیش کی تھی۔ اس کتاب کے متن میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ اس کی متعدد تشریحات
(Interpretations)
کی گئی ہیں جن میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں درست تشریح کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
*
سنت متواترہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قرآن مجید کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی اور اللہ تعالی کے بعض احکامات جو قرآن میں بیان نہیں ہوئے، انہیں اپنے مخاطبین کے سامنے پیش فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ سنت امت تک صحابہ کرام کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔
*
احادیث و آثار : یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ بھی کی گئی ہے۔ محدثین کی عظیم کاوشوں کے نتیجے میں ایسے طریق کار وجود میں آ گئے ہیں جن کی بدولت اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف صحیح حدیث کی بنیاد پر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ احادیث کے بارے میں بھی محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث کے مخالف مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔
(دیکھیے خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایۃ اور جلال الدین سیوطی کی تدریب الراوی)
*
اجماع امت : اگر کسی قانون کے بارے میں مسلمانوں کے ماہرین قانون کے ہاں اتفاق رائے ہو گیا ہو تو اسے اجماع کہا جاتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن و سنت کے کسی حکم کے بارے میں اتفاق ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کا حکم ہے اور اس کی تعمیل اس طریقے سے کی جائے گی۔ مثال کے طور پر نماز، زکوۃ، حج اور روزے کی شرعی حکم ہونے اور ان کے طریق کار کے بارے میں اجماع۔ ایسے اجماع کے بارے میں یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس سے اختلاف رائے نہیں کیا جا سکتا۔ اجماع کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسے قانون کے بارے میں ایک زمانے کے مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے جو قرآن و سنت میں بیان نہیں کیا گیا۔ مسلم علماء کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اس قسم کے اجماع سے بعد کے ادوار میں اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*قیاس : قرآن و سنت کے کسی حکم کی بنیاد پر اس سے ملتی جلتی صورتحال کے بارے میں حکم اخذ کرنے کو قیاس کہا جاتا ہے۔ قیاس ایک خالصتاً انسانی عمل ہے جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس وجہ سے دلائل کی بنیاد پر قیاس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔*استحسان : بعض اوقات فقہاء دو فقہی آراء میں سے کسی ایک کو مصلحت کی بنیاد پر اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض فقہاء استحسان کو جائز سمجھتے ہیں اور بعض اسے درست قرار نہیں دیتے۔*عرف و عادت : بعض قوانین کسی معاشرے کے عام رسم و رواج کی بنیاد پر اختیار کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان قوانین کی بنیاد قرآن و سنت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے یہ قوانین زمانے اور علاقے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔اگر فقہ کے مآخذوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے صرف پہلے دو مآخذ مقدس حیثیت رکھتے ہیں جبکہ باقی تمام مآخذ انسانی نوعیت کے ہیں۔ جس طرح فقہ کا ایک ماہر دلائل کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر قائم کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح فقہ کا دوسرا ماہر دلائل ہی کی بنیاد پر اس نقطہ نظر کو مسترد کر سکتا ہے۔
اہم فقہی مکاتب فکرجس طرح دنیا کے دیگر علوم میں فکر کے اختلاف اور اتفاق کے باعث متعدد مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح علم فقہ میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے علم فقہ میں درج ذیل مکاتب فکر مشہور ہوئے
*
فقہ حنفی : یہ مکتب فکر امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ ( 150ھجری / 767عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہ مکتب فکر عالم اسلام میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بنو عباس نے فقہ حنفی کو سرکاری سطح پر نافذ کیا تھا۔
*
فقہ مالکی : یہ مکتب فکر امام مالک بن انس علیہ الرحمۃ (179ھجری / 795عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اسپین کی مسلم سلطنت نے اس فقہ کو سرکاری قانون کی حیثیت دی جس کی وجہ سے اس کا فروغ زیادہ تر شمالی اور مغربی افریقہ کے ممالک میں ہوا۔
*
فقہ شافعی : یہ مکتب فکر امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمۃ ( 204ھجری / 819عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔
*
فقہ حنبلی : یہ مکتب فکر امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ ( 241ھجری / 855عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر قائم ہوا۔*فقہ جعفری : یہ مکتب فکر امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ ( 148ھجری / 765عیسوی) اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی بنیاد پر وجود پذیر ہوا۔ چونکہ امام صاحب سے استفادہ زیادہ تر اہل تشیع نے کیا ہے، اس وجہ سے اس مکتب فکر کو بالخصوص اہل تشیع ہی میں اختیار کیا گیا۔
*
فقہ ظاہری : یہ مکتب فکر امام داؤد ظاہری علیہ الرحمۃ (270ھجری / 883عیسوی ) کی کاوشوں کے
نتیجے میں وجود پذیر ہوا۔اس مکتب فکر کے دیگر اہل علم میں امام ابن حزم علیہ الرحمۃ ( 456ھجری / 1064عیسوی) بھی شامل ہیں۔
*
فقہ اہل الحدیث : اہل حدیث فقہاء کا وہ طبقہ تھا جو مختلف ائمہ کی آراء کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ ترجیح دیا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کسی ایک امام کے مقلد نہیں ہوتے تھے اور بعض شافعی، حنبلی یا ظاہری مکتب فکر سے تعلق رکھا کرتے تھے۔
*
دیگر مکاتب فکر : ان مشہور فقہی مکاتب فکر کے علاوہ بعض دیگر جلیل القدر فقہاء جیسے سفیان ثوری، لیث بن سعد اور بعض دیگر اہل علم شامل تھے۔ایسا نہیں ہے کہ ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے تمام فقہاء ہر معاملے میں ایک ہی نقطہ نظر پر متفق ہیں۔ ایک مکتب فکر کے فقہاء کے درمیان اتفاق رائے صرف چند بنیادی اصولوں پر ہوا کرتا ہے۔ ان اصولوں کی بنیاد پر مسائل استنباط و استخراج کرتے ہوئے ان کے مابین بھی بہت سے مسائل میں اختلاف رائے واقع ہو جایا کرتا ہے۔
فقہاء کے اختلافات کی بنیادی وجہشریعت کے چند بنیادی احکام کو چھوڑ کر، فقہاء کے ہاں بالعموم بہت سے معاملات میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف رائے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے بعض اہم یہ ہیں
*
فقہاء کے مابین قرآن مجید کی کسی آیت کی تشریح میں فرق واقع ہو سکتا ہے۔ ایک فقیہ، ایک آیت سے ایک نقطہ نظر اخذ کر سکتا ہے جبکہ دوسرا فقیہ اسی آیت سے دوسرا نقطہ نظر۔
*
فقہاء کے مابین کسی حدیث کی تشریح میں بھی فرق واقع ہو سکتا ہے۔
*
فقہاء کے مابین بسا اوقات آیات اور احادیث کو ملا کر ان سے نتائج اخذ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک فقیہ کسی ایک آیت یا حدیث کی بنیاد پر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو جبکہ دوسرا اس آیت یا حدیث کو کسی اور آیت اور حدیث کے ساتھ ملا کر نقطہ نظر قائم کر رہا ہو۔ ایک فقیہ ایک آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر دوسری آیت یا حدیث کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو اور دوسرا فقیہ اس کے برعکس دوسری آیت یا حدیث کو بنیاد مان کر پہلی کو اس کی تشریح قرار دے رہا ہو۔
*
ایک فقیہ کسی صورتحال کو قرآن و سنت کے ایک حکم پر قیاس کر سکتا ہے جبکہ دوسرا دوسرے حکم پر۔
*
ایک فقیہ استحسان کی بنیاد پر ایک حکم کو ترجیح دے سکتا ہے اور دوسرا دوسرے کو۔
*
ایک فقیہ ایک شہر کے رسم رواج (معروف) کی بنیاد پر قانون سازی کر سکتا ہے اور دوسرا دوسرے شہر کے قانون کی بنیاد پر۔
فقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں ترجیح کے اصولفقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف رائے کی اس صورتحال میں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان کے مابین بالکل ہی متضاد نقطہ ہائے نظر قائم ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے صرف ایک رائے ہی درست ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے ضروری ہے کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے کسی ایک رائے کو ترجیح دی جائے۔ ہمارے ہاں یہ غلط طور پر یہ بات رواج پذیر ہو چکی ہے کہ ایک شخص کو ایک ہی مکتب فکر تک محدود رہنا چاہیے۔ صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ فقہ کا یہ پورا ذخیرہ ہمارے ہی بزرگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں کسی مسلکی یا فقہی تعصب کے بغیر اس پورے ذخیرے کا جائزہ لیتے ہوئے جس معاملے میں جو نقطہ نظر صحیح ہو، اختیار کر لینا چاہیے۔ ترجیح دینے کے لئے جن اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہیں *اگر فقہاء کے مابین قرآن کی کسی آیت یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کسی حدیث کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو اس عالم کی رائے کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات، آیت یا حدیث کے سیاق و سباق اور موقع محل، عربی زبان کے اصولوں اور عقل عام (Common Sense)
سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو۔
*
اگر فقہاء کے ہاں استدلال کی بنیاد پر اختلاف رائے پایا جاتا ہو، تو ترجیح اس نقطہ نظر کو دی جائے گی جس کا استدلال قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات اور عقل عام کے زیادہ قریب ہے۔*اگر اختلاف قیاس کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر اس نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جس کا قیاس قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات کے زیادہ قریب ہے اور دوسرے کی نسبت بہتر اور معقول بنیادوں پر قائم ہے۔
*
اگر اختلاف مختلف علاقوں میں رسم و رواج کے فرق کی بنیاد پر پیدا ہوا ہو تو پھر ظاہر ہے اسی نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے گی جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور عقل عام سے مطابقت رکھتا ہو گا۔اب ہم غلامی سے متعلق ایک ایک فقہی مسئلے کو لے کر اس سے متعلق فقہاء کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم صرف انہی مسائل کا جائزہ لیں گے جن میں غلاموں کے حقوق سے متعلق اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہو رہا ہو۔اس ضمن میں ہم جان بوجھ کر کسی فقیہ کا نام پیش نہیں کر رہے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے ہاں مسلکی تعصب اس شدت میں موجود ہے کہ اپنے مسلک کے کسی عالم کا نام آتے ہی لوگ تمام دلائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی کی بات کو قبول کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے مسلک کے کسی عالم کا نام سنتے ہی اس کی صحیح بات کو بھی دلیل سنے بغیر غلط قرار دے دیا کرتے ہیں۔ نام بیان کئے بغیر ہم صرف مختلف اہل علم کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا جائزہ پیش کریں گے۔
(مبشر نذیر)

Sunday 25 July 2010

اسلام نے غلامی کو ایک دم ختم کیوں نہیں کیا؟


یہ ایک اہم سوال ہے۔ ہم نے یہ بحث تفصیل سے باب 8 میں کی ہے۔ یہاں ہم اسے دوبارہ نقل کر رہے ہیں۔
دین اسلام نے غلاموں کو آزادی عطا کرنے کے لئے جو اقدامات کئے، ان کے نتائج فوری طور پر برآمد ہونا ممکن نہ تھا۔ غلامی کی جڑیں پوری دنیا کے معاشروں میں اتنی گہری تھیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں دین اسلام نے تدریجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیا۔
انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دسیوں نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم "انقلاب
(Revolution)
" کی بجائے "تدریجی اصلاح
(Evolution)
" کا طریقہ اختیار کیا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہوگا۔

موجودہ دور میں بہت سے مالکان
(Employers)
اپنے ملازمین
(Employees)
کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل
(Self Employed)
ہوجائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لئے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے؟

اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے ۔ یہ بے روزگار یقینا روٹی ، کپڑے اور مکان کے حصول کے لئے چوری ، ڈاکہ زنی ، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے۔ جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تلپٹ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔ انہیں کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ جو لوگ اس میں آگے بڑھیں، انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں گے اور تدریجاً تمام لوگوں کو 8 گھنٹے کی غلامی سے نجات دلا کر مکمل آزاد کیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ کارل مارکس اس مسئلے کا ایک حل ’’کمیونزم ‘‘ پیش کرچکے ہیں اور دنیا کے ایک بڑے حصے نے اس کا تجربہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے جو ناکام رہا۔)
عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو
حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لئے ابتدائی اقدامات ضرور کئے تھے۔

اب اسی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور پر غور کیجیے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا۔ غلامی اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں غلام موجود تھے۔ جب فتوحات کے نتیجے میں ایران ، شام اورمصر کی مملکتیں مسلمانوں کے پاس آئیں تو ان غلاموں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ کروڑوں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور اور بھکاری وجود میں آ جاتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔

اس صورتحال میں اس کے سوا اور کوئی حل نہ تھا کہ غلامی کو کچھ عرصے کے لئے برداشت کر لیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ اس عرصے کے دوران جو لوگ غلامی کی حالت میں موجود ہیں، ان کے لئے قانونی اور سماجی نوعیت کی ایسی اصلاحات
(Reforms)
کر دی جائیں جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے اور انہیں معاشرے میں پہلے کی نسبت بہتر مقام مل سکے۔ اسلام نے یہ کام بخوبی کر دکھایا۔

وھابیوں کے عقائد

وھابیوں کے عقائد


یھاں پر ھمارا مقصد وھابیوں کے تمام عقائد کو بیان کرنا نھیں ھے بلکہ ھم صرف ان عقائدوں کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے یہ لوگ مشهور هوئے اور جن کی بناپر دوسروں سے جدا هوئے ھیں اور جن کی وجہ سے دوسرے فرقوں کے علماء نے ان کے جوابات لکھنے شروع کئے ھیں۔

۱۔ توحید کے معنی اور کلمہٴ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کا مفهوم
شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے پیرو کاروں نے توحید اور کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ “ کے معنی اس طرح بیان کئے ھیں جن کی روشنی میں کوئی دوسرا شخص موحّد (خدا کو ایک ماننے والا) موجود ھی نھیں ھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب اس طرح کھتا ھے:
”لا الہ الا اللّٰہ “ میں ایک نفی ھے اور ایک اثبات، اس کا پھلا حصہ (لا الہ) تمام معبود کی نفی کرتا ھے
[1] اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ھے۔[2]
اسی طرح محمد بن عبد الوھاب کا کہنا ھے کہ توحید وہ مسئلہ ھے جس پر خداوند عالم نے بھت زیادہ تاکید کی ھے،اور اس کا مقصد، عبادت کو صرف خداوندکریم سے مخصوص کرنا ھے۔ سب سے بڑی چیز جس سے خداوندعالم نے نھی کی ھے وہ شرک ھے جس کا مقصد غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دینا ھے۔
[3]
اسی طرح وہ خداوندعالم کے صفات کی شرح کرتے هوئے کھتا ھے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کا محتاج نھیں ھے جو بندوں کی حاجتوں کو اس سے بتائے یا اس کی مدد کرے یا بندوں کی نسبت خدا کے لطف و مھربانی کو تحریک کرے۔
[4]
اس بناپر وھابیوں نے قبور کی زیارتوں اور غیر خداکو پکارنے کو ممنوع قرار دیا مثلاً کوئی کھے ”یا محمد“
[5]اسی طرح غیر خدا کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور کے پاس نمازیں پڑھنایا اس طرح کی دوسری چیزیں جن کو ھم بعد میں بیان کریں گے، ان سب کو شرک قرار دیدیاھے، اس سلسلہ میں وہ سنی اور شیعہ کے درمیان کسی فرق کے قائل نھیں ھیں۔
محمد بن عبد الوھاب کا نظریہ یہ تھا کہ جو لوگ عبد القادر،عروف کَرخی ، زید بن الخطاب اور زُبیر کی قبروں سے متوسل هوتے ھیں وہ مشرک ھیں
[6] اسی طرح جواھل سنت شیخ عبد القادر کو شفیع قرار دیتے ھیں ان پر بھی بھت سے اعتراضات کئے ھیں۔ [7]
آلوسی کاکہنا ھے کہ جوشخص حضرات علی، حسین ، موسیٰ کاظم، اور محمد جواد( علیهم السلام )کے روضوں پر اور اھل سنت عبدالقادر ،حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ کی قبروں پر زیارت کرتے هوئے اور قبور کے نزدیک نماز پڑھتے هوئے اور ان سے حاجت طلب کرتے هوئے دیکھے تو اس کو یہ بات معلوم هوجائے گی کہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ھیں اور کفر وشرک کے سب سے بلند درجے پر ھیں۔
[8]
اس بات کا مطلب یہ ھے کہ چونکہ شیعہ اور سنی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ھیں اور وھاں پر نمازیں پڑھتے ھیں اور صاحب قبر کو وسیلہ قرار دیتے ھیں لہٰذا کافر ھیں، اسی عقیدہ کے تحت دوسرے وھابی تمام ممالک کو دار الکفر (کافر کے ممالک)کھتے ھیں اور اس ملک کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے۔
۱۲۱۸ھ میں سعود بن عبد العزیز امیر نجد اھل مکہ کے لئے ایک امان نامہ لکھتا ھے جس کے آخر میں لوگوں کے خطاب کرتے هوئے اس آیت کو لکھتا ھے:
<قُلْ یَا اَہْلَ الْکِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰہ وَلاٰ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہِدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔>
[9]
”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اے اھل کتاب آوٴ اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، او راگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“
اسی طرح وھابی علماء میں سے شیخ حَمَد بن عتیق نے اھل مکہ کے کافر هونے یا نہ هونہ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا جس میں بعض استدلال کے بناپر ان کو کافر شمار کیا،
[10] البتہ یہ اس زمانہ کی بات ھے جب وھابیوں نے مکہ شھر کو فتح نھیں کیا تھا۔
جن شھروں یاعلاقوں کے لوگوں میں جو نجدی حاکموں کے سامنے تسلیم هوجاتے تھے ،ان سے ”قبول توحید “ کے عنوان سے بیعت لی جاتی تھی۔
[11]
کلّی طور پر وھابیوں نے اکثر مسلمانوں کے عقائد اور ان کے درمیان رائج معاملات کو دین اسلام کے مطابق نھیں جانتے تھے۔ گویا اسی طرح کے امور باعث بنے کہ بعض مستشرقین منجملہ ”نیبھر اھل ڈانمارک“نے گمان کیا کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب پیغمبر تھا۔
[12]
توحید سے متعلق وھابیوں کے نظریات کے بارے میں شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی گفتگو کو بیان کرنامناسب ھے ، موصوف کھتے ھیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی خدا کی یگانیت کے ھیں یعنی انسان کو چاہئے کہ فقط اور فقط خدا کی عبادت کرے اور عبادت کو خدا کے لئے منحصر مانے اور غیر خدا سے بیزاری اختیار کرے۔
[13]
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ بھی کھتے ھیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی : خدا کے علاوہ تمام معبودوں کو ترک کرنا ھے ، لہٰذا انسان کی توجہ صرف خدا پر هونا چاہئے اور اگر کسی غیر خدا کی عبادت کی جائے تو گویا اس نے غیر خدا کو خدا کے ساتھ شریک قرار دیا،چاھے اس کام کا کرنے والا اس طرح کا کوئی ارادہ بھی نہ رکھتا هو، تو ایسا شخص مشرک ھے خواہ وہ اپنے شرک کو شرک مانے یا اس کو توسل کا نام دے۔
اس کے بعد حافظ وھبہ اپنی گفتگو کوجاری رکھتے هوئے کھتے ھیں کہ وھابیوں کو اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر کوئی کھے ”یا رسول اللہ“، ”یا ابن عباس“ ، ”یا عبد القادر“وغیرہ اور ان کلمات کے کہنے سے اس کا قصدان کا فائدہ پهونچانایانقصان کو دور کرنا هو یا اس کے مدّ نظر ایسے امور هوں جن کو صرف خدا ھی انجام دے سکتا ھے، تو ایسا شخص مشرک ھے اور اس کا خون بھانا واجب ھے اور اس کا مال مباح ھے۔
[14]
قارئین کرام ! ھماری گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ محمد بن عبد الوھاب توحید کی طرف دعوت دیتا تھا اورجو (اس کی بتائی هوئی توحید کو )قبول کرلیتا تھا اس کی جان اور مال محفوظ هوجاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی هوئی توحید کو قبول نھیں کرتا تھا اس کی جان ومال مباح هوجاتے تھے، وھابیوں کی مختلف جنگیں، چاھے وہ حجاز کی هوں یا حجاز کے باھر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں،اسی بنیاد پر هوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ هوجاتا تھا وہ پورا شھر ان کے لئے حلال هوجاتا تھا ،ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن هوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے ورنہ جو مال ودولت اور غنائم جنگی ان کے ھاتھ آتاا سی پر اکتفا کرلیتے تھے۔
[15]
اور جو لوگ اس کی اطاعت کو قبول کرلیتے تھے ان کے لئے ضروری تھا کہ دین خدا ورسول کو (جس طرح محمد بن عبد الوھاب کھتا تھا)قبول کرنے میں اس کی بیعت کریں، اور اگر کچھ لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے هوتے تھے تو ان کو قتل کردیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام کے تحت مشرقی احساء کے علاقہ میں ایک دیھات بنام ”فَصول“ کے تین سو لوگوں کوقتل کردیا گیا او ران کے مال کو غنیمت میں لے لیاگیا، اسی طرح احساء کے قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں بھی یھی کارنامے انجام دئے۔
[16]
اس سلسلہ میں شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ محمد بن عبد الوھاب کے پیروکار ھراس شخص کو کافر جانتے تھے جو حکومت نجد میں نہ هو یا اس حکومت کے حکام کی اطاعت نہ کرتا هو، اس کے بعد شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ سید محمد بن حسین المُراجل(جو کہ یمن کے امیر حجاج ھیں) نے مجھ سے کھا کہ وھابیوں کے کچھ گروہ مجھے اور یمن کے حجاج کو کافر کھتے ھیں اور یہ بھی کھتے ھیں کہ تمھارا کوئی عذر قابل قبول نھیں ھے مگر یہ کہ امیر نجد کی خدمت میں حاضر هو تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کے مسلمان هو۔
[17]
وھابیوں کی نظر میںوہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان مشرک یا کافر هوجاتا ھے
وھابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نھیں بچتا، وہ بھت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ھیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج او رمشرک یا کافر هوجاتا ھے،یھاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ھے:
۱۔ اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور هونے یا اپنے فائدہ کے لئے تعویذ باندھے یا بخار کے لئے اپنے گلے میں دھاگا باندھے ، تو اس طرح کے کام شرک کا سبب بنتے ھیںاور توحید کے بر خلاف ھیں۔
[18]
۲۔ محمد بن عبد الوھاب نے حضرت عمر سے ایک حدیث نقل کی ھے جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اگر کوئی غیر خدا کی قسم کھائے تو اس نے شرک کیا ، او رایک دوسری حدیث کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم غیر خدا کی سچّی قسم سے بھتر ھے، لیکن صاحب فتح المجید اس بات کی تاویل کرتے هوئے کھتے ھیںکہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ھے ، جبکہ غیر خدا کی سچی قسم شرک ھے جو گناہ کبیرہ سے زیادہ سنگین ھے۔
[19]
۳۔ اگر کسی شخص کو کوئی خیر یا شر پهونچا ھے، وہ اگر اسے زمانہ کانتیجہ جانے اور اس کو گالی وغیرہ دے تو گویا ا اس نے خدا کو گالی دی ھے کیونکہ خدا ھی تمام چیزوں کا حقیقی فاعل ھے۔
[20]
۴۔ ابو ھریرہ کی ایک حدیث کے مطابق یہ کہنا جائز نھیں ھے کہ اے خدا اگر تو چا ھے تو مجھے معاف کردے یا تو چاھے تو مجھ پر رحم کردے، کیونکہ خدا وندعالم اس بندے کی حاجت کو پورا کرنے کے سلسلہ میں کوئی مجبوری نھیں رکھتا۔
[21]
۵۔ کسی کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ وہ اپنے غلام او رکنیز کو ”عبد“ اور ”امہ“ کھے اور یہ کھے ”عبدی“ یا ”اَ مَتی“کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں کا پروردگار ھے اور سب اسی کے بندے ھیں اور اگر کوئی اپنے کو غلام یا کنیز کا مالک جانے ، اگرچہ اس کا ارادہ خدا کے ساتھ شرکت نہ بھی هو ، لیکن یھی ظاھری اور اسمی شراکت ایک قسم کا شرک ھے، بلکہ اسے چاہئے کہ عبد اور امہ کے بدلے” فتیٰ“ اور ”فتاة“یا غلام کھے۔
[22]
۶۔ جب انسان کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اسے یہ نھیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا هوتا تو ایسا نہ هوتا، کیونکہ ”لفظ اگر“ کے کہنے میں ایک قسم کا افسوس ھے اور ”لفظ اگر “ میں شیطان کے لئے ایک راستہ کُھل جاتا ھے اور یہ افسوس وحسرت اس صبر کے مخالف ھے جس کو خدا چاھتا ھے، جبکہ صبر کرنا واجب ھے اور قضا وقدر پر ایمان رکھنا بھی واجب ھے۔
[23]
کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے کے بارے میں چند صفحے بعد وضاحت کی جائے گی۔
تو پھر موحّد کون ھے؟
جناب آقائے مغنیہ، محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں اور دوسرے وھابیوں کی کتابوں سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ھیں کہ وھابیوں کے لحاظ سے کوئی بھی انسان نہ موحد ھے او رنہ مسلمان ! مگر یہ کہ چند چیزوں کو ترک کرے، ان میں سے چند چیزیں یہ ھیں:
[24]
۱۔ انبیاء اور اولیا ء اللہ کے ذریعہ خدا سے توسل نہ کرے او رجب ایسا کام کرے مثلاً یہ کھے کہ اے خدا تجھ سے تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے توسل کرتا هوں مجھ پر رحمت نازل فرما، تو ایسے شخص نے مشرکوں کا راستہ اپنایاھے، او راس کا عقیدہ مشرکوں کے عقیدہ کی طرح ھے۔
[25]
۲۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی غرض سے سفر نہ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر ھاتھ نہ رکھے اور آپ کی قبر کے پاس دعانہ مانگے نمازنہ پڑھے ، اسی طرح آنحضرت کی قبر کے اوپر عمارت وغیرہ نہ بنائے، اور اس کے لئے کچھ نذر وغیرہ نہ کرے۔
[26]
۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب نہ کرے، اگرچہ خدا وندعالم نے آنحضرت اور دوسرے انبیاء علیهم السلام کو شفاعت کا حق عطا کیا ھے لیکن ھمیں ا ن سے شفاعت طلب کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔
چنانچہ ایک مسلمان کے لئے یہ کہنا جائز ھے : ”یَا اَللّٰہُ، شَفِّعْ لی مُحَمَّداً“ (اے خدا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میرا شفیع قرار دے، لیکن یہ کہنا جائز نھیں ھے ”یَا مُحَمَّد اِشْفَعْ لی عِنْدَ اللّٰہ“ (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے نزدیک ھماری شفاعت کریں۔
[27]
اور اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتا ھے تو ایسا شخص بالکل ان بت پرستوں کی طرح ھے جو بتوں سے شفاعت طلب کرتے تھے۔
[28]
۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم نہ کھائے اور آپ کو نہ پکارے،آپ کو لفظ ”سیدنا“کہہ کر نہ پکارے ، اپنی زبان پر اس طرح کے کلمات جاری نہ کرے کہ ”یا محمد وسیدنا محمد“ کیونکہ آنحضرت اور دیگر مخلوق کی قسم کھانا شرک اکبر اور ھمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث ھے۔
[29]
اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوھاب کاکہنا ھے کہ غیر خدا کے لئے نذر کرنا اورغیر خدا سے پناہ مانگنا یااستغاثہ کرنا شرک ھے۔
[30]
۲۔صرف شھادتین کا اقرار کرنا مسلمان بننے کا سبب نھیں
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (محمد بن عبد الوھاب کا پوتا) اس طرح کھتا ھے کہ” عُبّاد قبور“(اس سے مراد قبور کی زیارت کرنے والے ھیں) در حالیکہ کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کو زبان پر جاری کرتے ھیں نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ھیں لیکن چونکہ محبت اور عبادت میں دوسروں کو خدا کا شریک قرار دیتے ھیں،لہٰذا یہ لوگ کوئی بھی عمل انجام دیں اور کوئی بھی گفتگو کریں باطل ھے اور چونکہ یہ مشرک ھیںلہٰذا ان کا کوئی بھی کام قبول اور صحیح نھیں ھے۔
[31]
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ کھتے ھیں : وھابیوں کے علاوہ دوسرے فرقے معتقد ھیں کہ جس شخص نے بھی کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “کا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ اور محترم ھے، لیکن ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ عمل کے بغیر اس اقرار کا کوئی فائدہ نھیں اور نہ اس کا کوئی اعتبار ھے، لہٰذا اگر کوئی شھادتین کا اقرار کرے لیکن مردوں کو پکارے یا ان سے استغاثہ کرے یا ان سے حاجت طلب کرے یا ان سے یہ تقاضا کرے کہ ان سے مشکلات کو برطرف کرے توایسا شخص کافر اور مشرک ھے اور اس کی جان ومال حلال او رمباح ھے۔
[32]
اس سلسلہ میں آلوسی بھی اپنا نظریہ پیش کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کی شھادت دے لیکن غیر خدا کی عبادت کرے (یعنی زیارت قبور کرے) اگرچہ وہ نماز پڑھتا هو روزہ رکھتا هو اور اسلام کے دوسرے اعمال بجالاتا هو، لیکن ایسے شخص کی شھادت قبول نھیں ھے۔
اس کے بعد آلوسی کابیان ھے : کفر کی دو قسمیں ھیں اول کفر مطلق، یعنی ان تمام چیزوں کا انکار کرنا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ھیں، دوسرے کفر مقید یعنی ان میں سے بعض چیزوں کا انکار کرنا۔وہ کفر مقیّد کے اثبات کے لئے اصحاب کے عمل کو دلیل کے عنوان سے پیش کرتا ھے، کہ جو لوگ زکوٰة ادا نھیں کرتے تھے جبکہ کلمہ شھادتین کا اقرار کرتے تھے او رنماز و روزہ اور حج بجالاتے تھے پھر بھی اصحاب ان کو کافر سمجھتے تھے۔
[33]
آلو سی اپنی باتوں سے اس طرح نتیجہ نکالتے ھیں کہ قبور کی عبادت کرنے والوں(یعنی زائرین قبور) کو صرف اس وجہ سے کہ وہ نماز پڑھتے ھیں روزہ رکھتے ھیں اور بعث وقیامت پر ایمان رکھتے ھیں، مسلمان نھیں کھا جاسکتابلکہ وہ مشرک ھیں۔
یہ بات طے ھے کہ یہ باتیں محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں سے اخذ شدہ ھیں اور محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں اور رسالوں میں تفصیل کے ساتھ بیان هوئی ھیں۔
[34]
اس سلسلہ میں وضاحت
غیر وھابیوں کا اس بات پر عقیدہ ھے کہ جو شخص زبان پر شھادتین جاری کرے اور نماز روزہ بجالائے زکوٰة ادا کرے اور دین اسلام کے ضروریات کا معتقد هو تو اس کا شمار مسلمانوں کی فھرست میں هوگا، اور اس کی جان ومال محفوظ ھے، اور ان کا یہ عقیدہ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عین مطابق اور اسلام کے مسلمات میں سے ھے،اس سلسلہ میں صحیح بخاری، مسند احمد ابن حنبل او ردوسری معتبر کتابوں میں متعدد احادیث بیان هوئی ھیں، گذشتہ زمانہ سے آج تک تمام مسلمانوں کے فرقوں کی سیرت بھی یھی رھی ھے ، اور مختلف مذاھب کے علمائے اسلام کا اس سلسلہ میں اتفاق اور اجماع ھے:
احمد ابن حنبل حضرت عمر اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ھیں:
”اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتلَ النَّاْسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا : لاٰ اِٰلہَ اِلاّٰ اللّٰہ ۔فَمَنْ قاَلَ لاٰ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہ فَقَدْ عَصُُمَ مِنِّی مَالُہُ وَنَفْسُہُ اِلاّٰ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلٰی اللّٰہِ تَعَالیٰ“
[35]
”خدا وندعالم نے مجھے حکم فرمایا ھے کہ لوگوں سے جنگ کروں یھاں تک کہ کلمہ” لا الہ الا اللّٰہ“ زبان پر جاری کریں اور جس شخص نے بھی کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ ھے مگر یہ کہ کوئی دوسرا حق درمیان میں هو، اور اس کا حساب خدا کے ھاتھ میں ھے۔
شیخ محمود شَلتُوت (جامع الازھر کے سابق سربراہ) کھتے ھیں کہ خدائے وحدہ لاشریک اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار (اَشْہَدُ اَنْ لاٰ اِلَہَ اِلاّٰ اللّٰہَ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ) انسان کے لئے ایک کلید ھے وہ جس سے اسلام میںداخل هوسکتا ھے اور اس پر اسلامی احکام جاری هونگے۔
[36]
کسی کے بارے میں کفر کا فتویٰ لگانا
وھابیوں اور ابن تیمیہ کے عقائد کی بحث میں یہ بات بیان هوچکی کہ یہ لوگ اپنے علاوہ سبھی دوسرے مسلمانوں کو کافر اورمشرک کھتے ھیں، اور دوسروں پر بھت جلد کفر کا فتویٰ لگا دیتے ھیں، جبکہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب اور مختلف فرقوں کے بڑے بڑے علماء کا طریقہ یہ نھیں تھا، جن چیزوں کو یہ لوگ کفر وشرک کا باعث سمجھتے ھیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور دینی رھبروں کی نظر میں وہ امور موجب کفر وشرک نھیں تھے۔
اگر مسلمان هونے کے لئے شھادتین کا اقرار کرنا کافی نہ هواورتوحید کا مفهوم ابن تیمیہ اور اس کے ھمنواوٴں نے ھی صحیح سمجھا ھے ، تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے زمانہٴ جاھلیت کے اکثرعرب تھے جن میں سے بعض لوگ موٴلفة القلوب تھے ، ان کے اسلام کو کس طرح قبول کیا جاسکتا ھے، جبکہ صحاح ستہ اور اھل سنت کی دوسری معتبر کتابوں اور دوسرے فرقوں کی کتابوں کے لحاظ سے وہ لوگ جو صرف زبان سے شھادتین کا اقرار کرتے تھے، ان کومسلمان تصور کیا جاتا تھا، جبکہ صدر اسلام میں اکثر لوگ یھاں تک کہ خود اصحاب کرام اسلام کے صحیح معنی سے آگاہ نھیں تھے اور صرف زبان سے کلمہ شھادتین کہنے پر ان کی جان ومال محفوظ هوجاتا تھا اور ان کو مسلمان حساب کیا جاتا تھا، لیکن وھابیوں کا کہنا یہ ھے کہ جو شخص کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اور نماز پڑھے، روزہ رکھے ، حج بجالائے اور اسلام کی دوسری ضروریات کو قبول کرتے هوئے ان پربھی عمل کرے لیکن اگردینی بزرگوں کی قبور کی زیارت کے لئے جائے تو ایسا شخص مشرک ھے کیونکہ اس نے غیر خدا کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ھے ، جبکہ اگر کسی بھی زائر سے چاھے وہ شیعہ هو یا سنی ،یہ سوال کریں کہ تم کس لئے زیارت کے لئے جاتے هو؟ تو اس کا جواب یہ هوگا : وہ خدا کا خاص بندہ ھے اور اس نے خدا کے وظائف دوسروں سے بھتر انجام دئے ھیں اور ھم خدا کی خوشنوی کے لئے اس کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں۔ اس کے لئے دعا کرتے ھیں اور اس کی تعظیم کی کوشش کرتے ھیں۔
یہ بات واضح ھے کہ کسی ایسے شخص کے بارے میں کفر و شرک کا فتویٰ لگانا حقیقت اسلام کے مخالف اور سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیز سلف صالح اور دینی رھبروں کی سیرت کے خلاف ھے۔
اس موقع پر مناسب ھے کہ کسی کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے لگانے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اصحاب اوردینی رھبروں کی سیرت کی روشنی میں کتاب”الاسلام بین السنة والشیعہ“ سے کچھ چیزیں بیان کردی جائیں تاکہ معلوم هوجائے کہ کسی موحد اور مسلمان کے کفر کا فتویٰ اتنی آسانی سے نھیں لگایا جاسکتا، اور کروڑوں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کی وجہ سے جو کبھی بھی توحید اور عبادت خدا کے منافی نھیں ھیں، بڑی آسانی سے کافر نھیں کھا جا سکتا ۔
کسی پر کفر کا حکم لگانا خدا کا کام ھے
اسلام قول اور فعل کے ذریعہ ظاھر هوتا ھے اور انھیں اقوال اور افعال کی وجہ سے میراث کا مسئلہ بھی جاری هوتا ھے، اور لوگوں کا نماز پڑھنا زکوٰة دینا حج بجالانا وغیرہ ایسے امور ھیں جن کے ذریعہ انسان کفر سے نکل کر ایمان کی منزل میں آجاتا ھے۔
[37]
یھاں پر چند دینی رھبروں کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیں:
”میں کسی اھل قبلہ کو کافر نھیں جانتا“
[38]
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد لوگوں میں بھت سے مسائل میں اختلاف پیدا هوگیا اور مختلف فرقے پیدا هوگئے، اسلام ان سب کو ایک جگہ جمع کردیتا ھے اور سب پر مسلمان کا اطلاق هوتا ھے“
[39]
”میں کسی اھل قبلہ کے کفر کا فتویٰ نھیں دیتا“
[40]
”میں کسی بھی عنوان شھادتین کہنے والوں کو کافر نھیں کھتا“
[41]
”اگر میرے بدن کا گوشت درندے کھالےں، میں اس کو اس چیز سے بھتر سمجھتا هوں کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کروں کہ کسی ایسے شخص سے دشمنی رکھوں جو خدائے وحدہ لاشریک اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد رکھتا هو“
[42]
”میں کسی بھی اسلامی مذھب سے تعلق رکھنے والوں کو کافر نھیں کہہ سکتا“
[43]
”کسی بھی موحد انسان سے دشمنی جائز نھیں ھے اگرچہ اس کو هوا وهوس نے حق سے منحرف ھی کیوں نہ کر دیا هو“
[44]
آخر کلام میں ھم حضرت امام صادق ںکے کلام کو پیش کرتے ھیں ، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان،مسلمان کا بھائی ھے اور ھر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آنکھ، آئینہ ،اور راہنما ھے جس سے وہ خیانت نھیں کرتا اور نہ ھی اس کو دھوکہ دیتا، اور نہ ھی اس کی غیبت کے لئے اپنا منھ کھولتا ھے۔
اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور آنحضرت کا فرمان کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ خدا کے علاوہ کسی کو خدا نہ جانے تو ایسا شخص بہشت میں داخل هوگا۔
[45]
ھم دیکھتے ھیں کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مُعاذ بن جَبَل کو یمن میں تبلیغ کے لئے بھیجا تاکہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائےں تو آپ نے ان سے تاکید کی کہ خدا پر ایمان کی حقیقت اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے اعتراف پر اکتفاء کرنا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے کھا: تم اس قوم کے پاس جارھے هو جو اھل کتاب ھیں، ان کو یہ بتانا کہ تم پر خداوندعالم نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں واجب کی ھیں اور اگر وہ لوگ قبول کرتے ھیں تو پھر ان کے مالداروں سے کہنا کہ تم پر زکوٰة واجب ھے تاکہ وہ فقیروں میں تقسیم کی جائے۔
جو شخص اپنے دل میں اس بات کا معتقد هو کہ جنت ودوزخ خدا کے حکم اور اس کے فرمان کے تحت ھے اور کسی پر کفر اور ایمان کا حکم لگانا اور انسان کے دل کی گھرائیوں کا حال جانناخدا سے مخصوص ھے، ایسے شخص نے چاھے وہ کتنا بڑا هو،عالم هو یامعجز نما هو اس نے ان اعتقادات کے باوجود خدا کے سامنے بزرگی وبڑائی کی جراٴت کی ھے ۔
اسی طرح جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنا کہ ان کے ربیب اُسامہ بن زید نے میدان جنگ میں اس شخص کو قتل کردیا جس نے زبان پرکلمہ توحید جاری کیا تھا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھت ناراض هوئے اور جب اُسامہ بن زید نے یہ عذر پیش کیا کہ اس نے جان کے خوف سے یہ کلمہ زبان پر جاری کیا تھا (یعنی صرف اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا) تو آپ نے اُسامہ کے عذر کو قبول نھیں کیا اور فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس کا یہ شھادتین کا اقرار اعتقاد سے تھا یا خوف سے؟ اور یہ بات معلوم ھے کہ ایمان کی جگہ انسان کا دل هوتا ھے اور دل کے اسرار سے صرف خدا ھی واقف هوتا ھے کوئی دوسرا ان سے واقف نھیں هوسکتا۔
اسی طرح جب حضرت عمر نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عبد اللہ ابن اُبیّ (جو منافقوں کا سردار تھا) کے قتل کی اجازت مانگی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ کام کروگے تو لوگ یہ کھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ھی اصحاب کو قتل کررھے ھیں، گویا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اس بات سے حضرت عمر اور دوسرے لوگوں کو یہ سمجھانا چاھتے تھے کہ اسلام فقط ظاھر پر حکم کرتا ھے چاھے شک اور تردید کے ساتھ هو۔
[46]
شیخ سلیمان جو محمد بن عبد الوھاب کے بھائی تھے اور محمد بن عبد الوھاب کے سخت مخالفین میں شمار هوتے تھے، انھوں نے اپنے بھائی محمد بن عبد الوھاب جو تمام مسلمانوں کو کافر و مرتد کھتا تھا کی ردّ میںایک کتاب ”الصواعق الالٰھیہ“ لکھی جس میں ۵۲ حدیثیں ایسی لکھی ھیں جس میں ھر اس شخص کو مسلمان کھا گیا ھے جس نے زبان پرکلمہ لا الہ اللہ کو جاری کیا اور بھت سی ایسی حدیثیں لکھیں جس میں ھر اس شخص کو کافر کھا گیا ھے جو کسی مسلمان کو کافر کھے۔
[47]
۳۔خداوندعالم کے لئے جھت کا ثابت کرنا
وھابی، ابن تیمیہ کی پیروی کرتے هوئے کیونکہ وہ قرآن اور احادیث کے ظاھر پر عمل کرتے ھیں اور تاویل و تفسیر کے قائل نھیں ھیں بعض آیات اور احادیث کے ظاھر سے تمسک کرتے هوئے خداوندعالم کے لئے جھت کو ثابت کرتے ھیں اور اس کو اعضاء وجوارح والا مانتے ھیں۔
اس سلسلہ میں آلوسی کاکہنا ھے : وھابی ان احادیث کی تصدیق کرتے ھیںجن میں خداوند عالم کے آسمانِ دنیا (آسمان اول) پر نازل هونے کا تذکرہ ھے، وہ کھتے ھیں کہ خداوندعالم عرش سے آسمان دنیا پر نازل هوتا ھے اور یہ کھتا ھے: ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟کیا کوئی استغفار کرنے والا ھے کہ میں اس کے استغفار کو قبول کروں۔
اسی طرح وہ یہ بھی اقرار کرتے ھیں کہ خداوندعالم روز قیامت عالم محشر میں آئے گا کیونکہ خود اس نے فرمایا ھے:
<وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً>
[48]
”اور تمھارا پرور دگار اور فرشتے صف در صف آجائیں گے“۔
خدا اپنی مخلوق سے جس طرح بھی چاھے قریب هوسکتا ھے جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:
<وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ>
[49]
”اور ھم اس کی رگ گردن سے زیادہ قریب ھیں۔ “
آلوسی ایک دوسری جگہ کھتے ھیں کہ اگرچہ وھابی خداوندعالم کے لئے جھت کوثابت کرتے ھیں لیکن مُجسِمّہ نھیں ھیں
[50] ( یعنی خدا کو جسم والانھیں مانتے) اور کھتے ھیں کہ روز قیامت مومنین بغیر کسی کیفیت اور احاطہ کے خداوندعالم کا دیدار کریں گے ۔ [51]
اسی طرح وھابی لوگ بعض آیات کے ظاھر کو دیکھتے هوئے خداوند عالم کے لئے اعضاء وجوارح ثابت کرتے ھیں مثلاً اس آیہ شریفہ
<بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَاْنِ>
[52]
(خدا کے دونوں ھاتھ تو کھلے ھیں )سے خداوندعالم کے لئے دو ھاتھ ثابت کرتے ھیں اور اسی طرح اس آیہ شریفہ <وَاْصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا>
[53]کے ظاھر سے خدا کے لئے دو آنکھیں اور اس آیہ کریمہ <فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ>[54]
کے ذریعہ خدا کے لئے چھرہ اور صورت ثابت کرتے ھیں۔
اور خدا کے لئے انگلیوں کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ایک روایت ھے جس کو محمد بن عبد الوھاب نے کتاب توحید کے آخر میں بیان کیا ھے:
”اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ السَّمَوٰاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ مِنْ اَصَابِعِہ وَالاَرْضَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلٰی اِصْبِعٍ… اِلٰی آخِرِہ“
[55]
خداوندعالم نے آسمانوں کو اپنی ایک انگلی پر اور زمین کو ایک انگلی پر اسی طرح درختوں کو ایک انگلی پر اٹھا رکھا ھے۔
خداوندعالم کی صفات کے بارے میں
صاحب فتح المجید کھتے ھیں: تمام اھل سنت والجماعت چاھے متقدمین هوں یا متاخرین، ان کا عقیدہ یہ ھے کہ خدا کے وہ صفات جن کو خود خدانے قرآن مجید میں بیان کیا ھے یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کو ان صفات سے متصف کیا ھے،وہ خداوندعالم کے لئے ثابت اور مسلّم ھیں لیکن خداوندعالم کو ان صفات میں کسی مخلوق کے مانند قرار نھیں دیا جاسکتا۔
کیونکہ خداوندعالم اپنے صفات میں مانند اورشبیہ رکھنے سے پاک ومنزہ ھے، جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:
<لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَئْيٌ وَهو السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ>
[56]
”اس کا جیسا کوئی نھیں وہ سب کی سننے والا اور ھر چیز کا دیکھنے والا ھے“۔
جس طرح خداوندعالم ایک حقیقی ذات ھے جس کی کوئی شبیہ نھیں ، اسی طرح خداوندعالم کے حقیقی صفات بھی ھیں جن سے مخلوق کی کوئی صفت شباھت نھیں رکھتی، اگر کوئی شخص ان چیزوں کا منکر هوجائے جن کو خداوندعالم نے خود سے متصف کیا ھے یا اس کے ظاھری معنی کی تاویل اور تفسیر کرے (مثلاً یہ کھے کہ اس آیت میں<’یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْهم۔>میں ھاتھ سے مراد خدا کی قدرت ھے) ایسے شخص کا مذھب جھمی
[57] ھے، اور اس کا راستہ مومنین کے راستہ سے الگ ھے۔ [58]
۴۔ گذشتہ انبیاء کے بارے میں
شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنی کتابوں اور رسالوں میں نبوت کی گفتگو کرتے هوئے جناب نوح کو پھلا نبی کھتا ھے:
”اَوَّلُهم (اَوَّلُ الاَنْبِیَاءْ) نُوْحٌ وَآخِرُهم مُحَمَّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “
”انبیاء میں سب سے پھلے جناب نوح ںاور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھیں“
اور اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیت کو دلیل کے طورپر بیان کیا ھے مثلاً یہ آیہ کریمہ:
<اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ وَالنَّبِیِّیّْنَ مِنْ َبعْدِہ>
[59]
”ھم نے آپ پر وحی نازل کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی“۔
۵۔شفاعت او راستغاثہ
شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے: خداوندعالم نے جن عبادتوں کا حکم کیا ھے وہ یہ ھیں: اسلام، ایمان، احسان، دعا، خوف ورجا، توکل، رغبت، زہد،استقامت، استغاثہ، قربانی اور نذر ، یہ تمام چیزیں صرف خدا وندعالم کے لئے ھیں۔
[60]
شفاعت کے بارے میں حافظ وھبہ کھتے ھیں کہ وھابی روز قیامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کے منکر نھیں ھیں اور جیسا کہ بھت سی روایات میں وارد هوا ھے ،وہ شفاعت کو دوسرے انبیاء،
فرشتوں، اولیاء اللہ اور(معصوم) بچوںکے لئے بھی مانتے ھیں، لیکن شفاعت کو اس طرح طلب کیا جائے کہ بندہ خدا سے درخواست کرے کہ پیغمبر کو اس کا شفیع قرار دے مثلا ًیوںکھے:
”اَللّٰهم شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰهم شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادَکَ الصَّاْلِحِیْنَ“
”خداوندا ! ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روز قیامت ھمارا شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں کو ھمارا شفیع قرار دے“۔
لیکن ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، یَا وَلِیّ اللّٰہِ اَسْاٴَلُکَ الشَّفَاعَةَ“ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَدْرِکْنِی، یَا اَغِثْنِی“زبان پر جاری کرنا خدا کے ساتھ شرک ھے۔
[61]
ابن قیم کھتا ھے کہ شرک کے اقسام میں سے ایک قسم مُردوں سے استغاثہ کرنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ھے، مُردے کسی کام پر قادر نھیں ھیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ھیں نھیں، پھرکس طرح استغاثہ کرنے والوں کی فریاد کو پهونچ سکتے ھیں، یا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ھیں؟۔
شیخ صُنعُ اللہ حنفی کھتا ھے کہ آج کل مسلمانوں کے درمیان ایسے گروہ پیدا هوگئے ھیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ھیں کہ اولیاء اللہ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ بھی ھے کہ وہ اپنی زندگی یا موت کے بعد بھی بعض تصرفات کرسکتے ھیں مثلاً جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں کے وقت ان سے استغاثہ کرتے ھیں وہ ان کی مشکلات کو دور کردیتے ھیں، یہ لوگ قبور کی زیارتوں کے لئے جاتے ھیں، اور وھاں طلب حاجت کرتے ھیں، اور ثواب کی غرض سے وھاں پر قربانی و نذر وغیرہ کرتے ھیں۔
شیخ صنع اللہ یھاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان کرتا ھے کہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلکہ ھمیشگی عذاب ھے اور ان سے شرک کی بو آتی ھے۔
[62]
ابن سعود ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں مکہ معظمہ میں کی جانے والی اپنی تقریر میںکھتا ھے کہ ”عظمت اور کبریائی خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں کی ردّ میں ھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارتے ھیں اور ان سے حاجت طلب کرتے ھیں۔
جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کچھ بھی اختیار اور قدرت نھیں ھے اور توحید خداوندعالم سے مخصوص ھے، اور اسی کی عبادت هونا چاہئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم سے هونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت اسی طرح دیگر انبیاء علیهم السلام کی نبوت، صرف لوگوں کو توحید کا سبق پڑھانے کے لئے تھی۔
[63]
شیخ صنع اللہ کھتے ھیں کہ ظاھری اور معمولی کاموں میں استغاثہ جائز ھے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ کے سامنے کسی سے مدد طلب کی جاسکتی ھے، لیکن معنوی امور میں کسی سے استغاثہ کرنا مثلاً انسان پر یشانیوں کے عالم میں ، بیماری کے، یا غرق هونے کے خوف سے یا روزی طلب کرنے میں کسی دوسرے سے استغاثہ نھیں کرسکتا بلکہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ کرنا چاہئے اور کسی غیرخدا سے استغاثہ جائز نھیں ھے۔
[64]
زینی دحلان محمد بن عبد الوھاب کا قول نقل کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دوسرے انبیاء علیهم السلام سے استغاثہ کرے یا ان میں سے کسی ایک کو پکارے، یا ان سے شفاعت طلب کرے تو ایسا شخص مشرکوں کی طرح ھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی قبروںکی زیارت بھی خدا کے ساتھ شرک ھے، اور زیارت کرنے والے مشرکوں کی طرح ھیں جو بتوں کے بارے میں کھتے تھے:
<مَانَعْبُدُهم اِلاّٰ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی >
[65]
”ھم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ھیں کہ یہ ھمیں اللہ سے قریب کردیں گے“۔
محمد بن عبد الوھاب اس بارے میں مزید کھتے ھیں کہ جو لوگ اھل قبور سے شفاعت طلب کرتے ھیں ان کا شرک زمان جاھلیت کے بت پرستوں کے شرک سے بھی زیادہ ھے۔
[66]
استغاثہ کے بارے میں وضاحت
سید احمد زینی دحلان (مکہ معظمہ کے مفتی) گذشتہ مطلب کے بعد اس طرح کھتے ھیں:ان عقائد کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں مذکورہ استدلال کو باطل اور غیر صحیح قرار دیاگیا، کیونکہ جو مومنین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ردیگر اولیاء اللہ سے استغاثہ کرتے ھیں وہ نہ ان کو خدا سمجھتے ھیں او رنہ ھی خدا کا شریک، بلکہ ان کا تو اعتقاد یہ هوتا ھے کہ یہ سب خدا کی مخلوق ھیں اور ان کو کسی بھی صورت میں مستحق عبادت نھیں مانتے ، برخلاف مشرکین کے جن کے بارے میں مذکورہ اور دیگر آیات نازل هوئیں ھیں کہ وہ خود بتوں کو مستحق عبادت سمجھتے تھے، اور ان بتوں کے لئے ایسی عظمت کے قائل تھے جس طرح خدا کی عظمت کے قائل هوتے ھیں، لیکن مومنین کرام انبیاء علیهم السلام کو مستحق عبادت نھیں جانتے اور ان کے لئے خدا سے مخصوص عظمت کے بھی قائل نھیں ھیں، بلکہ ان کا عقیدہ تو صرف یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام خدا کے ولی اور اس کے منتخب بندے ھیں ، اور خود خداوندعالم ان کے وجود سے اپنے دیگر بندوں پر رحم کرتا ھے، لہٰذا ابنیاء علیهم السلام اور اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت صرف ان حضرات سے تبرک حاصل کرنے کے لئے هوتی ھے۔
[67]
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنے اور آنحضرت سے استغاثہ کرنے کے بارے میں مرحوم علامہ الحاج سید محسن امین صاحب کتاب ”خلاصة الکلام“ سے نقل کرتے ھیں کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے دوران اصحاب رسول کا نعرہ ”وامحمداہ، وامحمداہ“ تھا اور جس وقت عبد اللہ ابن عمر کے پیر میں درد هوا تو اس سے کھا گیا کہ جس کو تم سب سے زیادہ چاھتے هو اس کو یاد کرو، تو اس نے ”وامحمداہ“ کھا اور اس کے پیر کا درد ختم هوگیا، اسی طرح دوسرے واقعات ھیں جن میں آنحضرت سے استغاثہ کو بیان کیا گیا ھے،
[68]
شفاعت کے سلسلہ میں انس بن مالک اس طرح روایت کرتے ھیں:
”لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِها فَاسْتُجِیْبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
”ھر نبی کے لئے خداوندعالم نے کچھ مستجاب دعائیں معین کی تھیں اور ان کی وہ دعائیں قبول هوگئیں لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ھے“
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک دوسری روایت ھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں:
”لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ یَدْعُوْ بِها وَاُرِیْدُ اَنْ اَخْتَبِیَ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی فِیْ الآخِرَةِ“
[69]
”ھر پیغمبر نے خداوندعالم سے کچھ نہ کچھ دعائیں کی ھیں اور میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ھے“۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی تحریر کے مطابق قیامت کے دن مخلوق خدا، انبیاء علیهم السلام کے پاس جمع هوکر عرض کریں گی کہ آپ خدا کے نزدیک ھماری شفاعت کریں، تاکہ روز محشر کی مشکلات سے نجات حاصل هوجائے۔
[70]
۷۔غیر خدا کو” سید“ یا” مولا “کہہ کر خطاب کرنا شرک ھے
مرحوم علامہ امین ۺ ، ہدیة السنیہ رسالہ سے نقل کرتے ھیں کہ صاحب رسالہ نے زیارت قبور کی حرمت بیان کرنے کے بعد اس طرح کھا ھے کہ قبروں میں دفن شدہ لوگوں کو پکارنا اور ان سے استغاثہ کرنا یا ”یَا سَیّدی وَمَولای اِفْعَل کَذَا وَکذَا“ (اے میرے سید ومولا میری فلاں حاجت روا کریں) جیسے الفاظ سے پکارنا ، اور اس طرح کی چیزوں کو زبان پر جاری کرنا گویا ”لات وعزّیٰ“ کی پرستش ھے۔
[71]
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ مشرکین کا لفظ ”الہ“ سے وھی مطلب هوتا تھا جو ھمارے زمانہ کے مشرکین لفظ ”سید “ سے مرادلیتے ھیں۔
[72]
خلاصة الکلام میں اس طرح وارد هوا ھے کہ محمد بن عبد الوھاب کے گمان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ”مولانا“ یا ”سیدنا“ کھے تو ان الفاظ کا کہنے والا کافر ھے۔
[73]
مذکورہ مطلب کی وضاحت
مرحوم علامہ امین ۺ مذکورہ گفتگو کو آگے بڑھاتے هوئے فرماتے ھیں کہ کسی غیر خدا کو ”سید“ کہہ کر خطاب کرنا صحیح ھے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے کیونکہ اس طرح کی گفتگو میں کوئی شخص بھی اس شخص کے لئے مالکیت حقیقی کا ارادہ نھیں کرتا، اس کے علاوہ قرآن مجید میں چند مقامات پر غیر خدا کے لئے لفظ سید استعمال هوا ھے ، مثلاً جناب یحییٰ ابن زکریا ں کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:
<وَسَیّداً وَحَصُوْرا۔>
[74]
(سردار اور پاکیزہ کرداروالے جناب یحییٰ تھے) اسی طرح دوسری آیت میں <وَاَلْفِیَا سَیِّدَها لَدیَ الْبَابِ۔>
[75]
(اور ان دونوں نے اس کے سردار کو دروازے پر ھی دیکھ لیا)
احادیث رسول(ص) میں بھی غیر خدا کے لئے لفظ ”سید“ بھت زیادہ استعمال هوا،یھاں تک کہ تواتر کی حدتک بیان هوا ھے۔
ان احادیث کے چند نمونے یھاںذکر کئے جاتے ھیں:
اس روایت کو بخاری نے جناب جابر سے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ سَیّدُکُمْ یَا بَنِی سَلْمَة؟“
اے بنی سلمہ تمھارا سید وسردار کون ھے؟
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک روایت میں وارد هوا ھے:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَم یَومَ القِیَامَةِ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار هوں۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت نے فرمایا:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِیّ سَیِّدُ الْعَرَبْ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار هوں اور علی ں تمام عرب کے سید وسردار ھیں۔
ابو سعید خدری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ھے جس میں آپ نے فرمایا:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“
حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ھیں۔ اور اسی طرح دوسری روایتیں۔
اس کے بعد علامہ امین صاحب فرماتے ھیں کہ وہ روایات جن سے اس چیز کا وھم وگمان هوتا ھے کہ لفظ سید کو کسی غیر خدا پر اطلاق کرنا صحیح نھیں ھے ان روایات کا مقصد ”سید حقیقی“ ھے جیسا کہ ھم نے پھلے بھی بیان کیا ھے۔
[76]
اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ھے کہ اس حدیث”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“ کو ابن تیمیہ نے نقل کیا ھے اور اس حدیث کے ذےل میں یہ بھی کھا کہ صحیح احادیث پیغمبر اکرم میں وارد هوا ھے کہ آپ نے امام حسن ں کے بارے میں فرمایا: ”اِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ“
[77] (بے شک یہ میرا بیٹا سید و سردار ھے) اسی طرح شرح مناوی بر جامع صغیر سیوطی میں چند روایتیں نقل هوئیں ھیں جن میں غیر خدا پر سید کا لفظ استعمال هوا ھے، منجملہ یہ جملہ:
”سَیِّدُ الشُّہْدَاءِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ القِیَامَةِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ“
”جناب حمزہ بن عبد المطلب قیامت کے دن خدا کے نزدیک سید الشہداء ھیں“
اسی طرح یہ حدیث بھی بیان هوئی ھے:
”سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهم، وَسَیِّدُ النَّاسِ آدَمُ وَسَیِّدُ الْعَرَبِ مُحَمَّدٌ وَسَیِّدُ الرُّوْمِ صُہَیْبٌ وَسَیِّدُ الْفُرْسِ سَلْمَانٌ وَسَیِّدُ الْحَبَشَةِ بَلاٰلٌ، وَسَیِّدُ الْجِبَالِ طُوْرِ سِیْنَا… وَسَیِّدَاتُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّةِ اَرْبَع مَرْیَمْ وَفاَطِمَةُ وَخَدِیْجَةُ وَآسِیّة“
[78]
(کسی قوم کا سردار اس کا خادم ھے، انسانوں کے سردار جناب آدم ں عربوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھل روم کے سردار صھیب، اھل فارس کے سردار جناب سلمان، افریقہ کے سردار جناب بلال، اور پھاڑوں کا سردار طور سینا، اور جنت میں عورتوں کی سردار چارھیں جناب مریم، جناب فاطمہ زھرا، جناب خدیجہ اور جناب آسیہ ھیں۔)
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ھے کہ سعودی بادشاهوں کے لئے متعدد بار لفظ” مولای “ نثر ونظم دونوں میں استعمال هوا ھے منجملہ ”ام القریٰ“ نامی اخبار مطبوعہ مکہ
[79]میں عبد العزیز کو کئی بار”مولای“ کھا گیا ھے اس قصیدہ کے ضمن میں جو عید قربان کے موقع پر تبریک وتہنیت پیش کرنے کے لئے کھا گیا جس میں دو مقام پر ”اَمولای“ (اے میرے مولا) کھا گیا ھے، اور وھاں کے اخباروں اور مجلوں میں یہ بات عام ھے۔
لیکن انبیاءعلیهم السلام ، اولیاء اور صالحین کو اس طرح خطاب کرنا در حقیقت ان سے حاجت طلب کرنا نھیں ھے بلکہ ان سے یہ چاھتے ھیں کہ ان کی درخواست کو وہ حضرات خدا وندکریم سے طلب کریں، مثلاً جس وقت ان سے یہ کھا جاتا ھے کہ میری مدد کریں یعنی آپ خدا سے یہ چاھیں کہ وہ میری مدد کرے، اس طرح کی تفسیروں کو خود وھابی تسلیم کرتے ھیں، مثلاً ان آیات کے بارے میں جن میں خداوندعالم نے بھت سی مخلوقات کی قسم کھائی ھے کھتے ھیں ان مخلوق سے مراد ” مخلوقات کا خدا“ ھے نہ کہ خود وہ مخلوقات۔
۸۔قبور کے اوپر عمارت بنانا ، وھاں پر نذر اورقربانی کرنا وغیرہ
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کاکہناھے کہ احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ھر اس شخص کے لئے لعنت کی گئی ھے جو قبروں پر چراغ جلائے یا قبروں پر کوئی چیز لکھے یا ان کے اوپر کوئی عمارت بنائے۔
[80]
حافظ وھبہ کا کہنا ھے کہ قبروں کے بارے میں چار چیزوں پر توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔قبروں پر عمارت وغیر ہ بنانا اوران کی زیارت کرنا۔
۲۔وہ اعمال جو بعض لوگ قبروں کے پاس انجام دیتے ھیں مثلاً دعا کرنا نماز پڑھنا وغیرہ۔
۳۔قبروں پر گنبد اور ان کے نزدیک مساجد بنانا۔
۴۔قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا۔
قبروں کی زیارت، ان سے عبرت حاصل کرنا یا میت کے لئے دعا کرنا اور ان کے ذریعہ آخرت کی یاد کرنا، اگر سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق هو تو مستحب ھے، لیکن قبور کے لئے سجدہ کرنا یا ان کے لئے جانور ذبح کرنا یا ان سے استغاثہ کرنا شرک ھے، اسی طرح ان پر اور وھاں موجود عمارت پر رنگ وروغن کرنا یہ تمام چیزیں بدعت ھیں جن سے منع کیا گیاھے، اسی وجہ سے وھابیوں نے مکہ اور مدینہ میں موجود قبروں کی عمارتوں کو مسمار کردیا ھے، جیسا کہ ایک صدی پھلے (حافظ وھبہ کی کتاب لکھنے سے ایک صدی قبل جو تقریباً ۱۴۰سال پھلے کا واقعہ ھے) مکہ او رمدینہ کی قبروں پر موجود تمام گنبدوںکو مسمارکردیاگیا، اسی طرح حافظ صاحب کھتے ھیں کہ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بھی بدعت ھے۔
[81]
قبروں کے پاس اعتکاف کرنابھی شرک کے اسباب میں سے ھے بلکہ خود یہ کام شرک ھے،
[82] سب سے پھلے رافضی لوگ شرک اور قبور کی عبادت کے باعث هوئے ھیں، اور یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے سب سے پھلے قبروں کے اوپر مسجدیں بنانا شروع کی ھیں۔[83]
وھابیوں کے نزدیک نہ یہ کہ صرف قبور کی زیارتوں کے لئے سفر کرنا حرام ھے بلکہ یہ لوگ صاحب قبر کے لئے فاتحہ پڑھنے کو بھی حرام جانتے ھیں، (اور جس وقت انھوں نے حجاز کو فتح کرلیا جس کی شرح بعد میں بیان هوگی)جب بھی کسی شخص کو قبروں پر فاتحہ پڑھتے دیکھتے تھے اس کو تازیانے لگاتے تھے، ۱۳۴۴ھ میں جس وقت حجاز پرتازہ تازہ غلبہ هوا تھا تو اس وقت سید احمد شریف سنوسی کو (جوکہ مشهورومعروف اسلامی شخصیت تھیں) حجاز سے باھر کردیا کیونکہ ان کو مکہ معظمہ میں جناب خدیجہ کی قبر پر کھڑے هوکرفاتحہ پڑھتے دیکھ لیا تھا۔
[84]
اسی طرح وھابی حضرات ایک روایت کے مطابق قبروں پر چراغ اور شمع جلانے کو بھی جائز نھیں جانتے، اسی وجہ سے جس وقت سے انھوں نے مدینہ منورہ پر غلبہ پایا اس وقت سے روضہ نبوی پر چراغ جلانے کو منع کردیا۔
[85]
شیخ محمد بن عبد الوھاب کا کہنا ھے کہ جو شخص کسی غیر خدا سے مدد طلب کرے یا کسی غیر خدا کے لئے قربانی کرے یا اس طرح کے دوسرے کام انجام دے تو ایسا شخص کافر ھے۔
[86]
اسی طرح اس نے قبروں پر چراغ جلانا وھاں پر نماز پڑھنا یا قربانی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کو زمان جاھلیت کے مسائل میں شمار کیا ھے۔
[87]
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوھاب کا پوتا)کھتا ھے کہ مشرک لوگ جو نام بھی اپنے شرک کے اوپر رکھیں ،وہ بھر حال شرک ھے، مثلاً مُردوں کا پکارنے، یا ان کے لئے قربانی یا نذر کرنے کو محبت وتعظیم کانام دیں ،یا وہ نذر جو قبروں کے مجاروں اور خادموں کے لئے کی جاتی ھے یہ کام بھی ہندوستان کے بت خانوں کی طرح ھے، اسی طرح قبروں پر شمع جلانے کی نذر یا چراغ کے تیل کی نذر کرنا بھی باطل ھے مثلاً خلیل الرحمن ،دیگر انبیاء اوراولیاء اللہ کی قبروں پرشمع اورچراغ جلانے کی نذر کرنے کے باطل هونے میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے ، اور اس طرح کی شمع جلانا حرام ھے چاھے کوئی ان کی روشنائی سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.
[88]
قبور کے اوپر عمارت بنانا، وھاں پر نذر اور قربانی کرنا وغیرہ کے بارے میں وضاحت
جیسا کہ معلوم ھے کہ صدر اسلام کے بعد سے قبروں کے اوپر عمارتیں بنانا اور قبروں پر تختی لکھ کر لگانا رائج تھا، چنانچہ علامہ امین ۺ اس سلسلہ میں کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسد مبارک کو ایک حجرے میں دفن کیا گیا اور اگر قبرکے اوپر عمارت کا وجود جائز نھیں تھا تو پھراصحاب رسول اور سلف صالح نے اس حجرے کو کیوں نہ گرایا ،جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر تھی،اور نہ صرف یہ کہ اس حجرے کو نھیں گرایا بلکہ چند بار اس حجرے کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
[89]
اسی طرح ھارون الرشید نے حضرت امیر الموٴمنین علی ں کی قبر مبارک پر گنبد بنوایا، اور ایسی ھی دوسری عمارتیں مختلف قبروں پر بنائی گئیں، اور کسی نے بھی اعتراض نہ کیاجن کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ھے ۔
مجموعی طورپر قبروں گنبد وبارگاہ بنوانا تمام اسلامی فرقوں کی سیرت رھی ھے اور ابن تیمیہ اور اس کے مریدوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کی مخالفت نھیں کی، خود ابن تیمیہ نے بھت سی قبروں کے گنبد کی طرف اشارہ کیا ھے جو اس کے زمانہ میں لوگوں کی نظر میں محترم او رمشخص تھے، مثلاً مدینہ منورہ میں وہ گنبد جوجناب عباس (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچاکی قبر)پر تھا اس کے نیچے سات افراد یعنی، جناب عباس،امام حسن ، علی ابن الحسین (امام زین العابدین)، ابو جعفر محمد ابن علی (امام باقر) اور جعفر بن محمد (امام صادق) علیهم السلام دفن ھیں، کھتے ھیں کہ فاطمہ زھرا = کی قبر بھی اسی گنبد کے نیچے ھے اور امام حسین ں کا سر بھی یھیں دفن هوا ھے۔
[90]
ابن تیمیہ اور اس کے اصحاب کھتے ھیں کہ قبروں پر عمارت بنانے کی بدعت پانچویں صدی کے بعد پیدا هوئی ھے اور جس وقت بھی ان کو مسمار کرنے کا موقع آجائے اس کام میں ایک دن کی بھی تاخیر کرنا جائز نھیں ھے، کیونکہ یہ عمارتیں لات وعزّیٰ کی طرح ھیں بلکہ شرک کے لحاظ سے لات و عزّیٰ سے بھی کھیں زیادہ ھیں۔
[91]
قبروں پر صاحب قبر کے نام کی تختی لگانا آج تک رائج ھے ، کیونکہ ایسے شواہد موجود ھیں جن سے یہ ثابت هوتا ھے کہ سن ہجری کی ابتدائی صدیوں میں قبروں پر پتھر اور تختیاں لگائی جاتی تھیں۔
مثلاً مسعودی حضرت امام جعفر صادق ںکی وفات کا تذکرہ کرتے هوئے لکھتا ھے کہ آپ بقیع میں دفن ھیں جھاں آپ کے پدر بزرگوار اور جد امجد بھی دفن ھیں اور آپ کی قبر پر مرمر کا ایک پتھر ھے جس پر یہ عبارت لکھی ھے:
”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مِبُیْدِ الاُمَمِ وَمُحْیِ الرَّمَمِ، ہَذَا قَبْرُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ، وَقَبْرُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ وَقَبْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهم السَّلاٰمُ“
[92]
ابن جبیر (چھٹی صدی ہجری کا مشهور ومعروف سیّاح)کھتا ھے کہ بقیع میں جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر پر اس طرح لکھا هوا ھے:
”مَاضَمّ قَبْرُ اَحَدٍ کَفَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَد رَضِی اللّٰہُ عَنْها وَعَنْ بَنِیْها“
( فاطمہ بنت اسد کی قبر کے مانند کسی دوسرے کو ایسی قبر نصیب نھیں هوئی )
اسی طرح وہ لکھتا ھے کہ جناب بلال (حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موذن) کی قبر جو کہ دمشق میں واقع ھے، ان کی قبر پر جناب بلال کے نام کی تاریخ لکھی هوئی ھے اور ایک دوسری تاریخ لکھی هوئی ھے جس کی عبارت اس طرح سے ھے:
”ہَذَا قَبْرُ اَوْسِ بْنِ اَوْسِ الثَّقَفِیّ“
اور اسی طرح شہداء دمشق کی قبور پرقدیمی تاریخ لکھی هوئی ھے (ظاھراً اس کا مقصد تاریخ کا پتھر ھے) جس میں اس طرح لکھا هوا ھے:
”فِی ہَذَا الْمَوْضِع قَبْرُ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ“
ان کے نام بھی لکھے هوئے ھیں۔
[93]
اسی طرح سمهودی روایت کرتے ھیں کہ عقیل ابن ابی طالب نے گھر میں ایک کنواںکھودا ، اس کے دوران اس میں سے ایک پتھر نکلا جس پر اس طرح لکھا هوا تھا: ”قَبْرُ اُمِّ حَبِیْبَةِ بِنْتِ صَخْرِ بْنِ حَرْبٍ“جب جناب عقیل نے اس پتھر کو دیکھا تو انھوں نے اس کنویں کو بند کردیا اور اس کے اوپر ایک عمارت بنادی اسی طرح ایک اور پتھر دریا فت هوا جس پر لکھا هوا تھا: ”اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “ اور ایک قول کے مطابق بقیع سے ایک پتھر نکلا جس کے اوپر اس طرح لکھا هوا تھا : ”ہَذَا قَبْرُ اُمِّ سَلْمَةٍ زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “
[94]
سنن ابن ماجہ میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث ”نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَنْ یُکْتَبَ عَلَی الْقُبُوْرِ“ ذکر کرنے کے بعد اس طرح تحریر ھے کہ سِندی نے حاکم کا قول نقل کرتے هوئے کھا کہ اس نے اپنی کتاب مستدرک میں مذکورہ حدیث بیان کرنے کے بعد کھا کہ اس حدیث کی سند صحیح ھے لیکن اس پر عمل نھیں هو ا ھے اور تمام ائمہ کی قبور پر لکھا جاتا ھے اور یہ وہ کام ھے جس کو خلف (بعد والوں) نے سلف (اصحاب وتابعین) سے لیا ھے
[95] اور قبروں کے پتھروں پر لکھنے کے علاوہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے قبروںپر نشانی لگائی جاتی تھی جس طرح کہ خود پیغمبر اکرم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر کے عنوا ن سے نشانی لگایا۔[96]
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراھیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور ایک نشانی بنائی۔
[97]
اب رھی بات کسی کے لئے گوسفند ذبح کرنا تو اس سلسلہ میں بھی علامہ امین ۺفرماتے ھیں کہ کسی غیر خدا کے لئے اس نیت سے قربانی یا نحر کرنا کہ اس قربانی سے غیر خدا کا تقرب حاصل هو
[98] اور قربانی کرتے وقت خدا کے نام کے بجائے غیر خدا کا نام لیا جائے اور اس غیر خدا کو خدا کی طرح قرار دیا جائے ، تو یہ کام کفر اور شرک ھے، اور یہ اسی قسم کی قربانی ھے جس کو وھابیوں نے گمان کیا ھے کہ دوسرے اسلامی فرقے اسی کو انجام دےتے ھیں،جبکہ اس کا یہ گمان صحیح نھیں ھے اور حقیقت سے دور ھے، کیونکہ وہ قربانی جس کو مسلمان قبور کے نزدیک انجام دیتے ھیں وہ خدا کے لئے هوتی ھے اور اس قربانی کا قصد اس کے علاوہ کچھ اور نھیں هوتا کہ میں اس ذبح کو خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دیتا هوں اور اس کے گوشت کو فقراء اور خدا کے بندوں پر تصدق کرونگا اور اس کا ثواب صاحب قبر کے لئے ہدیہ کروں گا، اور اس طریقہ پر کی جانے والی قربانی صحیح اور بھتر ھے اور یھی قربانی خدا کی اطاعت شمار هوگی، چاھے اس کا ثواب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دیگر انبیاء علیهم السلام یا اپنے ماں باپ یا کسی دوسرے کو ہدیہ کرے، کیونکہ قربانی سے کسی مسلمان کا قصد بت پرستوں کی طرح نھیں ھے کہ وہ لوگ قربانی کو تقرب کا وسیلہ جانتے ھیں۔
اور نذر کے سلسلہ میں جواب بھی بالکل اسی طرح ھے جس کا ھم نے ابھی ذکر کیا ھے۔
قبور کے پاس چراغ اور شمع جلانے کے مسئلہ میںعرض ھے کہ جن روایات کے ذریعہ وھابی یہ ثابت کرتے ھیں کہ قبور پر چراغ جلانا حرام ھے، پھلی بات تو یہ ھے کہ ان روایات کی سند ضعیف ھے، اور اگر بالفرض ان کی سند کو صحیح مان بھی لیں کہ تو اس کا جائز نہ هونا یا اس وجہ سے ھے کہ قبروں پر شمع جلانے میں کوئی فائدہ تصور نھیں کیا جاسکتا، لہٰذا گویا شمع جلانا یعنی مال کو ضایع کرنا ھے، یا ان روایات کا مقصد غیر انبیاء اور اولیاء اللہ کی قبروں پر شمع جلانے کی ممانعت ھے۔
لیکن قبروں پر قرآن یادعا پڑھنے والوں کے لئے یا زائرین کی سهولت کے لئے یا ان لوگوں کے لئے جو پوری پوری رات قبروں کے پاس رھتے ھیں تو ایسے موارد کے لئے شمع جلانا نہ مکروہ ھے اور نہ حرام ، بلکہ نیک کام میں مدد کے عنوان سے ھے کیونکہ خداوندعالم نیکیوں میں مدد کرنے کا حکم دیتا ھے:” تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ“
دوسری بات یہ ھے کہ تِرمذی جناب ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک رات کسی قبر پرگئے تو آپ کے لئے وھاں چراغ روشن کیا گیا، اور عزیزی (شرح جامع صغیر) کے بقولقبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت وھاں کے لئے ھے کہ جھاںکو ئی زندہ اس سے کوئی فائدہ اٹھانے والا نہ هو۔
[99]
اس کی وضا حت کہ رافضیوں نے ھی قبور کی عبادت اور شرک کی ابتداء کی ھے اور قبروں پر مسجد کے بانی بھی یھی ھیں
افسوس کی بات تو یہ ھے کہ کبھی کبھی عقیدہ ،سلیقہ یا احادیث کے سمجھنے میں اختلاف ،تفرقہ، دشمنی اور تعصب کا سبب بن جاتا ھے اور اس صورت میںچا ھے مخالف کی دلیل کتنی ھی منطقی کیوں نہ هو ، اس کو قبول نھیں کیا جاتا، اور جو کچھ بھی وہ کھے اس کو غلط تصور کیا جاتا ھے، جس وقت سے شیعہ مذھب بعض وجوھات کی بناپر بھت سے اسلامی فرقوں کی نظر اعتراض کا نشانہ قرار پایا ھے، (جیسا کہ ھم نے اس کتاب میں چند مرتبہ بیان بھی کیا ھے) شیعوں کے معمولی سے کام کو بھی الٹا پیش کیا جا تاھے ، اور اس کے علاوہ مختلف تھمتیں لگانے میں بھی کوئی کمی نھیں کی جا تی۔
منجملہ زیارت کا مسئلہ جس پر ابن تیمیہ اور وھابیوں نے نامعلوم کتنے اعتراضات کر ڈالے ، جبکہ قبور کی زیارت مختلف اسلامی فرقے انجام دیتے آئے ھیں اور انجام دے رھے ھیں، اور مذاھب اربعہ کے بزرگوں کی بھت سی قبروں کا دوسری صدی کے بعد سے عام وخاص کی طرف سے احترام کیا جارھاھے اور ان کی زیارت هوتی آئی ھے۔
یھاں تک کہ آج بھی مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آنحضرت کے روضہ مطھر اور ضریح کے سامنے بھت سے لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبکر وعمر کی زیارت پڑھتے ھیں اور ان زیارتوں کے وھی جملے ھیں جن کو شیعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ کی ضریحوں کے پاس پڑھتے ھیں، عجیب بات ھے کہ یھی کام اگر دوسرے اسلامی فرقے انجام دیں تو ان پر اعتراض نھیں هوتا لیکن اگر یھی کام ھم انجام دیں تو کیونکہ شیعہ ھیں اس وجہ سے زیارت کو عبادت کہہ دیا جاتا ھے، اور اس زیارت کا کرنے والا مشرک کھلاتا ھے، معلوم نھیںشیعہ زیارتوں میں کیا کھتے ھیں جو دوسرے نھیں کھتے، یا کیا نھیں کھتے جو دوسرے کھتے ھیں۔
[100] اب رھی یہ بات کہ شیعہ حضرات نے ھی قبروں کی عبادت اور شرک کی بنیاد ڈالی ھے، اور قبروں پر مساجد بنانا شروع کی ھیں، جیسا کہ یہ بات شیخ عبد الرحمن محمد بن عبد الوھاب کے پوتے سے نقل هوئی ھے، موصوف فتح المجید کے حاشیے میں اس طرح کھتے ھیں کہ عبیدیوں (جو خود کو جھوٹ موٹ فاطمی کھتے ھیں) نے ھی سب سے پھلے قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شروع کی ، جیسا کہ قاھرہ شھر میں امام حسینںکے لئے ایک عظیم گنبد ، عمارت اور اس کے برابر میں ایک عظیم الشان مسجد بنائی۔
مذکورہ مطلب کے بارے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ قبور کی زیارت ، اسی طرح قبروں پر عمارت یا گنبد بنانا ، یہ کام شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ شروع ھی سے اسلامی فرقے اپنے بزرگوں کی قبروں پر بھترین عمارتیں بنایا کرتے تھے ان کے لئے بھت سی چیزیں وقف بھی کیا کرتے تھے اور ان کی زیارت کے لئے بھی جایا کرتے تھے اب بھی یہ سلسلہ جاری وساری ھے۔
بغداد میں ابوحنیفہ کی قبر پر ایک قدیمی بڑا اور سفید گنبد اب بھی موجود ھے، جس کی ابن جُبیر نے توصیف بھی کی ھے،
[101] اور آج بھی ابو حنیفہ کی قبر کا گنبدبھت خوبصورت ھے جس کی دور اور نزدیک سے ہزاروں لوگ زیارت کے لئے جاتے ھیں، اسی طرح احمد ابن حنبل کی قبر [102]اوربغداد میں شیخ عبد القادر جیلانی کی قبر ، اسی طرح مصر کے قرافہ شھر میں امام شافعی کی قبرمذاھب اربعہ کے بزرگوں کی بھت سی قبریں مختلف اسلامی ملکوں میں زیارتگاھیں بنی هوئی ھیں۔
نجد اور حجاز میں وھابیوں کے غلبہ سے پھلے بھی بھت سے گنبداور عمارتیں موجود تھیں جن کی زیارت کے لئے لوگ جایا کرتے تھے اور ان کے اوپر بھت زیادہ عقیدہ رکھتے تھے، لہٰذا یہ دعویٰ کرنا کہ قبروں کی زیارت کی ابتداء کرنے والے شیعہ ھیں باطل اور بے بنیاد ھے۔
اسی طرح قبروں پر اور ان کے اطراف میں عمارتیں بنانا بھی شیعوں سے مخصوص نھیں ھے، بلکہ شروع ھی سے یہ کام مختلف اسلامی فرقوں سے چلا آرھا ھے، اور قبروں پر عمارتوں کا رواج تھا:
ابن خلکان کھتا ھے: ۴۵۹ھ میں شرف الملک ابو سعد خوارزمی ،ملک شاہ سلجوقی کے مستوفی (حساب دار) نے ابو حنیفہ کی قبر پر ایک گنبد بنوایا ، اور اس کے برابر میں حنفیوں کے لئے ایک مدرسہ بھی بنوایا ، ظاھراً ابو سعد نے مذکورہ عمارت ”آلُپ ارسلان سلجوقی“ کی طرف سے بنوائی ھے
[103]
اسی طرح ”ابن عبد البِرّ“ (متوفی ۴۶۳ھ)کی تحریر کے مطابق ، جناب ابو ایوب انصاری کی قبر قسطنطیہ (اسلامبول) کی دیوار کے باھر ظا ھرھے اور لوگوں کی تعظیم کا مر کزھے اور جب بارش نھیں هوتی تو وھاں کے مسلمان ان سے متوسل هوتے ھیں۔
[104]
ابن الجوزی ۳۸۹ھ کے واقعات کو قلمبند کرتے هوئے کھتا ھے کہ اھل سنت مُصعب بن الزبیر کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں جس طرح شیعہ حضرات امام حسین ں کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں۔
[105]
ابن جُبیر، چھٹی صدی کا مشهور ومعروف سیاح اس طرح کھتا ھے کہ مالکی فرقہ کے امام، امام مالک کی قبر قبرستان بقیع میں ھے ، جس کی مختصر سی عمارت اور چھوٹا ساگنبد ھے اور اس کے سامنے جناب ابراھیم فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر ھے جس پر سفید رنگ کا گنبد ھے۔
[106]
مذاھب اربعہ کے بزرگوں کی قبروں پر گنبدهونا ، ان پر عمارتیں بنانا،ان کے لئے نذر کرنا ، وھاں پر اعتکاف کرنا ،ان سے توسل کرنا ،صاحب قبر کی تعظیم وتکریم کرنا او روھاں دعا کے قبول هونے کا اعتقاد رکھنا بھت سی تاریخی کتابوں میں موجود ھے اور اس وقت بھی قاھرہ، دمشق اور بغداد اور دوسرے اسلامی علاقوں میں ان کے بھت سے نمونے اور قبروں پر مراسم هوتے ھیں جنھیںآج بھی دیکھا جاسکتا ھے۔
لیکن یہ کہنا کہ شیعوں نے سب سے پھلے قبروں پرمسجدیں بنائی ھیں ، یعنی قبروں کو مسجد قرار دیا ھے تو اس سلسلہ میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے:
۱۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ھے لہٰذا مقبروں کو مسجد کے حکم میں جاننا ان کے عقیدوں کے مطابق نھیں ھے، (جبکہ ھم نے ابن تیمیہ کے عقائد میں اس بات کو بیان کیا ھے کہ امام مالک مقبروں میں نماز کو جائز جانتے تھے اور ابوحنیفہ اور دوسرے لوگ قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے)
۲۔ شیعہ حضرات جو مسجدیں قبروں کے پاس بناتے ھیں وہ مقبروں سے کچھ فاصلہ پر اور مقبروں سے جدا هوتی ھیں، وہ مسجد راٴس الحسینںجس پر بعض حضرات خصوصاً صاحب فتح المجید، شدت سے اعتراضات کرتے ھیں مقبرہ سے بالکل جدا ھے اور صرف مقبرہ کے ایک در سے مسجد میں وارد هوا جاسکتا ھے، یعنی نماز پڑھنے کی جگہ جدا ھے اور زیارت گاہ جدا ھے، خلاصہ یہ کہ جو مسجدیں شیعوں نے مقبروں کے پاس بنائی ھیں ان کا فاصلہ مسجد النبوی اور قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فاصلے سے زیادہ ھے۔
۳۔ قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ مختلف فرقے قدیم زمانہ سے قبروں کے پاس مسجدیں بناتے آئے ھیں، منجملہ ابن جوزی کی تحریر کے مطابق (محرم ۳۸۶ھ کے واقعات کے ضمن میں) اھل بصرہ نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک تازہ مردہ (ان کے عقیدے کے مطابق زُبیر بن العَوّام ) کو قبر سے نکالا اور اس کے بعد اس کو کفن پہنایا اور زمین میں دفن کردیا، اور ابوالمِسک نے اس کی قبر پر ایک عمارت بنائی اور اس کو مسجد قرار دیدیا۔
[107]اسی طرح بصرہ میں بھی طلحہ (جو کہ جنگ جمل میں قتل هوئے) کی قبر پر ایک گنبد بنایااور اس کے پاس ایک مسجد اورعبادتگاہ بھی بنائی گئی۔[108]
لیکن یہ کہنا کہ سب سے پھلے فا طمیوں نے قبر کے پاس (راٴس الحسینں) مسجد بنائی اس سلسلہ میں بھی دو چیزوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔ مَقریزی کی تحریر کے مطابق ، حضرت امام حسینںکا سر عسقلان سے شام لانا ۸جمادی الآخر ۵۴۸ھ بروز یکشنبہ ھے اور وھاں پر عمارت کا بننا ۵۴۹ھ میں تھا۔
[109]
اور یہ بات طے ھے کہ اس زمانہ میں فاطمی ختم هوتے جارھے تھے اور اس وقت کی باگ ڈور ان کے وزیروں کے ھاتھوں میں تھی اور اس زمانہ کا صاحب اقتداروزیر ”طلایع بن رُزّیک “ معروف تھا کہ خلیفہ وقت اس کی قید میں اسیر تھا، اور ان دونوں کے درمیان اس قدر جنگ وجدال تھی کہ خلیفہ طلایع کو قتل کرنے کے مختلف پروگرام بناتا رھا یھاں تک کہ ایک پروگرام کے تحت اس کو قتل کردیا۔
[110]
اور یہ طلایع وھی ھے جو حضرت امام حسین ںکا سر قاھر ہ لے کر آیا اور موجودہ جگہ لاکر دفن کیا۔
[111]
۲۔ لیکن جومسجد ”راس الحسین ںسے متصل ھے وہ کسی بھی وقت فا طمیوں سے مربوط نھیں رھی بلکہ سلسلہ فاطمی کے خا تمہ کے بر سوں بعد اور صلاح الدین ایوبی جو سادات کو نیست و نابود کرنے والا تھا اسی کے زمانہ میں اس کے وزیر قاضی فاضل عبد الرحیم (متوفی ۵۹۶ھ) کے ھا تھوں بنائی گئی اورمسجد کے برابر میں ایک وضو خانہ بنایا اور ایک سقاخانہ بھی بنوایا، اور بھت سی چیزوں کو وقف کیا۔
[112]
۸۔قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت
اس سے قبل ابن تیمیہ کے عقائد میں بیان هوچکا ھے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے بارے میں کھتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے مستحب هونے کے بارے میں کوئی حدیث وارد نھیں هوئی ھے، اور زیارت کے بارے میں جو احادیث وارد هوئی ھیں وہ سب غیر صحیح اور جعلی ھیں، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ان کی زندگی کی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ھے تو گویا اس نے بھت بڑی غلطی کی ھے۔
چنانچہ وھابی حضرات بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ھیں بلکہ ابن تیمیہ سے بھی ایک قدم آگے ھیں۔
خلاصہ یہ کہ وھابیوں کے یھاں زیارت نام کا کوئی عمل نھیں ھے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت تمام قبریں مسمار کردی گئیں اور روضہ رسول کو بھی اس کی حالت پر چھوڑ دیا گیا، اور اس وقت اس طرح ھے کہ کوئی بھی آپ کی قبر مطھر کے نزدیک نھیں هوسکتا ھے اور آپ کی قبر مطھر ھر گز دکھا ئی نھیں دیتی ۔
روضہ منورہ کے چاروں طرف دیوار ھے اور ھر طرف ایک حصے میں جالی لگی هوئی ھے اور ان جالیوں کے پاس وھاں کے شرطے (محافظ) کھڑے رھتے ھیں او راگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ کی جالی کے نزدیک هونا یا ھاتھ لگانا چاھتا ھے تو وہ روک دیتے ھیں، اور اگر کوئی شرطوں کی غفلت کی وجہ سے جالیوں کے اندر سے جھانک کر دیکھتا بھی ھے تو پھلے تو وھاں تاریکی نظر آتی ھے اور جب اس کی آنکھیں کام کرنا شروع کرتی ھیں تواندر دکھائی دیتا ھے کہ ایک ضخیم پردہ ھے جو قبر کے چاروں طرف زمین سے چھت تک موجود ھے لہٰذا قبر مطھر کو بالکل دیکھا نھیں جاسکتا۔
ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کا عقیدہ ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کرنا حرام ھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ردوسروںکی قبر میں فرق کے قائل هونے کے بارے میں ابن تیمیہ کے عقائد کی بحث میں تفصیل سے بیان هوچکا ھے لہٰذا تکرار کی ضرورت نھیں ھے۔
مرقد مطھر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے استحباب کے بارے میں وضاحت
یھاں پر ان چند حدیثوں کو بیان کرنا ضروری ھے جو قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے مستحب هونے پر دلالت کرتی ھیں اور وہ احادیث بھی جو دلالت کرتی ھیں کہ جو لوگ حضرت کو سلام کرتے ھیںآنحضرت ان کے سلام کا جواب دیتے ھیں، تاکہ معلوم هوجائے کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت سے متعلق عقیدہ ان تمام احادیث کے مخالف ھے جو خود اھل سنت کے طریقوں سے بیان هوئی ھیں۔
تقی الدین سُبکی (متوفی ۷۵۶ھ) نے کتاب ”شفاء السُقام فی زیارة خیر الانام “کے باب اول میں تقریباً پندرہ حدیثیں زیارت قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میںبیان کی ھیں، مثلاً:
۱۔ ”مَنْ زَارَنِی مُتَعَمِّداً کَانَ فِیْ جَوَارِیْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص اپنے ارادے اور قصد سے میری زیارت کرے ، ایسا شخص روز قیامت میرا پڑوسی اور میری پناہ میں هوگا)
۲۔ ”مَا مِنْ اَحَدٍ مِنْ اُمَّتِی لَہُ سَعَةٌ ثُمَّ لَمْ یَزُرْنِی فَلَیْسَ لَہُ عُذْرٌ“
(جو شخص قدرت رکھتے هوئے بھی میری زیارت نہ کرے تو اس کا کوئی عذر بھی قابل قبول نھیں ھے۔)
[113]
اسی طرح جناب نور الدین سَمُهودی نے اپنی معروف کتاب ”وفاء الوفاء باخبار المصطفیٰ ‘ ‘ میں پیغمبر اکرم کی زیارت سے مربوط فصل میں تقریباً ۱۷ حدیثیں بیان کی ھیں منجملہ ان کی دار قطنی اور بیہقی سے ابن عمر کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث کہ آپ نے فرمایا:
۳۔ ”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ“
(جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی مجھ پراس کی شفاعت واجب ھے)
سمهودی نے مذکورہ حدیث کی مختلف اسناد بیان کی ھیں۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث جس کو بزّازنے عبد اللہ بن ابراھیم غفاری سے اور انھوں نے عبداللہ ابن عمر سے اور انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاھے :
۴۔ ”مَنْ زَارَ قَبْرِیْ حَلَّتْ لَہُ شَفَاعَتِی“
(جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی تو اس پرمیری شفاعت جائز ھے)
اسی طرح ابن عمر سے طبرانی کی روایت کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۵۔ ”مَنْ جَاءَ نِی زَائِراً لاٰ تَحْمِلُہُ حَاجَةٌ اِلاّٰ زِیَارَتِی کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُوْنَ لَہُ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جو شخص میری زیارت کے لئے آئے او رکوئی دوسری غرض نہ رکھتا هو، تو مجھ پر روز قیامت اس کی شفاعت کرنا واجب ھے)
اسی طرح دار قطنی اور طبرانی ابن عمر سے روایت کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
۶۔ ”مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِیْ بَعْدَ وَفَاتِیْ کَانَ کَمَنْ زَارَنِیْ فِی حَیَاتِیْ“
(جو شخص میری وفات کے بعد حج کرے اور اس کے بعد میری زیارت کرے تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ھے)
اسی طرح ابن عدی ابن عمر کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ھیں :
۷۔ ”مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِی فَقَدْ جَفَانی “
(جو شخص حج بجالایا اور میری زیارت کے لئے نھیں آیا تو بتحقیق اس نے مجھ پر جفا کی)
اسی طرح دار قطنی نے حاطب سے روایت کی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
۸۔ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَکَانَّمَا زَارَنِی فِیْ حَیَاتِی“
(جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی)
اسی طرح ابو الفتوح سعید بن محمد الیعقوبی نے ابوھریرہ سے روایت کی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا :
۹۔ ”مَنْ زَارَنِیْ بَعْدَ مَوْتِی فَکَاَنَّمَا زَارَنِی وَاَنَا حَیٌّ وَمَنْ زَارَنِی کُنْتُ لَہُ شَہِیْداً اَوْ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
(جس شخص نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، اور جس شخص نے میری زیارت کی میں روز قیامت اس کا گواہ یا اس کا شفیع بنوں گا )
اسی طرح ابن ابی الدنیا نے انس بن مالک سے روایت کی ھے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
۱۰۔ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ کُنْتُ لَہُ شَہِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة“
[114]
(جو شخص مدینہ میں میری زیارت کرے ، روز قیامت میں اس کا گواہ اور شفیع هونگا)
۱۱۔ ” مَنْ زَارَنِیْ بِالْمَدِیْنَةِ مُحْتَسِباً کُنْتُ لَہُ شَہِیْداً وَ شَفِیْعاً یَوْمَ الْقِیَامَة“
[115]
(جو شخص ثواب کی خاطر مدینہ میں میری زیارت کرے تو روز قیامت میں اس کے نیک عمل کی شھادت او رگواھی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا)
نیز اسی طرح وہ دوسری روایتیں جن کو سمهودی نے حضرت امیر المومنینںاور ابن عباس اور بکر بن عبد اللہ سے نقل کیا ھے۔
صاحب کتاب” عمدة الاخبار“وھابیوں کی معتبر کتابوں سے نقل کرتے ھیں کہ سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت ان نیکیوں میں سے ھے کہ اگر کوئی فطرت سلیم رکھتا هو، اس میں شک نھیں کرسکتا، وہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت جن کی عظمت اور بزرگیقرآن مجید میں چند مرتبہ بیان کی ھے۔
اور اس کے بعد موصوف نے قرآن مجید کی وہ آیات ذکر کی ھیں جن میں آنحضرت کی عظمت بیان کی گئی اور اسی طرح چند وہ احادیث بھی بیان کی ھیںجو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مربوط تھیں اور اس کے بعد کھتے ھیں:
وہ دلیلیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے جائز هونے پر دلالت کرتی ھیں بھت زیادہ ھیں ، جیساکہ ھم نے بعض کی طرف اشارہ کیا اور ابوھریرہ سے مروی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
” قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ قبروں کی زیارت تمھیں آخرت کی یاد دلاتی ھے“۔
فضیلت زیارت قبور کی بحث کرتے هوئے موصوف کھتے ھیں کہ صالحین کے برابر میں دفن هونا مستحب ھے ۔
اسی طرح شب میں قبروں کی زیارت مستحب ھے، کیونکہ جناب مُسلِم نے جناب عائشہ سے روایت کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رات کے وقت قبرستان بقیع میں جایا کرتے تھے۔
[116]
آنحضرت کی وفات کے بعد آپ پر سلام بھیجنے کے بارے میں ابو داؤدصحیح سند کے ساتھ ابوھریرہ سے روایت کی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلاّٰ رَدَّ اللّٰہُ رُوْحِی حَتّٰی اَرِدَ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ“
(اگر کو ئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ھے،تو خداوندعالم میری روح پلٹا دیتا ھے تاکہ میں سلام کرنے والوں کو سلام کا جواب دوں)
[117]
مُنذری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے علم کے بارے میں روایت کی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”عِلْمِیْ بَعْدَ وَفَاتِی کَعِلْمِیْ فِی حَیَاتِیْ “
(میرا علم میری وفات کے بعد بھی ایسا ھی ھے جیسا میری زندگی میں ھے)
بیہقی کھتے ھیں کہ انبیاء علیهم السلام کی وفات کے بعد ان کی حیات کے ثبوت پر بھی بھت سی صحیح روایات موجود ھیں۔
[118]
۹۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت
آلوسی ، اگرچہ وھابیوں کی بھت زیادہ حمایت کرنے والے اور طرفدار ھیں، لیکن انھوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ھے، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت دوسرے تمام لوگوں سے مطلق طور پر بلند و بالاھے اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبر میں بھی زندہ ھیں، اور جو شخص بھی حضرت کو سلام کرتا ھے آنحضرت اس کے سلام کو سنتے ھیں، اور آپ کی وفات کے بعد کی زندگی شہداء کی زندگی سے روشن ترھے کیونکہ خداوندعالم قرآن مجید میں ان کی بھترین زندگی کے بار ے میں ارشاد فرماتا ھے:
< وَلاٰ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهم یُرْزَقُوْنَ>
[119]
” اور خبر دار راہ خدا میں قتل هونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو، وہ زندہ ھیں اور اپنے پرور دگار کے یھاں سے رزق پارھے ھیں“۔
اگرچہ ابن تیمیہ اپنے فتووں کے ضمن میں کھتے ھیں کہ قبر میں مردے بھی گفتگو کرتے ھیں اور دوسروں کی باتوں کو سنتے ھیں اور قبر میں ا ن سے سوال وجواب بھی هوتے ھیں۔
[120] لیکن اس کے باوجود جیسا کہ ھم نے ان کی کتاب ”الرد علی الاخنائی“سے یہ بات نقل کی تھی کہ وہ زیارت سے متعلق تمام حدیثوں کو جعلی اور ضعیف بتاتے ھیں، یھی نھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کھا کہ اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا وجود ان کی زندگی کے مثل ھے تو اس نے بھت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ھے۔اور اسی کے مثل بلکہ اس سے زیادہ سخت بات محمد بن عبد الوھاب اور اس کے پیروکاروں نے کھی، لہٰذا یھاں پر یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ آلوسی صاحب کا نظریہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے نظریہ کے مخالف ھے۔
حافظ وھبہ صاحب وھابیوں کے عقائد کے بارے میں ان کی طرف سے دفاع کرتے هوئے آنحضرت کی عظمت کے بارے میںکھتے ھیں، کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے تابع افراد کی طرف نسبت دی گئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف کراھت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی اور دیگر انبیاء کی عظمت گھٹاتے رھتے تھے، جس طرح کہ یہ نسبت ابن تیمیہ اور اس کے تابع افراد کی طرف بھی دی گئی ھے، اس نسبت کی وجہ یہ ھے کہ اھل نجد (وھابی) اس حدیث رسول پر اعتقاد رکھتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:
”لاٰ تَشُدُّوْا الرِّحَالَ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاَثةَ مَسَاجِدَ ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ ہَذَا، وَالْمَسْجِدُ الاَ قْصیٰ“
یعنی تین مسجدوں کے علاوہ سفر کرنا جائز نھیں : مسجد الحرام خانہ کعبہ، مسجد النبی ، اور مسجد الاقصی بیت المقدس۔
اسی حدیث کی بناپروہ انبیاء علیهم السلام اور صالحین کی قبور کی زیارت کو بدعت کھتے ھیں اور کسی بھی صحابی اور تابعین نے یہ کام انجام نھیں دیا ، او رپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اس کام کا حکم نھیں دیا ھے۔
اسی طرح اھل نجد (وھابی حضرات)نے قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسروں کی قبروں کے سامنے دعا کرنے، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یا دوسروں کی قبر کے پاس سجدہ کرنے ، ان کی قبروں پر ھاتھ پھیرنے ، او راپنے اوپر قبر کے اطراف کی مٹی ملنے، خلاصہ یہ کہ ھر اس کام کو جس میں استغاثہ کی بو آتی هو، ممنوع قرار دیدیا۔
تیسری بات یہ ھے کہ وہ قبروں کے اوپر بنے گنبدوں کے مسمار کرنے کا فتویٰ دیتے ھیں اور ان کے نزدیک قبر کے لئے کوئی چیز وقف کرنا بھی باطل ھے۔
چوتھے یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بُوصِیری کے ” قصیدہٴ بردہ“ پر اعتراض کرتے ھیں اور اس کا انکار کرتے ھیں، مثلاً یہ شعر:
”یَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ اَلُوذُبِہِ سِوَاکَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمِ“
(اے مخلوق خدا میں سب سے کریم، میں بڑی اور عظیم مشکلات کے وقت آپ کی پناہ گاہ کے علاوہ کوئی پناگاہ نھیں رکھتا)
اسی طرح یہ مصرع : ” وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمُ اللَّوْحِ وَالْقَلِمِ“
(اے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے علوم میں سے ، علم لوح وقلم بھی ھے )
اور یہ شعر:
”اِنْ لَمْ تَکُنْ فِیْ مَعَادِیْ آخِذاً بِیَدِیْ فَضْلاً وَاِلاّٰ فَقُلْ یَا زَلَّةَ الْقَدَمِ “
[121]
(اگر آپ نے روز قیامت اپنے فضل وکرم سے میراھاتھ نہ تھاما تو میرے پاوٴں لڑکھڑائیں گے۔)
کیونکہ یہ باتیں غلو اور بے هودہ ھیں جو قرآن اور احادیث صحیح کے خلاف ھیں، حافظ وھبہ اس کے بعد اس طرح کھتے ھیں کہ وھابیوں کا یہ بھی اعتقاد ھے کہ ان باتوں پر اعتقاد رکھنے والا شخص مشرک اور کافر ھے۔
یہ تھیں وہ چند چیزیں جن کی وجہ سے وھابیوں کے دشمنوں نے ا ن پر یہ تھمت لگائی کہ یہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کراھت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ، اسی طرح دوسری نسبتیں بھی دیں مثلاً وھابی یہ کھتے ھیں کہ ھمارا عصا پیغمبر سے بھتر ھے۔
حافظ وھبہ مذکورہ بحث کو آگے بڑھاتے هوئے کھتے ھیںکہ حقیقت یہ ھے کہ اھل نجد (وھابی حضرات) سب سے زیادہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کرتے ھیں لیکن غلو کو برا سمجھتے ھیں اور ھر طرح کی بدعت سے مقابلہ کرتے ھیں، اور کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت یہ ھے کہ انسان آپ کی بتائی هوئی ہدایتوں اور راہنمائیوں پر عمل کرے، لیکن بدعتوں کا انجام دینا اور دینی امور کوترک کرنا یا هوا وهوس کا پیچھا کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دین اسلام کی توھین ھے نہ یہ کہ اس کو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا نام دیا جائے۔
[122]
گویا حافظ وھبہ جیسے مشهور ومعروف اور جھاندیدہ شخص بعض افراطی اور متعصب وھابیوں کے غیر منطقی اور ناپسند عقائد کا دفاع کرنا چاھتے ھیں اور ان کو اس طرح بیان کرتے ھیں تاکہ سامنے والا ان کو اچھا سمجھے، اور لوگوں کو یہ بتائے کہ وھابیوں کی طرف یہ نسبتیں ان کے دشمنوں کی طرف سے دی گئی ھیں۔
۱۰۔سَلف صالح کے بارے میں وھابیوں کا عقیدہ
سلطان عبد العزیز بن سعود ،کا بادشاہ هونے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وھابی علماء میں بھی شمار هوتا تھا، چنانچہ مکہ معظمہ میں اس نے ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں لوگوں کے سامنے ایک مفصل تقریر کی جس میں کھا کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بھت جلد ھی میری امت کے ۷۳ فرقے هوجائیں گے اور ایک فرقہ کے علاوہ سب جہنمی هونگے، تو اس پر اصحاب نے سوال کیا وہ فرقہ کونسا ھے؟ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب کے راستہ پر چلیں گے“ اس کے بعد ابن سعود کھتے ھیں کہ خداوندعالم نے اپنے دین کی خلفائے اربعہ اور دوسرے سلف صالح کے ذریعہ تائید کی ھے۔
[123]
وھابی حضرات ، خلفائے اربعہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ یہ حضرات سلف صالح کے منتخب افراد ھیں، اور ان کی فضیلت بھی خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے ھے (یعنی سب سے افضل ابوبکر ان کے بعد عمر…) او رخلفاء اربعہ کے بعد ”عشرہ مبشرہ“
[124] کے باقی لوگ افضل ھیں،اور ان کے بعد اھل بدر (جنگ بدر میں شرکت کرنے والے حضرات) اور ان کے بعد ”اھل بیعت شجرہ“[125]افضل ھیں۔
تعجب کی بات تو یہ ھے کہ وھابی حضرات جس طرح کے فضائل اور مناقب حضرت علی ں کے بارے میں بیان کرتے ھیں کسی ایک صحابی حتیٰ خلیفہ اول کے بارے میں بھی بیان نھیں کرتے۔
[126]
محمد بن عبد الوھاب نے ، اپنی کتاب توحید میں کسی صحابی یا خلیفہ کے لئے کوئی منقبت بیان نھیں کی مگر یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خیبر میں حضرت علی ں کے لئے فرمایا تھا:
”کل میں علم اس کو دوںگا جو خدا ورسول کو دوست رکھتا هوگا او رخدا ورسول بھی اس کو دوست رکھتے هونگے، اور خداوندعالم نے فتح خیبر کو بھی اس سے مخصوص قرار دیا ھے“۔
[127]
اس حدیث کو ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ھے ،
[128] اور موصوف یہ بھی کھتے ھیں کہ یہ حدیث پیغمبر حضرت علیںکے ظاھری اور باطنی ایمان پر شھادت دیتی ھے اور اسی طرح اس سے خدا ورسول سے آپ کی دوستی ثابت هوتی ھے اور مومنین پر واجب ھے کہ حضرت علیںکو دوست رکھیں۔ [129]
۱۱۔اھل بیت پیغمبر علیهم السلام کے بارے میں
ابن تیمیہ اپنے فتووں میں کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر علی، فاطمہ حسن، اور حسین علیهم السلام پر اڑھائی او رفرمایا:
”اَللّٰهم ہٰوٴُلاٰءِ اَہْلُ بَیْتِی فَاْذهب الرِّجْسَ عَنْهم وَطَہِّرْهم تَطْہِیْراً “
[130]
(اے خدا یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے تمام برائیوں کو دور کرکے پاک وپاکیزہ قرار دے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ھے)
ابن تیمیہ ایک دوسری جگہ کھتے ھیں: کہ ھم ان لوگوں میں سے ھیں جو اھل بیت پیغمبر علیهم السلام کو دوست رکھتے ھیں اور روز غدیر خم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کا پاس رکھتے ھیں کہ آپ نے فرمایاتھا:
”میں تم کو اپنے اھل بیت کی یاد دلاتا هوں“ اور اس جملہ کی کئی مرتبہ تکرار بھی فرمائی تھی۔
[131]
اسی طرح ابن تیمیہ کھتے ھیں کہ اھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھت سے حقوق ھیں جن کی رعایت کرنا واجب ھے ، ان حقوق میں سے ایک حق یہ ھے کہ ان حضرات کو خمس اور غنیمت دیا جائے اور ان میں سے ایک حق یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان پر صلوٰت بھیجی جائے ،اور اسی طرح آل محمد( سلام اللہ علیھم )وہ ھیں جن پر صدقہ حرام ھے۔
[132]
اور اھل بیت علیهم السلام کے بارے میں آلوسی صاحب کھتے ھیں کہ ھمارا عقیدہ وھی ھے جو قرآن اور حدیث میں آیا ھے اور ھم ان فضائل اھل بیت علیهم السلام کو مانتے ھیں جو ان کی شان میں نازل هوئے ھیں، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اھل بیت علیهم السلام کی شان میں مبالغہ کرنے والوں کی مخالفت کرتے ھیں، آل پیغمبر علیھم السلام سے محبت اور دوستی ایمان کو معین کرنے والی ھے اور یھی حضرات خدا کے نور ھیں اور ان پر صلوٰت بھیجنا نماز کے صحیح هونے کی شرط ھے۔
اس کے بعد جناب آلوسی صاحب کھتے ھیں کہ نجد کے علماء او رحکام نے ھمیشہ یہ کوشش کی ھے کہ عوام الناس کو اس بات سے روکےں کہ جو کچھ آل پیغمبر اور اصحاب کے بارے میںواقعات پیش آئے ھیں ان کے بارے میں بحث وگفتگو نہ کریں تاکہ وہ تعصب نہ پیدا هو جو حق وحقیقت سے دوری کا سبب نہ بنے ، در حالیکہ وھابی حضرات اھل بیت علیهم السلام کی دوستی اور ان کی محبت میں غلو نھیں کرتے۔
[133]
شیخ عبد العزیز، جو مدرسہٴ پیشواے دعوت وھابی(یعنی محمد بن عبد الوھاب) ریاض کے مدرس تھے، وہ کھتے ھیں: کہ اھل بیت پیغمبر وہ حضرات ھیں جن پر صدقہ حرام ھے اور ان میں سب سے افضل علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیهم السلام ھیں ۔ اوراس کے بعد احمد بن حنبل کی روایت نقل کرتے ھیں جس کا خلاصہ یہ ھے کہ ” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چاد ر اپنے اھل بیت :علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین علیهم السلام پر اڑھائی اور اس آیت کی تلاوت کی :
< اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْهب عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً۔>
[134]
اور اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”اَللّٰهم ہٰوٴُلاٰءِ اَہْلُ بَیْتِی وَاَہْلُ بَیْتِیْ اَحَقُّ“
(خدا وندا ! یہ میرے اھل بیت ھیں اور میرے اھل بیت دوسر وں سے زیادہ اھل حق اور شائستہ تر ھیں۔)
لہٰذا، اھل بیت سے دوستی اور ان سے محبت کرنا ھم پر واجب ھے، یہ حضرات ھی پیغمبر اکرم کے اقرباء اور رشتہ دار ھیں، اس کے علاوہ اسلام میں سابقہ بھی زیادہ رکھتے ھیں، اور انھوں نے دین کو پھیلانے میں بھت سے مصائب کو برداشت کیا ،وغیرہ وغیرہ ، لہٰذا ان سے دوستی اور محبت کرنا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام اور قرآن وسنت کے احکامات کی پیروی کرنا ھے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:
< قُلْ لاٰ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلاّٰ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی۔>
[135]
”(اے میرے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نھیں چاھتا علاوہ اس کہ میرے اقرباء سے محبت کرو“۔
۱۲۔ اصول دین اورفروع دین
آلوسی کے بقول وھابیوں کی نظر میں اصول دین وھی ھیں جو مذھب اھل سنت والجماعت کے ھیں اور ان کا طریقہ وھی سَلَف صالح (اصحاب پیغمبر او رتابعین) کا طریقہ ھے۔وہ آیات اوراحادیث کوظاھر پر حمل کرتے ھیں، اس کے حقیقی معنی کو خدا پر چھوڑدیتے ھیں، اور ان کا عقیدہ یہ بھی ھے کہ خیر وشر صرف خدا کے ارادہ پر منحصر ھے ۔ بندہ اپنے افعال کو خلق کرنے پر (بھی) قادر نھیں ھے۔ ثواب اور جزا ،خدا کے فضل وکرم کی بدولت ھے ۔کیفر و عذاب اس کے عدل کے مطابق ھے، اور ھمارا اعتقاد یہ ھے کہ روز قیامت خدا کا دیدار هوگا۔
[136] لیکن فروع دین میں ،امام احمد ابن حنبل کے تابع ھیں ، اور مذھب اربعہ میں سے کسی پر کوئی اعتراض نھیں کرتے، لیکن دوسرے مذھب مثلاً شیعہ اور زیدیہ کی سخت مخالفت کرتے ھیں۔
نیز اگر ان کے لئے یہ بات مسلّم هوجائے کہ کوئی مسئلہ اھل سنت کے کسی ایک مذھب کا (غیر از حنبلی) تائید شدہ ھے او راس کے بارے میں قرآن مجید یا غیر منسوخ سنت سے نص وارد هوئی ھے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اس سے مضبوط معارض بھی نھیں ھے، تو اس مسئلہ میں اسی مذھب کی پیروی کریں گے اور اس میںاحمد ابن حنبل کے مذھب کی پیروی نھیں کریں گے۔
وھابی حضرات کسی کے مذھب کے بارے میںنہ تفتیش کرتے ھیں اور نہ ھی تحقیق کرتے ھیںمگر یہ کہ کسی مذھب کا کوئی کام مذاھب اربعہ کے بطور آشکار مخالف هو، اسی طرح بعض مسائل میں اجتھاد کو قبول کرتے ھیں،
[137] (یعنی بعض مسائل میں مقلد هو اور بعض مسائل میں مجتہد ) ، چنانچہ ابن سعود اصول دین اور فروع دین کے بارے میں کھتا ھے کہ ھم لوگ اصول دین میں قرآن کریم کے تابع ھیں اور فروع دین میں امام احمد ابن حنبل کے مذھب کے پیرو ھیں ، اور کسی کو بھی دینی امور میں اپنی رائے پر عمل کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔ [138]
۱۳۔ قرآن و حدیث کے ظاھر پر عمل کرنااور تاویل کی مخالفت[139]
ابن تیمیہ ، جس کے نظریات اور فتووں پر وھابیوں کی بنیاد رکھی گئی ھے کھتے ھیں : تمام لوگوں پر خدا اور اس کے رسول کے کلام کو اصل قرار دینا اور اس کی پیروی کرنا واجب ھے ، چاھے وہ ان کے معنی کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اسی طرح لوگوں کو چاہئے کہ قرآنی آیات اور کلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد اور ایمان رکھیں، چاھے اس کے حقیقی معنی کو نہ سمجھتے هوں،اور خدا و رسول اللہ کے کلام کے علاوہ کسی دوسرے کے کلام کو اصل قرا ر دینا جائز نھیں ھے، اور جب تک غیر خدا ورسول کے کلام کے معنی معلوم نہ هوجائیں ان کی تصدیق کرنا واجب نھیں ھے ، وہ کلام اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے موافق ھے تو قبول ورنہ باطل او رمردود ھے۔
[140]
حافظ وھبہ اس سلسلہ میں کھتے ھیں:وھابیوں کا اعتقاد یہ ھے کہ اسلام کے صحیح عقائد جس طرح سے قرآن وسنت میں وارد هوئے ھیں انھیں اسی طرح سے باقی رکھا جائے ، اور اس میں کسی طرح کی کوئی تاویل کرنا جائز نھیں ھے۔
علمائے نجد کی کتابیں ان لوگوں کے نظریات کی ردّ سے بھری هوئی ھیں جنھوں نے تاویل کا سھارا لیا ھے ، یا جو لوگ دینی عقائد کو فلسفی نظریات سے مطابقت کرتے ھیں،
[141]
(مقصود علمائے علم کلام ھیں)۔ وھابیوں کے قرآن وحدیث کی تاویل کی مخالفت میں ھم نے پھلے آلوسی کا نظریہ بیان کیا کہ موصوف قرآن کی آیات اور احادیث کو ان کے ظاھر پر حمل کرتے ھیں، اور ان کے حقیقی معنی کو خداوندعالم پر چھوڑدیتے ھیں، نیز خدا کے دیدار کے مسئلہ میں ھم یہ بات عرض کر چکے ھیں کہ وھابی حضرات بعض آیات قرآنی کے ظاھر کی وجہ سے خدا کے دیدار کے قائل ھیں یھاں تک کہ خداوندعالم کے لئے اعضائے(بدن)کے قائل ھیں۔
۱۴۔اجتھاد اور تقلید
حافظ وھبہ ، ابن تیمیہ کی دعوت کردہ چیزوں کے سلسلہ میں اس طرح کھتے ھیں: ابن تیمیہ کے عقیدہ کے مطابق اجتھاد کی دونوں قسمیں کھلی ھیں ، اور انھوں نے متعصب مقلدوں کے لئے اعلان جنگ کیا ھے، اس کے بعد حافظ وھبہ کھتے ھیں کہ محمد بن عبد الوھاب کے نظریات کی بنیاد اور اساس ابن تیمیہ کا یھی نظریہ تھا۔
[142]
اور جیسا کہ یہ بات معلوم ھے اور اسی بات کو آلوسی نے بھی نقل کیا ھے کہ وھابی حضرات خود کو اصول میں مذھب اھل سنت کے تابع اور فروع دین میں مذھب احمد ابن حنبل کے تابع سمجھتے ھیں، اور اھل سنت کے دوسرے مذاھب سے تقلید کو منع نھیں کرتے اور خود بھی بعض مسائل میں اھل سنت کے دوسرے مذاھب (حنبلی مذھب کے علاوہ) کی تقلید کرنے میں کوئی حرج نھیں مانتے، اسی طرح اجتھاد میں ”تبعیض“ کے قائل ھیں یعنی انسان بعض مسائل میں اجتھاد کرے اور بعض مسائل میں تقلید کرے۔
[143]
حافظ وھبہ کھتے ھیں کہ نجدی علماء اپنی علمی حیات میں گذشتہ علماء کی تحریرں پر اعتماد کرتے ھیں، (یعنی اپنی طرف سے دخل وتصرف نھیں کرتے) اسی بناپر علماء کی کتابیں او ررسالے،منجملہ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے بیٹوں کی کتابیں اسلوب و بیان کے اعتبار سے زیادہ علمی نھیں ھیں اور مصدرو مآخذکی حیثیت والی کتابیں بھی نایاب تھیں؟یہ لوگ مطلق اجتھاد کا دعویٰ نھیں کرتے بلکہ اپنے کو احمد ابن حنبل ، ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیّم کا مقلد سمجھتے ھیں۔
[144]
وھابی حضرات کا ایک عقیدہ یہ بھی ھے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں کوئی نص (قرآنی آیات یا احادیث) موجود هو تو پھر وھاں تقلید جائز نھیں ھے، چاھے وہ تقلید احمد ابن حنبل کی هو یا ابوحنیفہ ، شافعی یا امام مالک کی هولیکن اگر کسی مقام پر کوئی نص موجود نہ هو تو احمد ابن حنبل کی تقلید کو جائز جانتے ھیں، یعنی احمد ابن حنبل کا نظریہ ایک ایسی اصل ثابت ھے کہ جب کوئی دلیل نہ هو تو پھر ان کی طرف رجوع کیا جاتا ھے۔ یہ اصل اھل سنت کے نزدیک مثل قیاس ھے اور شیعوں کے نزدیک مثل عقل ھے، اس صورت میں وھابی ایک ھی زمانہ میں مجتہد بھی هوتے ھیں اور مقلد بھی۔
ملک عبد العزیز نے ۱۳۵۵ھ میں مکہ معظمہ میں اپنی تقریر میں اس طرح کھا کہ ھمارا مذھب دلیل کا پیرو ھے جب تک دلیل موجود ھے، او راگر دلیل موجود نہ هو تو اجتھاد کی باری آتی ھے اور اس صورت میں ھم احمد ابن حنبل کے اجتھاد کی پیروی کرتے ھیں۔
[145]
۱۵۔جوچیزیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کے زمانہ میں نھیں تھیں۔۔۔
حافظ وھبہ کھتے ھیں: جو چیزیں قدیم زمانہ سے نجدی علماء کے پاس موجود ھیں وہ ان کی بھت زیادہ پابندی کرتے ھیں، خصوصاً وہ چیزیں جو دین سے متعلق ھیں ، چنانچہ ان کا عقیدہ یہ ھے کہ عقائد جس طرح سے قرآن وحدیث میں بیان هوئے ھیں ان کو اسی حالت پر باقی رکھنا چاہئے اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کرنا جائز نھیں ھے۔
وھابی حضرات کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ(جو بھترین زمانہ تھا) میں جو چیزیں موجود تھیں وھی سب کے لئے کافی ھیں اسی طرح ھمارے لئے بھی کافی ھیں، قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ وھابی علماء کی کتابوں میں سے وہ کتابیں بھی ھیں جو ان فرقوں کی ردّ میں لکھی گئی ھیں جو تاویل کا سھارا لیتے ھیں یا اپنے دینی عقائد کو فلاسفہ کے نظریات سے تطبیق دیتے ھیں۔
وھابی لوگ تصویر لینے کو بھی حرام کھتے ھیں (اور ظاھراً تصویر کی دونوں قسموں کو حرام جانتے ھیں کہ چاھے وہ ھاتھ کے ذریعہ بنائی جائے یا کیمرے کے ذریعہ فوٹو لیا جائے)( (فِیلبی کھتا ھے کہ جب ایک بھت بڑے عالم دین نے قاھرہ جانا چاھاتو مصر کی حکومت سے بھت زیادہ اصرار کیا کہ ان کو پاسپورٹ پر فوٹو لگانے سے معاف کرے۔
[146]
یہ لوگ فلسفہ اور منطق پڑھنے کو بھی حرام قرار دیتے ھیں، اسی لئے نجدی علماء میں منطق اور فلسفہ سے آشنائی رکھنے والے بھت کم ملےں گے۔
یھاں تک کہ لغت عرب اور ادبیات عرب میں ماھر افراد بھی بھت کم ھیں اسی طرح علوم بیان ، اشتقاق اور بلاغت کے جاننے والے بھی بھت ھی کم ملیں گے، ان کی معلومات تو صرف تاریخی (تاریخ سیرہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیرہ خلفاء راشدین تک محدود)هوتی ھے، اور تاریخ میں بھی دوسری تاریخو ںسے کوئی مطلب نھیں هوتا، چاھے وہ قدیمی تاریخ هوں یا تاریخ اسلام۔ جزیرة العرب میں کوئی نئی چیز کشف نھیں هوئی ھے فقط بادشاهوں اور شاہزادوں کے خاندان اس فکر میں رھتے ھیں کہ آج کل کی کتابیں نئے انداز کی هوں تاکہ ان کو پڑھا جائے وہ یہ چاھتے ھیں کہ نئی کتابوں کے ذریعہ تاریخ اور قانون اسی طرح لغت عرب کے آداب وغیرہ سے آگاہ هوں۔
[147]
۱۳۴۹ھ میں علماء نجدنے فریاد وفغاں بلند کی اور مکہ معظمہ میں ایک جلسہ رکھا گیا جس میں ”ادارہ معارف“(محکمہٴ تعلیم)مکہ پر اعتراض کیا گیا اور اس کے خلاف قرار داد پاس کی ، ان سب کاموں کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ ادارے نے مدارس کے ”کورس“ میںانگریزی اور جغرافیہ کو شامل کر لیا تھا جس میں زمین کے گھومنے او راس کے کرویت هونے کی باتیں ھیں۔
[148]
جس وقت” شریف غالب “ ۱۲۲۱ھ میں ( جیسا کہ بعدکی تفصیل سے معلوم هوگا)وھابیوں کے مقابلہ میں تسلیم هوا،او راس پر یہ شرط رکھی گئی کہ جو کچھ بھی تیسری صدی کے بعد سے مسلمانوں میں پیدا هوا ، ان سب کو چھوڑدے ، جن میں سے بعض چیزیں یہ ھیں :
اپنی مشکلات کے دورکرنے کے لئے غیر خدا کی طرف متوجہ هونا، چاھے وہ زندہ هوں یا مردہ، اسی طرح قبروں پر گنبد بنانا ، قبروں کو بوسہ دینا یا قبروں کے سامنے خشوع وخضوع کرنا اورقبر میں سوئے مردوں کو پکارنا، قبروں کے اطراف طواف کرنا، اسی طرح قبروں کے لئے نذر اور قربانی کرنا ، قبور پر اجتماعات کرنا یا عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ زیارت کرنا۔
[149]
وھابی حضرات صرف اسی چیز کو قبول کرتے ھیں جو سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق هو، اسی طرح جو چیزیں خلفائے راشدین اور صحابہ وتابعین یا وہ لوگ جو اجتھاد کے درجہ تک پهونچ گئے ھیں (یعنی تیسری صدی کے آخر تک) ان کے موافق هو، ان ھی کو قبول کرتے ھیں، اسی بناپر ان کا عقیدہ یہ ھے کہ جو چیزیں تیسری صدی کے بعد وجود میں آئی ھیں وہ سب بدعتیں اور حرام ھیں او ران سب کوختم اور نیست ونابود کرنا واجب ھے۔
آلوسی کی تحریر سے یہ بات معلوم هوتی ھے کہ وھابی حضرات دوسرے فرقوں کی کتابوں کو باطل جانتے تھے اسی وجہ سے ان کو نابود کردیتے تھے۔آلوسی اس سلسلہ میں کھتے ھیں :
یہ کام ”عرب کے بدو اور جاھل لوگ“کیا کرتے تھے ، جن کو ایسے کاموں سے روکا جاتا تھا۔
[150]
تمباکو نوشی حرام ھے
جس وقت وھابیوںنے حجاز پر غلبہ حاصل کیا اس سے پھلے مکہ میںتمباکو نوشی رائج تھی، صاحب تاریخ مکہ کھتے ھیں کہ ۱۱۱۲ ھ میںتمباکو مصر سے مکہ لایا گیا اور اسی وقت سے تمباکو نوشی کا آغاز هوگیا، اور کچھ ھی مدت میںمکہ میں کُھلے عام تمباکو نوشی هونے لگی۔
۱۱۴۹ھ میں شریف مسعود (شریف مکہ) نے تمباکو نوشی کی شدید مخالفت کی اور حکم دیا کہ مکہ معظمہ کے بازاروں اور قهوہ خانوں میں کوئی تمباکو نوشی نہ کرے، اور شھر کے حاکم کو بھی حکم دیا کہ اگر کوئی شخص کھلے عام تمباکو نوشی کرتا هوا پایا جائے تو اس کو سزا دی جائے، حاکم نے تمام گلی کوچوں میں پھرہ لگادیا کہ کوئی تمباکو نوشی نہ کرے، لیکن وہ سب اپنے گھروں میں جمع هوکر تمباکو نوشی کیا کرتے تھے تاکہ حاکم ان کو نہ دیکھ سکے۔
شریف مسعود نے تمباکو نوشی سے کیوں منع کیا اس کی دو وجھیں تھیں، ایک تو یہ کہ ان کا خود کا عقیدہ یہ تھا کہ تمباکو نوشی حرام ھے ، او ردوسری وجہ لوگوں نے یہ بتائی ھے کہ علماء او ربزرگان دین کے سامنے تمباکو نوشی ایک طرح سے بے احترامی ھے، لہٰذا اس نے تمباکو نوشی کو حرام قرار دیدیا۔
بھر حال مکہ کے شریف غالب نے بھی ۱۲۲۱ھ میں تمباکو نوشی کو ممنوع قرار دیا۔
[151]شایدمکہ کے شریفوں نے تمباکو نوشی کو مذھبی پھلو کی بنا پر ممنوع قرار نہ دیاهو، لیکن وھابیوں نے جب حجاز پر قبضہ کرلیا تو تمباکو نوشی کو اس غرض سے ممنوع قرار دیا کہ تمباکو نوشی شروع کی تین صدیوں میں نھیں تھی لہٰذا تمباکو نوشی حرام ھے۔ اسی وجہ سے نجد کے حکّام تمباکو نوشی سے روکنے کا حکم دیتے تھے، مثلاً سعود بن عبد العزیز نے ۱۲۲۲ھ میں پانچویں سفر حج میںیہ اعلان کرادیا کہ مکہ کے بازاروں میں تمباکو نوشی ممنوع ھے ، اسی طرح سعود نے یہ حکم بھی دیا کہ مکہ کے بازاروں میں کچھ لوگ نماز کے وقت یہ کھتے پھریں،”الصلوٰة، الصلوٰة“[152]
اسی طرح ترکی بن عبد اللہ (سعودی حاکم) نے نجد کے لوگوں کو ایک نصیحت آمیز خط لکھا جس میں گھٹیا زندگی اور تمباکو نوشی کے لئے ایک جگہ جمع هونے سے منع کیا گیا تھا۔
[153]
علامہ امین عامِلی اس طرح فرماتے ھیں :حجاز میں تمباکو نوشی کو برا سمجھا جاتا تھا یھاں تک کہ تمباکو نوشی کرنے و الے کی پٹائی بھی کی جاتی تھی اور بعض اوقات تو قید خانہ میں بھی جانا پڑتا تھا، اسی موقع پر حجاز کے کسٹم آفس نے تمباکو کے لئے ٹیکس مقرر کر دیا تھا۔
[154]
عبد العزیز کے زمانہ میں نجد کا سفر کرنے والا ”امین ریحانی“ اس طرح کھتا ھے کہ نجد میں بلکہ ابن سعود کی تمام حدود میں تمباکو نوشی ممنوع ھے، کوئی بھی ”اَحساء“، ”عارِض“ اور”قصِیم“ کے بازاروں میں کھلے عام تمباکو نوشی او رسیگریٹ وغیرہ نھیں پی سکتاتھا ، لیکن احساء اور قصیم میں گھروں کے اندر تمباکو نوشی هوتی ھے۔
لیکن وھاں کے شیوخ لاپرواھی کرتے ھیں میں نے خود ریاض میں دیکھا ھے کہ بعض لوگوں نے بادشاہ کے نزدیکی لوگوں کے سامنے مخفی طور پرسگریٹ پی ، جس کی وجہ یہ ھے کہ یہ لوگ متعصب علماء کی طرح تمباکو نوشی کی ممانعت کے قائل نھیں ھیں۔
[155]
ابن سعود ، غیروں کے سیگریٹ وغیرہ پینے کے سلسلہ میں تجاھل کرتا تھا اور ان کی کوئی مخالفت نھیں کرتا تھا۔
[156]
اس کے بعد سے سعودی عرب کے اخبارات بھی تمباکو نوشی کی حرمت کے بجائے اس کے نقصانات کو بیان کرتے تھے اور یہ لکھتے تھے کہ لوگوں کو سگریٹ وغیرہ بالکل نھیں پینا چاہئے یا کم سے کم پینا چاہئے۔
[157]
ان کے نزدیک کچھ اور بدعتیں
محمد بن عبد الوھاب کا پوتا اپنی کتاب ”ہدیہ السنیہ“میں کھتا ھے کہ ھر وہ چیز جو پیغمبر اکرم کے زمانہ میں نھیں تھی اور تیسری صدی ہجری کے بعد پیدا هوئی ھے بدعت او رناپسند ھے،
[158]مثلاً چاروں مذھبوںکے اماموںکے لئے مسجدوں میںچار محراب بنانا، اورماذنہ سے شب جمعہ او رروز جمعہ نیز شب دوشنبہ میںمُردوں کو یادکرنا، اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا، اور گلدستہ اذان پر قرآن کی تلاوت کرنا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجنا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روز ولادت پر آپ کی سیرت کا جلسہ کرنا، نیز آپ کے ولادت کے موقع پرمترنم لہجہ میں صلوٰت اور قصیدہ پڑھنا، اور مردو ں کے لئے نماز کے بعد فاتحہ پڑھنا، یا جنازوں کو لے جاتے وقت فاتحہ پڑھنا، اسی طرح قبروں پر پانی چھڑکنا، اور ذکر خدا میں اپنی آواز بلند کرنا، عبادتگاهوں اور تکیوں میں اسلحہ اور علم وغیرہ لٹکانا، ان تمام چیزوں کو وھابی حضرات حرام جانتے ھیں۔
”فتنة الوھابیة“ نامی کتاب میں اس طرح موجود ھے کہ وھابی لوگ اذان کے بعد پیغمبر اکرم پر صلوٰت بھیجنے سے منع کرتے ھیں ، چنانچہ ایک نابینا شخص نے اس ممانعت کے بعد بھی اذان کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰت بھیجی تو اس کو محمد بن عبد الوھاب کے پاس لے گئے اس نے اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔
[159]
کٹّر وھابیوں کے نزدیک دوسری حرام چیزیں یہ ھیں : لمبی موچھیں رکھنا، کپڑوں کوقدیم زمانہ کے معمولی اندازہ سے لمبا پہننا، یہ لوگ سب سے پھلے لمبی مونچھوں والے اور لمبے لباس والے کو تذکر دیتے تھے اور اس کے بعد جس مقدار میں بھی مونچھیں یا اس کا لباس لمبا دکھائی دیتاتھا اس کو کاٹ دیا کرتے تھے۔
[160]
ھم انشاء اللہ فرقہ اخوان کی بحث کے ضمن میں بیان کرےں گے کہ یہ لوگ سروں پر عقال (وہ ریسمان جو عرب اپنے سر پر چادر وغیرہ کو باندھنے کے لئے باندھتے ھیں) باندھنے کو جائز نھیں جانتے، اسی طرح نئی ٹکنالوجی کے استعمال کو بھی ممنوع قرار دیتے ھیں جیسے ٹیلی فون یا ٹیلی گراف وغیرہ۔
کسی چیز میں ”اصل“ حرمت ھے یا اباحت
وھابیوں اور دوسرے فرقوں میں ایک اھم فرق یہ ھے کہ دوسرے فرقے اصل اباحت پر عمل کرتے ھیں یعنی ھر اس چیز کو حلال او رمباح جانتے ھیں جس کے بارے میں قرآن مجید یا سنت نبوی میں اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہ هو، لہٰذا چائے یا قهوہ کا پینا، یا انگریزی ٹماٹر اور آلو کا کھانا جائز ھے اسی طرح وہ جدید چیزیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا اصحاب کے زمانہ میں موجود نھیں تھی یا ان سے استفادہ نھیں کیا جاتا تھا ان سب کا استعمال جائز ھے کیونکہ ان کی حرمت کے بارے میں کوئی دلیل نھیں ھے۔
لیکن وھابی حضرات مذکورہ چیزوں میں اصل حرمت کو معتبر جانتے ھیں اور کھتے ھیں کہ ھر وہ چیزحرام ھے جس کے بارے میں حلال اور مباح هونا معلوم نہ هو ، لہٰذا ان چیزوں کا انجام دیناجائز نھیں ھے۔
چنانچہ اسی اصل کی بناپر ھر نئی چیز کی مخالفت کیا کرتے تھے یھاں تک کہ بادشاہ کے گھر کے ٹیلی فون کے تار وغیرہ بھی کاٹ ڈالے، اور مدارس میں جغرافیہ کی تعلیم کی مخالفت کی، اور اسی طرح کے دوسرے مسائل جن کے بارے میں اس کتاب کے آٹھویں باب ”جمعیة الاخوان“ میں توضیح دی گئی ھے۔
گلد زیھر کے قول کے مطابق، وھابی لوگ ان چیزوں کو بھی حرام جانتے ھیں ، جن کو مذاھب اربعہ کے پیروکاروں نے مباح اور مستحب جانا ھے، لہٰذا یہ لوگ اھل سنت کے حدود سے خارج هوگئے اور ان کے کارنامے صدر اسلام کے خوارج کی طرح ھیں۔
گلد زیھر ، جو خود وھابیوں کا طرفدار ھے وھابیوں کی اھل سنت سے جدائی کو ثابت هونے کے سلسلہ میں اپنی گذشتہ باتوں کو اس طرح آگے بڑھاتا ھے:بارهویں عیسوی صدی (چھٹی ہجری صدی) سے تمام اھل سنت غزالی کی بات کو آخری بات او رسنی مذھب کا آخری فیصلہ سمجھتے ھیں لیکن وھابی حضرات اپنی فقھی اور کلامی بحثوں میں غزالی کی باتو ںکی مخالفت کرتے ھیں، اور یہ مخالفت ابھی بھی(گلد زیھر کا زمانہ بیسوی صدی کے شروع کا زمانہ) جاری ھے۔
[161]
چند ملاحظات
وھابیوں کے عقائد کی بحث کے اختتام پر چند نکتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے ، تین ملاحظات خلاصةً پیش خدمت ھیں:
ھر وہ چیز جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کے زمانہ میں (پھلی تین ہجری صدیوںمیں) نھیں تھی اور بعد میں پیدا هوئی وہ سب حرام اور بدعت ھے،۔ واقعاً اگر ایسا ھی عقیدہ هو تو یہ چیز دین اسلام میں انجماد کا سبب ھے جو دین مبین اسلام کی حقیقت اور اس کے جاودانی هونے سے ھم آہنگ نھیں ھے۔
وہ دین جو جدید علم اور ٹکنالوجی اور نئی نئی ایجادات سے ھم آہنگ نہ هو کس طرح عالمی اور جاودانی هوسکتا ھے؟!
یہ وہ مطالب ھیں جن پر وھابی مذھب کے بارے میں تحقیق کرنے والوںنے اپنی اپنی کتابوں میں اشارہ کیا ھے۔
اس سلسلہ میں اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں وھابیت کی طرف مائل هونے والے افراد نے ان چیزوں پر اعتراضات کئے ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
آلوسی جو مذھب وھابی کے پکے طرفداروں میں ھیں، وہ حکومت سعود بن عبد العزیز کی شرح کرتے هوئے اس طرح کھتے ھیں:
سعود نے اگرچہ عرب کی بڑی بڑی شخصیتوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرلیا تھا، لیکن اس نے لوگوں کو حج بیت اللہ الحرام سے روکا، اور سلطان (سلطان عثمانی) پر خروج کیا اور فرقہ وھابی کے علاوہ دوسرے اسلامی فرقہ کو کافر کہنے میں غلو کیا، اور بھت سے اسلامی احکام میں بھت شدت اور سخت گیری کی ، چنانچہ اس کے زمانہ میں نجدی علماء اکثر امور کو ظاھر پر حمل کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص انصاف سے کام لے تو نجدی علماء اورعوام الناس کا مسلمانوں سے جنگ وجدال کو جھاد کا نام دینے اور مسلمانوں کو حج سے روکنے سے قطع نظر ، عراق اور سوریہ کو لوگوں کی غیر خدا کی قسم کھانے، اور صالحین کی قبروں کو سونے اور چاندی سے زینت کرنے، نیزوھاں پر نذر کرنے ، یا اس طرح کی اور دوسری چیزیں جن کو شارع مقدس نے ممنوع قرار دیا ھے ان سب کو چھوڑکر اسے درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے دین میں افراط وتفریط (کمی اور زیادتی کرنا) جائز نھیں ھے ، گذشتہ صالحین کی پیروی کرنا ضروری اور بھتر ھے، اور ایک دوسرے کو کفر کی نسبت دینے سے پر ھیز کرنا چاہئے جو خدا وندعالم کے خشم وغضب کا باعث ھے۔
یھی آلوسی صاحب عبد اللہ بن سعود کے حالات زندگی میں اس طرح کھتے ھیں: عبداللہ نے اپنے ماسبق کی طرح عرب کے قبیلوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور پانچوں وقت کی نمازِجماعت میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا، لیکن سلطان (سلطان عثمانی) کے ساتھ جو جسارت کی اس میں اس نے خطا اور غلطی کی، وہ اگر نجد او راس کے تابع علاقوں پر اکتفاء کرتا تو اس کے لئے بھتر تھا اور اس سے زیادہ ترقی کرتا، خصوصاً ان قبیلوں کی تعلیم وتربیت میں ثواب عظیم کا مالک هوتا جو حیوانوں کی طرح یا اس سے بھی پست تر تھے۔
[162]
امریکن رائٹر ”لوٹروپ سٹوڈارڈ“وھابیوں کی طرفداری کرتا هوا ان کی بھت زیادہ تعریف وتمجید کرتا ھے اور وھابیوں کے وجود کو مسلمانوں میں بیداری کا سبب مانتا ھے اور اس طرح کھتا ھے کہ وھابیوں کی دعوت خالص اصلاح کی دعوت تھی، جس میں شک وھم اور شبھات کو دور کرنا مقصود تھا۔ درمیانی صدیوں میں دین کی جو مختلف تفسیریں او رمختلف حاشیہ پیدا هوگئے تھے ان کو ختم کیا اور بدعتوں اور اولیاء اللہ کی پرستش کو نابود کیا، خلاصہ یہ کہ یہ لوگ اس پرانے دین کی طرف پلٹنا چاھتے تھے جو شروع میں تھا، اور وہ اسلام کی حقیقت اور اس کے جوھر کو پیش کرنا چاھتے تھے یعنی اس توحید کو لوگوں کے سامنے بیان کرناچاھتے تھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے تھے ۔انھوں نے اس قرآن کو اپنا رھبراور پیشوا قرار دیا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل هوا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ قرآن کی تاویل اور تفسیر نہ کی جائے، (چنانچہ محمد بن عبد الوھاب کھتا تھا کہ ) اس کے علاوہ تمام چیزیں باطل ھیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نھیں، دین کے ارکان اور واجبات اور قواعد مثلاً نماز وروزہ وغیرہ کی پابندی کرنے کو مناسب سمجھتا تھا، یہ لوگ (وھابی حضرات) اپنی زندگی میں غیر معمولی سادگی رکھتے تھے، ابریشمی کپڑے اور مختلف قسم کے کھانوں، شراب نوشی اور قهوہ پینا اورافیون اور تمباکو نوشی یا ھر وہ چیز جو اسراف کا سبب هو یا عقل کے لئے نقصان دہ هو، ان سب چیزوں کو حرام جانتے تھے۔
”لوٹروپ سٹوڈارڈ“ اس کے بعد کھتا ھے: میں نے جو کچھ کھا وہ ا ن کی ساری باتیں نھیں ھیں بلکہ یہ لوگ ان دینی عمارتوں کو جو مختلف چیزوں سے زینت کی جاتی ھیں ان کو بھی حرام جانتے ھیں، اور اسی وجہ سے انھوں نے مرقد مطھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بنے گنبد کو ویران کردیا اور مسجد نبوی پر بنے گلدستوں کو گرادیا، (قارئین کرام ! اگر چہ اس کی یہ بات غلط ھے ، کیونکہ انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے گنبد اور مسجد کے گلدستوں کو نھیں گرایا اور اس کی وجہ ھم وھابیوں کی تاریخ میں بیان کریں گے)۔
چنانچہ انھوں نے دینی واجبات اور قواعد وآداب سے شدید لگاؤ کی وجہ سے ان چیزوں کی نسبت افراط کا راستہ انتخاب کیا یعنی ان چیزوں میں زیادہ روی کی اور انھیں چیزوں کے اثر کی بنا پر بعض اھل دقت لوگوں نے وھابیوں کے راستہ کو دلیل اور برھان قرار دیا کہ اسلام در حقیقت آج کے تقاضوں سے ھم آہنگ نھیں ھے اورمعاشرہ کی موجودہ ترقی و تبدیلی کے موافق اور زمانہ کے ساتھ سازگار نھیںھے۔
[163]
اسی طرح چودھویں صدی کے عثمانی موٴلفین میں سے ”سلیمان فائق بک“ وھابیوں کے بارے میں اس طرح کھتے ھیں کہ اگرچہ وھابیوں کے مذھبی اعتقادات اھل سنت والجماعت ، سلف صالح اور وہ لوگ جو احتیاط کی طرف مائل ھیں ان کے اعتقادات سے کوئی اختلاف نھیں رکھتے لیکن ان کے مذھبی کٹّر پن نے ان کو راہ راست سے منحرف کردیا یھاں تک کہ اپنی مرضی سے حلال یا حرام کا فتویٰ دیتے ھیں، مثلاً انھوں نے صالحین کی قبر کی زیارت اور ان کی روحانیت سے متبرک هونے کو بھی حرام قرار دیا ھے، اور جو لوگ تمباکو نوشی کرتے ھیں ان کے کفر کا بھی فتویٰ دیا، اور ان کا تعصب اور کٹّرپن اس درجے پر پهونچاکہ اپنے علاوہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا، العیاذ باللہ۔
[164]
یھاںعرب کے مشهور ومعروف موٴلف”احمد امین“ کی اس بات کو نقل کرنا مناسب ھے ، وہ کھتے ھیں کہ اس وقت محمد بن عبد الوھاب کے زمانہ کو دسیوں سال گذر چکے ھیں اور بھت سے بھادروں اور جنگجو جوانوں نے اس سے مقابلہ میں جنگیں لڑیں ھیں لیکن ان کا کیا نتیجہ هوا؟ مسلمانوں کے تمام فرقے قبروں اور ضریحوں سے توسل کرنے اور ان سے حاجت طلب کرنے کے سلسلہ میں اسی پرانی حالت پر باقی ھیں جس طرح کے محمد بن عبد الوھاب کے زمانہ سے پھلے تھے اور اسی زمانہ کی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسری ولادتوں پر جشن محفلیں کرتے ھیں، (اگرچہ اس طرح کی محفلوں کی رونق کم هوگئی ھے) صرف بعض خاص الخاص لوگوں میں اس کی دعوت کا اثر هوا ھے، اسی طرح آج کل کے پڑھے لکھے جوان ، بزرگوں کی قبور اور ان کے مزار وں کی پناہ حاصل نھیں کرتے اور اپنے آباء واجداد کی طرح قبروں سے متوسل نھیں هوتے ، لیکن یہ جوان ایسے ھیں جو اپنے آباء واجداد کی طرح خدا سے بھی متوسل نھیں هوتے اور اس سے بھی التجا نھیں کرتے۔
[165]
اس بحث کے اختتام پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ امریکن رائٹروں کی کتابوں کو پڑھ کر کوئی یہ خیال نہ کرلے کہ اسلام ایک جامد دین ھے اور ترقی یافتہ زمانہ سے ھم آہنگ نھیں ھے ،ضروری ھے کہ دیگر اسلامی فرقوں کے نزدیک اصل اباحہ اور مسئلہ اجتھاد کو بھی پیش نظر رکھیں:مثلاً شیعہ مذھب میں ھر چیز میں ”اصل اباحت“ ھے ، یعنی ھر وہ چیز جس کے بارے میں حرمت پر دلیل موجود نہ هو ، جائز اور مباح ھے، اور اس کے انجام دینے میں کوئی ممانعت نھیں ھے، اسی طرح دوسرے فرقے بھی (وھابی کے علاوہ) اصل اباحہ کو قبول کرتے ھیں،دوسری بات یہ ھے کہ شیعہ مذھب کے مجتہدین ھر نئی چیز کا حکم چاروں دلیلوں (قرآن، سنت، اجماع اور عقل) کے ذریعہ استنباط کرتے ھیں، لہٰذا دین اسلام جو خود فکر وعلم اور عقل کا دین ھے ھر زمانہ اور ھر جگہ سے ھم آہنگ ھے اور دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ایسا نھیں ھے اور نہ هوگا جس میں شیعہ مجتہدین مسئلہ کا حکم شرعی استنباط نہ کرسکیں۔
۲۔ محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کے بارے میں
جب سے محمد بن عبد الوھاب نے اپنے عقائد کا اظھار کیا اور لوگوں کو ان کے قبول کرنے کی دعوت دی، اسی وقت سے بڑے بڑے علماء نے اس کے عقائد کی پر زور مخالفت کی، شدید مخالفت کرنے والوں میں سب سے پھلے خود اس کے پدر محترم عبد الوھاب تھے اور اس کے بعد ان کے بھائی جناب شیخ سلیمان بن عبد الوھاب تھے اور یہ دونوں حنبلی علماء میں سے تھے، شیخ سلیمان نے تو محمد بن عبد الوھاب کی رد میں کتاب ”الصواعق الا لٰھیة فی الرد علی الوھابیة“تالیف کی، اور اس کے عقائد کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ ردّ کیا ھے۔
زینی دحلان کھتے ھیں کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب کے پدر گرامی ایک صالح عالم دین تھے، اور اس کے بھائی شیخ سلیمان نے شروع ھی سے یعنی جب سے محمد بن عبدالوھاب تحصیل علم میں مشغول تھا اور اس کی باتوں اور اس کے کاموں سے یہ اندازہ لگایا لیا تھا کہ یہ اس طرح کا خیال اورنظریہ رکھتا ھے اسی وقت سے اس پر لعن وملامت کیا کرتے تھے اور اس کو ھمیشہ اس کام سے روکتے رھتے تھے۔
[166]
شیخ محمد بن عبد الوھاب کے سب سے بڑے مخالف اس کے بھائی شیخ سلیمان صاحب کتاب ”الصواعق الالٰھیة فی الرد علی الوھابیة“ تھے، چنانچہ شیخ سلیمان اپنے بھائی کی باتوں کو ردّ کرتے هوئے کھتے ھیں : یہ کام (جن کو وھابی لوگ شرک او رکفر کا باعث سمجھتے ھیں) احمد ابن حنبل اور ائمہ اسلام کے زمانہ سے پھلے موجود تھے، جبکہ بعض لوگ اس وقت بھی ان کے منکر تھے اور ان سب کو ائمہ اسلام نے سنا لیکن کسی ایک روایت میں یہ نھیں آیا ھے کہ انھوں نے ان اعمال کو بجالانے والوں کو مرتدّ یا کافر کھا هو یا ان سے جھاد کرنے کا حکم دیا هو، یا مسلمانوں کے ملک کو جس طرح تم کھتے هو بلاد شرک یا دار ا لکفر کھا هو، اسی طرح ائمہ
[167] کے زمانہ کو ۸۰۰ سال کی مدت گذر رھی ھے، کسی بھی عالم دین سے کوئی روایت نھیں ھے کہ ان کاموں کو کفر اور شرک جاتا هو، [168]
خدا کی قسم تمھاری باتوں کا نتیجہ یہ هوگا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام امت احمد ابن حنبل کے زمانہ سے چاھے عالم هوں یا عوام الناس ، چاھے حاکم هوں یا عام لوگ، سب کے سب کافر اور مرتدّ ھیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، شیخ سلیمان بھت افسوس کرتے هوئے کھتے ھیں : ” اللہ کی پناہ“،! کیا تم سے پھلے کسی نے دین اسلام کو نھیں سمجھا تھا،
[169]
صواعق الالٰھیہ کے علاوہ اور د وسری کتابیں محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کی ردّ میں لکھی گئی ھیں جنھوں نے محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کو ایک ایک کرکے نقل کیا اور ان کو باقاعدہ دلیلوں کے ساتھ ردّ کیا ھے، ان میں سے صاحب اعیان الشیعہ علامہ سید محسن حسینی عامِلی کی کتاب ”کشف الارتیاب فی اتباع محمد ابن عبد الوھاب“ ھے، یہ کتاب اپنی صنف میں بھترین کتاب ھے۔
وھابیت کے طرفداروں میں سے عبد اللہ قصِیمی مصری نے کتاب ”کشف الارتیاب“ کی ردّ ”الصّراع بین الوثنیة والاسلام“ لکھی ، اور اس کتاب کے جواب میں محمد خُنیزی نجفی نے ”الدعوة الاسلامیہ“ نامی کتاب لکھی جس کی چند جلدیں چھپ بھی چکی ھیں۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتاب ”منہج الرشاد“ تالیف علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء ھے۔
وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی ایک اور کتاب ”شواھد الحق فی الاستغاثة بسید الخلق“ تالیف شیخ یوسف نبھانی ھے ، یہ کتاب ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب دونوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے ”مصباح الانام وجلاء الظلّام“ تالیف سید علوی بن احمدبھی ھے، بنابر نقل ابی حامد بن مَرزوق کتاب”التوسل بالنبی وجھلة الوھابیین“ھے۔
اسی طرح علماء ازھر میں سے شیخ محمد نجیت مطیعی صاحب کی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد“ ھے۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں علامہ عراق جمیل افندی صِدقی زِھاوی کی کتاب ”الفجر الصادق فی الردّ علیٰ منکری التوسل والکرامات والخوارق“ بھی ھے۔
انھیں کتابوں میں ”ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبور“ تالیف ظاھر شاہ میان بن عبد العظیم بھی ھے۔
کتاب ”المنحة الوھبیة فی الردّ علی الوھابیة“ تالیف داوٴد بن سلیمان نقشبندی بغدادی بھی وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
اسی طرح کتاب ”اشد الجھاد فی ابطال دعویٰ الاجتھاد“ تالیف شیخ داوٴد موسوی بغدادی بھی ھے جو کتاب ”منحة الوھبیة“ کے ساتھ چھپ چکی ھے۔
اسی طرح ایک رسالہ ”کشف النور عن اصحاب القبور“ تالیف عبد الغنی افندی نابُلِسی وھابیت کی ردّ میں چھپ چکا ھے۔
کتاب ”الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة“ تالیف خواجہ محمد حسن جان صاحب سرہندی (فارسی زبان میں)چھپ چکی ھے۔
اسی طرح کتاب ”سیف الابرار علی الفجار“ تالیف محمد عبد الرحمن حنفی (فارسی زبان میں چھپ چکی ھے) ، (جو وھابیوں کے طرفدار نذیر حسین کے فتووں کی ردّ ھے۔)
اسی طرح ایک رسالہ ”سیف الجبار المسلول علی الاعداء الابرار“ تالیف شاہ فضل رسول قادری ھے (جو عربی اور فارسی زبانوں میں ھے۔
کتاب ”مدارج السنیة فی ردّ علی الوھابیة“ بھی وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے جس کو عامر قادری معلم دار العلوم کراچی ، نے تالیف کیا ھے ( یہ کتاب عربی زبان میں اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ چکی ھے)
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب ”تھَکُّم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین“ تالیف محمد بن عبد الرحمن بن عفالق ھے جس میں وھابیوں کی تمام باتوں کا جواب دیا گیا ھے اور اس میں علوم شرعی اور ادبی سوال کئے گئے ھیں۔ (زینی دحلان کے قول کے مطابق)
اسی طرح کتاب ”البراھین الجلیة“ تالیف سید محمد حسن قزوینی ھے جو وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابو ں میں ایک ”کشف النقاب عن عقائد ابن عبد الوھاب“ تالیف سید علی نقی(نقّن صاحب) ہندی بھی ھے ۔
اسی طرح کتاب ”ازھاق الباطل فی ردّ الفرقة الوھابیة“ تالیف امام الحرمین محمد بن داوٴد ھمدانی تیرهویں صدی کے علماء میں سے۔
[170]
اسی طرح ”لمعات الفریدة فی المسائل المفیدة“ نامی کتاب تالیف سید ابراھیم رفاعی ھے۔
”ھذی ھی الوھابیة“ نامی کتاب تالیف شیخ جواد مغنیہ بھی ان کتابوں میں سے ایک بھترین کتاب ھے۔
اسی فھرست میں ”الدولة المکیة بالمادة الغیبیة“ تالیف احمد رضا خانصاحب قادری بھی ھے۔
رسالہ ”الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة“ تالیف سید ابراھیم راوی رفاعی ھے۔
انھیں کتابوں میں مشهور ومعروف کتاب ”الغدیر“ تالیف مرحوم علامہ شیخ امینی کی کتاب کا ایک حصہ وھابیوں کی ردّ میں لکھا گیا ھے۔
محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کو ردّ کرنے والی کتابوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی مکّہ معظمہ کی کتاب ”الفتوحات الاسلامیہ“ بھی ھے جس میں محمد بن عبد الوھاب پر شدید حملہ کیا ھے۔
اس مذکورہ کتاب میں زینی دحلان نے محمد بن سلیمان کردی کی بعض ان باتوں کا بھی ذکر کیا ھے جن کو موصوف نے محمد بن عبد الوھاب کی ردّ میں بیان کیا ھے۔
[171]
زینی دحلان کے وھابیت کی ردّ میں لکھے گئے چندمستقل کتابیں اب بھی باقی ھیں جن میں سے ”فتنة الوھابیة“ اور ”الدرر السنیة فی الردّ علی الوھابیة“ ھیں۔
یھاں پر یہ بات قابل توجہ ھے کہ آخری سالوں میں جو کتابیں وھابیوں کی ردّمیں لکھی گئی ھیں ان میں سے اکثرترکی،ہندوستان اور پاکستان کے حنفی علماء کی ھیں،اور اس سلسلہ میں آج کل ترکی(استامبول) سے بھت زیادہ کتابیں اور رسالے چھپے ھیں، اور شاید اس کی وجہ یہ رھی هو کہ وھابیوں کے سب سے زیادہ حملے ابوحنیفہ کے عقائد اور ان کے نظریات پر هوئے ھیں۔
ایک یاد دھانی
مختلف علماء کی طرف سے محمد بن عبد الوھاب کی ردّ یا اس کو نصیحت کے طور پر لکھی جانے والی کتابیں ان سے کھیں زیادہ ھیں جن کو ھم نے بیان کیا ھے، ان تمام کا ذکر کرنا مشکل تھا، ان کتابوں کا ذکر محمد بن عبد الوھاب کی ردّ میں لکھی گئی مذکورہ بالا کتابوں میں موجودھے منجملہ: ان کے کتاب ”التوسل الی النبی“ تالیف ابی حامد بن مرزوق میں ۴۲ایسی کتابو ںکا ذکر کیا ھے جو وھابیت کی ردّ میں لکھی گئی ھیں، ھم یھاں پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔مقالہٴ شیخ محمد ابن سلیمان کُردی ، جو محمد بن عبد الوھاب کے استاد ، رسالہ شیخ سلیمان بن عبد الوھاب برادر محمد بن عبد الوھاب (ظاھراً رسالہ سے مراد ”الصواعق الالٰھیہ“ ھے)
۲۔ کتاب ”تجرید سیف الجھاد لمدعی الاجتھاد“ تالیف عبد اللہ ابن عبد اللطیف شافعی ،(یہ بھی محمد بن عبد الوھاب کے استاد ھیں)
۳۔ ”الصواعق والرعود“ تالیف عفیف الدین عبد اللہ بن داوٴد حنبلی، اس کتاب پر بصرہ، بغداد، حلب، احساء اور دیگر ملکوں کے مشهور ومعروف علماء نے تقریظ لکھی ھے اور اس کتاب کی تائید کی ھے۔
۴۔رسالہ احمد ابن علی بصری شافعی۔
۵۔رسالہٴ عبد الوھاب بن احمد برکات شافعی مکّی۔
۶۔رسالہٴ”الصّارم الہندی فی عنق النجدی“ تالیف شیخ عطای مکی۔
۷۔ رسالہٴ ”السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاولیاء بعد الانتقال“ بیت المقدس کے ایک عالم دین کی تالیف۔
۸۔ ”تحریض الاغنیاء علی الاستغاثة بالانبیاء والاولیاء“ تالیف عبد اللہ ابن ابراھیم مقیم طائف۔
۹۔ ”الانتصار للاولیاء الابرار“ تالیف طاھر حنفی ، اھل طائف، (بقول سید علوی ابن احمد حداد)
۱۰۔ سید علوی بن احمد حدّاد کھتے ھیں کہ حرمین شریفین کے عظیم علماء ، نیز بغداد، بصرہ، احساء ، حلب، یمن اور دیگر اسلامی شھروں کے علماء نے وھابیت کی ردّ میں نظم اور نثر دونوں میں بھت سی کتابیں لکھیں ، ان سب کو میں نے بحرین کے قبیلہ آل عبد الرزّاق کے ایک حنبلی شخص کے پاس دیکھا اور چونکہ میں سفر میں تھا اس وجہ سے ان کو لکھنا ممکن نھیں تھا لیکن میں نے ان سب کا مطالعہ کیا۔
۱۱۔ کتاب ”سعادة الدارین“ تالیف شیخ ابراھیم سمنودی۔
۱۲۔ ”غوث العباد ببیان الرشاد“ تالیف شیخ مصطفی حمامی مصری۔
۱۳۔ ”النُّقول الشرعیہ فی الردّ علی الوھابیہ“تالیف شیخ حسن شطّی حنبلی دمشقی ۔
۱۴۔رسالہ ”توسل بالانبیاء والاولیاء“تالیف شیخ محمد حسنین مخلوف۔
۱۵۔ ”المقالات الوافیة فی الردّ علی الوھابیة“ تالیف حسن خزبک۔
۱۶۔ ”الاقوال المرضیة فی الرد علی الوھابیہ“ تالیف شیخ عَطا الکَسَم دمشقی۔
[172]
بعض مذکورہ کتابوں سے کچھ اقتباسات
وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں سے ھم نے پھلے کچھ چیزیں بیان کی ھیں یھاں پر کچھ دیگر کتابوں سے بعض اقتباسات نقل کرتے ھیں:
دار العلوم کراچی کے مدرس عامر قادری صاحب کھتے ھیں :
ھم نے وھابیوں کا یہ عقیدہ سنا کہ غیر خدا کو پکارنا شرک ھے، ھم یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم اور دیگر اولیاء کرام کو پکارنا جائز ھے، اب رھا دلیل کا مسئلہ تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ کرنے کی دلیل عبد الرحمن بن سعد کی وہ روایت ھے کہ جب عبد اللہ ابن عمر کا پیر”بے حِس“هوگیا تو ان سے کسی نے کھا کہ جس کو تم سب سے زیادہ دوست رکھتے هو اس کو پکارو! تو انھوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارا، (اور ان کا پیر صحیح وسالم هوگیا) اور ایک روایت کے مطابق ابن عباس کا پیر بے حس هوا ، اور جب انھوں نے پکارا ”یامحمداہ“ (تو ان کا پیر صحیح وسالم هوگیا) اب رھا ولی اللہ کو پکارنے کا مسئلہ تو ولی اللہ نبی کے تابع ھیں۔ (یعنی جس دلیل کے ذریعہ پیغمبر اور نبی سے استغاثہ کرنا صحیح ھے اسی طرح اس کے ولی سے استغاثہ کرنا صحیح اور جائز ھے)
[173]
پیغمبر اور اولیاء اللہ سے توسل کرنا مستحکم دلیلوں کے ذریعہ ثابت ھے، کیونکہ خداوندعالم نے فرمایا ھے: <وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ>
[174] (خدا تک پهونچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو)۔
وھابی کھتے ھیں کہ کسی کو بھی حق شفاعت حاصل نھیں،چاھے پیغمبر هو یا ولی، اور اگر کوئی ان کے لئے شفاعت کا قائل هو تو وہ مشرک اور ابوجھل کی طرح ھے۔
ھم کھتے ھیں کہ شفاعت کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کرتی ھے کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
<وَلاٰ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہُ اِلاّٰ لِمَنْ اَذِنَ لَہُ>
[175] ۔
”اس کے یھاں کسی کی سفارش کام آنے والی نھیں ھے مگر وہ جس کو خود اجازت دیدے“۔
نیز ارشاد رب العزت ھے <مَاْ مِنْ شَفِیْعٍ اِلاّٰ مِنْ بَعْدِ اِذْنِہ.>
[176]
”کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نھیں ھے“۔
قرآن کریم کی دلیلوں کے بعد احادیث نبوی کے ذریعہ شفاعت پر دلیل موجود ھے ، مثلاً جناب عفان کی وہ روایت جس میں تین گروہ شفاعت کرنے والے ھیں: پھلے انبیاء ان کے بعد علماء اور ان کے بعد شہداء، (جامع الصغیر ج ۲ ص ۲۰۷)
اسی طرح یہ حدیث شریف: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”شَفَاعَتِیْ لِاٴہْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتی“(مشکوٰة ص ۴۹۴)
میں اپنی امت کے گناہ گاروں کی شفاعت کروں گا۔
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”وَشَفَاعَتِی لِاٴہْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ اُمَّتی“(جامع الصغیر ج۲ ص۳۳)
میں اپنی امت کے اھل ذنوب (گناھگاروں) کی شفاعت کرونگا۔
لہٰذا ثابت یہ هوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ قیامت کے دن گناھگاروں کی شفاعت کریں گے، اور جو لوگ وھابیوں کی طرح شفاعت کے منکر هوں گے ان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت نصیب نھیں هوگی، کیونکہ ”فتح الباری“ میں یہ حدیث موجود ھے کہ ”مَنْ کَذَّبَ بِالشَّفَاعَةِ فَلاٰ نَصِیْبَ لَہُ فِیْها“ (جو شخص شفاعت کا انکار کرے اس کو شفاعت نصیب نھیں هوگی۔
[177]
اسی طرح خواجہ محمد حسن خان صاحب ہندی حنفی اپنی کتاب ”رسالہ الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة“ میں جو فارسی زبان میں ھے ہندوستان میں وھابیت کے طرفدار لوگوں کی کتابوں اور رسالوں اور دوسرے لوگوں کی کتابوں سے نقل کرتے هوئے کھتے ھیں:
” وھابیوں کے عقائد کی فھرست تقریباً ۲۵۰ تک پہنچی ھے اور ان میں سے موصوف نے بعض کو بیان کیا ھے،
[178]ان میں سے کچھ یہ ھیں کہ یہ فرقہ توحید کو اپنے سے مخصوص کرتا ھے اور دوسرے تمام فرقوں کو مشرک فی التوحید جانتا ھے، اور ان کا عقیدہ یہ ھے کہ خداوندعالم کو جھت اور مکان سے پاک ومنزّہ جاننا ایک بدعت او رگمراھی ھے، اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ھے کہ تمام انبیاء احکام کی تبلیغ میں معصوم نھیں ھیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم صرف اپنے بڑے بھائی کی تعظیم کے برابر هونی چاہئے، اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر میں حیات نھیں رکھتے، اسی طرح انبیاء اور اولیاء اللہ کچھ بھی قدرت نھیں رکھتے، اور وہ سنتے بھی نھیں ھیں۔ان کا عقیدہ یہ بھی ھے کہ فقہ کی رائج کتابیں پڑھنے سے انسان کافر هوجاتا ھے لہٰذا ان کتابوں کا جلانا ضروری ھے،(مشکلات کے وقت پیغمبروں ، شھیدوں اور فرشتوں کو پکارنا شرک ھے ، لہٰذا اس زمانہ کے تمام لوگ کافر ھیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مقدس کے سامنے بطور تعظیم کھڑا هونا شرک ھے۔ [179]
اس کے بعد موصوف وھابیوں کے عقائد کی ردّ کرتے ھیں، اور قبور کی زیارت کے سلسلہ میں امام محمد بن ادریس شافعی کا قول نقل کرتے ھیں کہ حضرت امام موسیٰ ابن جعفرںکی قبر دعا کے قبول هونے میں مجرّب ھے، اور ذھبی کی کتاب” تذکرة الحفاظ“ سے نقل کرتے ھیں کہ اھل سنت کے بزرگ حضرات جب خراسان میں حضرت امام رضاںکی قبرپر زیارت کے لئے جاتے ھیں تو کس قدر خضوع، خشوع اور تضرع کرتے ھیں، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب ”تہذیب التہذیب“ (جلد ۷ ص۳۸۸) میں اس طرح لکھتے ھیں:
”قَالَ (اِیِ الْحَاکِم) وَسَمِعْتُ اَبَابَکْرٍ مُحَمَّدِ بِنْ المُوٴمِّل یِقُوْلُ خَرَجْنَا مَعَ اِمَاِم الْحَدِیْثِ اَبِی بَکْرِ بْنِ خُزِیْمَة وَعَدِیْلِہِ اَبِی عَلِیٍّ الثَّقَفِی مَعْ جَمَاعَةٍ مِنْ مَشَایِخنَا وَهم اِذْ ذَاکَ مُتَوَافِرُوْنَ اِلٰی قَبْرِ عَلِیِّ ابْن مُوسٰی الرِّضَا ں بِطُوْس، قَالَ فَرَایْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہِ یِعْنی اِبْنَ خُزِیْمَةِ لِتِلْکَ الْبُقْعَةِ وَتَوَاضِعِہ لَها وَتَضَرّعِہِ عِنْدَها مَاتَحَیَّرنَا“
(حاکم نیشاپوری) کھتے ھیں کہ میں نے محمد بن موٴمّل کو یہ کھتے سنا ھے : میں علم حدیث کے ماھر ابوبکر بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی (ان کا علم بھی انھیں کی طرح ھے) اور ان کے بھت سے استاد کے ساتھ تھا جو حضرت امام رضا ں کی طوس میں زیارت کے لئے جارھے تھے اس وقت میں نے ابن خزیمہ کو اس قدر تعظیم، تواضع اور تضرع کرتے دیکھا کہ مجھے تعجب هونے لگا۔
مشهور ومعروف محدث ابو حاتم بن حبان حضرت امام علی الرضا ں کے زندگی نامہ میں اس طرح لکھتے ھیں :
” مَا حَلَّتْ بی شِدَّةٌ فی وَقْتِ مَقَامی بِطُوْسْ وَزُرْتُ قَبْرَ عَلِیِّ ابْنِ مُوْسٰی الرِّضَا(ع) صَلَٰواتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہِ وَعَلَیْہِ وَدَعُوْتُ اللّٰہَ تَعٰالیٰ اِزَالَتَها عَنِّی اِلاّٰ اَسْتُجِیْبَ لِی وَزَالَتْ عَنِّی تِلْکَ الشِّدَّةُ وَہَذَا شَئْيٌ جَرَّبتُہُ مِرَاراً۔“
”جس وقت میں طوس میں تھا کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا کہ میں پریشان رھا، کیونکہ میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا + کی قبر کی زیارت کرتا تھا اور خدا سے رفع مشکل کے لئے دعا کرتا تھا تو میری دعا قبول هوجاتی تھی اور میری مشکل بھی دور هوجاتی تھی اور میں نے اس چیز کا بار بار تجربہ کیا ھے“۔
مذکورہ کتاب کے موٴلف نے قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اور بھی دوسری چیزیں نقل کی ھیں مثلاً ابوحنیفہ اور معروف کرخی کی قبروں کی زیارت کے بارے میں بیان کیا ھے۔
[180]
اسی طرح عراق کے مشهور ومعروف موٴلف اور شاعر جمیل صدقی زھاوی بھی ھیں، چنانچہ موصوف کھتے ھیں :
” محمد بن عبد الوھاب اپنے ان عقائد کو پیش کرنے سے پھلے ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا مطالعہ کا بے حد شوقین تھامثل مسیلمہ کذاب، سجاح، اسود عنسی اور طُلیحہ اسدی وغیرہ جیسا کہ بعض مشهور ومعروف موٴلفین نے اس بات کو لکھا ھے کہ، ظاھراً وہ پیغمبری کا دعویٰ کرنا چاھتا تھالیکن اتنی جراٴت نہ کرسکا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے شھر کے لوگوں کو انصار او رجو دوسرے شھروں سے اس کے پاس آتے تھے ان کو مھاجر ین کھتا تھا، اور جو شخص اس کے عقائد کو قبول کرلیتا تھا اگر اس نے اپنا واجب حج کرلیا ھے تو اس کو دوبارہ حج کرنے کا حکم دیتا تھا، کیونکہ اس نے پھلا حج اس صورت میں انجام دیا تھا جب وہ مشرک تھا، اور اسی طرح جو شخص اس کے مذھب میں وارد هوتا تھا اس کے لئے یہ شھادت دےنا ضروری تھا کہ میں پھلے کافر تھا اور اس کے ماں باپ بھی کافر مرے اور گذشتہ علماء بھی کافر تھے، اور اگر وہ ان باتوں کی شھادت نھیں دیتا تھا تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اپنے سے چھ سو سال پھلے والے تما م لوگوں کو کافر سمجھتا تھا، چاھے کوئی کتنا بھی بڑا متقی اور پرھیزگار ھی کیوں نہ هو، لیکن اگر اس کی پیروی نھیں کرتا تھا تو اس کو کافر اور مشرک شمار کیا جاتا تھا اور اس کی جان ومال سب حلال تھا، اور اگر کوئی اس کی پیروی کا دم بھرلیتا تھا تو چاھے کتنا بھی فاسق وفاجر هو اس کو مومن حساب کیا جاتا تھا۔
اسی طرح محمد بن عبد الوھاب کوشش کرتا تھا کہ کسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کو کم رنگ کرے، اس کے بعض اصحاب نے یہ بات نقل کی ھے کہ وہ کھتا تھاکہ میرا یہ عصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھتر ھے کیونکہ پیغمبر اس وقت دنیا میں نھیں ھیں اور کسی کو کوئی فائدہ نھیں پهونچاسکتے (نعوذ باللہ) جبکہ یہ بات مذاھب اربعہ کے نزدیک کفر ھے۔
وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شب جمعہ اور گلدستہ اذان پر صلوات بھیجنے کو منع کرتا تھا اور اگر کوئی آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی، اور اس کی دلیل یہ تھی کہ یہ سب کچھ توحید کے منافی اور مخالف ھے۔
اسی نظریہ کے تحت اس نے ان کتابوں کو جلا ڈالا جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات کے جائز هونے پر دلیل دی گئی تھی، مثلاً ”دلائل الخیرات“ تالیف محمد بن سلیمان جزولی۔
اسی طرح فقہ وتفسیر اور احادیث کی ان کتابوں کو بھی جلا ڈالا جو اس کے عقیدہ کے خلاف تھیں، اور اپنے اصحاب کو اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی اجازت دیدیتا تھا۔
[181] (جبکہ تفسیر بالرائے سبھی فرقوں کے نزدیک ناقابل قبول ھے)
اس کے بعد زھاوی نے وھابیوں کے عقائد کی ردّ میں ان کے عقل وقیاس اور اجماع (جس کو ابوحنیفہ اور دوسرے لوگوں نے تسلیم کیا ھے) سے انکار، کسی مجتہد کی تقلید کرنے والوں دوسرے مسلمانوں کو کافر کہنے اور پیغمبروں اور اولیاء اللہ سے توسل کی مخالفت اور ان کے دوسرے عقیدوں کا تفصیل کے ساتھ مدلل جواب دیا ھے۔
سید احمد زینی دحلان مفتی مکہ معظمہ نے اپنی کتاب ”الدرر السنیہ“ میں محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کو ردّ کرتے هوئے اس سے هوئی بحث وگفتگو کو ذکر کیا ھے، مثلاً:
شیخ محمد بن عبد الوھاب مسجد درعیہ میں خطبہ دیتا ھے اور ھر خطبہ میں کھتا ھے کہ پیغمبر اکرم سے توسل کرنا کفر ھے۔
خود محمد بن عبد الوھاب کے بھائی شیخ سلیمان نے بھی اس کے نظریات کی شدت سے مخالفت کی ھے، ایک دن شیخ سلیمان نے محمد بن عبد الوھاب سے اسلام کے ارکان کے بارے میں سوال کیا ، اور جب اس نے جواب دیا کہ پانچ ھیں تو شیخ سلیمان نے کھا تو پھر تو نے ارکان اسلام کو چھ کیوں قرار دیا؟! چھٹا رکن تو نے یہ کھاھے کہ اگر کوئی تیری پیروی نہ کرے تو وہ کافر ھے۔ (۱)
ایک روز کسی شخص نے اس(محمد بن عبد الوھاب ) سے سوال کیا:ماہ رمضان المبارک کی ھر رات میں کتنے لوگ آتش جہنم سے آزاد هوتے ھیں؟ تو اس نے کھا : ایک لاکھ انسان، اور ماہ رمضان کی آخری تاریخ میں اتنی تعداد میں آزاد هوتے ھیں جتنے پورے مھینہ میں آزاد هوئے ھیں، یہ سنکر اس شخص نے کھا کہ تیری پیروی کرنے والے تو ان کے یک صدم
[182] بھی نھیں ھیں، پھر یہ جہنم کی آگ سے آزادهونے والے کون لوگ ھیں ؟ تو تو صرف اپنے پیروکاروں کو مسلمان سمجھتا ھے؟۔
ایک قبیلہ کے سردار نے جو شیخ محمد بن عبد الوھاب کو پریشان کرنے کی طاقت نھیں رکھتا تھا، اس سے سوال کیا کہ کوئی تیرا قابل اعتماد شخص جس کو تو سچّا مانتا ھے ،اگر وہ تجھے خبر دے کہ فلاں پھاڑ کے پیچھے تیری جان کے دشمن چھپے هوئے ھیں اور وہ تجھ کو قتل کرنا چاھتے ھیں، او رتو ایک ہزار لوگوں کو ان سے لڑنے کے لئے بھیجے ، لیکن وہ واپس آکر یہ کھیں کہ وھاں تو کوئی بھی نھیں ھے، تو تو کس کی بات کو صحیح مانے گا اس ایک شخص کی خبر کو ، یا ان ہزار لوگوں کی خبر کو؟!
اس وقت محمد بن عبد الوھاب نے کھا میں ان ہزار لوگوں کی بات کو مانوں گا، اس وقت اس شخص نے کھا کہ تمام کے تمام علمائے نجد چاھے وہ زندہ هوں یا مردہ، سبھی نے اپنی اپنی کتابوں میں تیری باتوں کی تکذیب اور ردّ کی ھے، لہٰذا تجھے ان کی باتوں کو ماننا چاہئے، اس بات کو سن کر محمد بن عبد الوھاب لاجواب هوگیا اور کچھ جواب نہ بنا۔
ایک شخص نے اس سے سوال کیا کہ جس دین کی تم دعوت دیتے هو، یہ متصل ھے یا منفصل؟ اس وقت محمد بن عبد الوھاب نے جواب دیا کہ میرے استاد اور دوسرے تمام استاد آج سے چھ سو سال پھلے سے مشرک تھے، اس وقت اس شخص نے جواب میں کھا تو گویا تیرا یہ دین منفصل (جدا) هوا ، نہ کہ متصل، تم نے یہ دین کس سے حاصل کیا؟
[183]
زینی دحلان اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھتے ھیں کہ اس (محمد بن عبد الوھاب) کے برے کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی زیارت کو ممنوع قرار دیا لیکن اس کے باوجود ”احساء“ کے لوگ قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لئے گئے اور جب شیخ محمد بن عبد الوھاب کو اس بات کی خبر پهونچی تو چونکہ ان لوگوں کا واپسی کا راستہ شھر ”درعییہ“ (جھاں پر محمد بن عبد الوھاب رھتا تھا) سے ھی تھا اس نے حکم دیا کہ ان زائرین کی داڑھی مونڈ دی جائے (چنانچہ ان سب کی داڑھی مونڈ دی گئی) اور ان لوگوں کوان کی سواری پر الٹا بٹھا کر درعیہ سے احساء تک پہنچایا گیا۔
محمد بن عبد الوھاب نے سنا کہ ایک گروہ جو اس کی پیروی نھیں کرتا ، بھت دور دراز علاقہ سے زیارت او رحج کے لئے روانہ هواھے، اور اس کا راستہ درعیہ شھر سے ھی ھے،جب وہ گروہ درعیہ شھر کے قریب پہنچا تو انھوں نے سنا کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنے ایک مرید سے کہہ رھاتھاھے کہ مشرکین (زائرین قبر رسول) کو مدینہ جانے دو، اور مسلمانوں (وھابیوں) کو ھمارے ھی پاس رہنے دو۔
وہ (محمد بن عبد الوھاب ) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات بھیجنے سے منع کرتا تھا، اور اگر کوئی شخص آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا اور اس کی آواز اس کے کانوں میں پهونچ جاتی تھی تو بھت ناراض هوتا تھا، اور اس کو بھت سخت سزا دیتا تھا، یھاں تک کہ ایک نابیناشخص جو بھت ھی دیندار موٴذن تھا اور اس کی آواز بھی بھت اچھی تھی اس نے اس کی باتوں کو نھیں مانا اور پیغمبر اکرم پر صلوات بھیجی تو اس کو قتل کردیا گیا۔
[184]
شیخ سلیمان (برادر محمد بن عبد الوھاب ) کی چند باتیں
جیسا کہ ھم نے پھلے عرض کیاکہ محمد بن عبد الوھاب کے بھائی اور اس کے باپ اس کی بھت زیادہ مخالفت او راس سے مقابلہ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے شیخ سلیمان کو درعیہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی کیونکہ جب ان کے اختلافات زیادہ بڑھے تو شیخ سلیمان کو اپنی جان کا خطرہ پیداهوگیا تھا،چنانچہ وھاں سے مدینہ منورہ چلے گئے، اور مدینہ جاکر شیخ سلیمان نے ”الصواعق الالہٰیہ“ لکھی اور شیخ محمد بن عبد الوھاب کے پاس بھیجی ، شیخ سلیمان کی بعض باتیں ھم نے گذشتہ مطالب میں بیان کیں ھیںیھاں پرموصوف کی چند دیگر باتیں ذکر کرتے ھیں:
۱۔ ھر مذھب کے علماء نے ان اقوال اور افعال کو بیان کیا ھے جن کے ذریعہ ایک مسلمان مرتدّ هوجاتا ھے، لیکن کسی نے بھی یہ نھیں کھا کہ جس نے غیر خدا کے لئے نذر کی یا غیر خدا سے حاجت طلب کی وہ مرتد هوجائے گا، اسی طرح کسی نے بھی ایسے شخص کے مرتد هونے کا حکم نھیں لگایا جس نے غیر خدا کے لئے قربانی کی هو، یا کسی کی قبر کو مس کیا یا قبر کی مٹّی کو (بعنوان تبرک) اٹھایاهو، اور جس طرح تم کھتے هو اگر ایساھی ھے تو دلیل لاؤ اور بیان کرو، کیونکہ علم کو چھپانا جائز نھیں ھے، لیکن تم نے اپنے گمان کی بناپر عمل کیا ھے اور مسلمانوں کے اجماع سے خارج هوگئے هو ، اور تم نے اپنے اس قول سے کہ جو شخص بھی مذکورہ اعمال بجالائے وہ کافر ھے اور اگر کوئی ان اعمال کو بجالانے والے کو کافر نہ جانے وہ بھی کافر ھے، تو اس طرح تو تم نے تمام امت محمدی کو کافر قرار دیدیا، جبکہ تمام خاص وعام جانتے ھیں کہ یہ اعمال (نذر ، قربانی اور زیارت وغیرہ) سات سو سال سے تمام اسلامی ممالک میں رائج ھیں چاھے اھل علم ان کاموں کو انجام نہ دیتے هوں لیکن اس طرح کے اعمال بجالانے والوں کو کافر نھیں کھتے، اور ان پر مرتد کے احکام جاری نھیں کرتے، بلکہ ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کرتے ھیں۔
تمھارے قول کے مطابق تمام اسلامی شھر بلاد کفر اور مرتدین کا شھر ھے، یھاں تک کہ تم نے حرمین شریفین کو بھی بلاد کفر کا نام دیدیاھے۔ جبکہ صحیح احادیث کے مطابق جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ یہ دو (مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ) شھر ھمیشہ اسلامی شھر ھیں ، اور ان شھروں میں بتوں کی پوجا نھیں هوگی، اور آخر الزمان میں جب دجّال تمام شھروں پر قبضہ کرلے گا وہ بھی ان دونوں شھروں میں داخل نھیں هوسکتا، لیکن تمھاری نظر میں تمام شھر دار الحرب (جن سے جنگ کرنا جائزھے) ھیں، او ران کے رہنے والے کافر ھیں اور تم سب کو بت پرست جانتے هو او رتمام امت اسلامی کو مشرک اوردین اسلام سے خارج سمجھتے هو، ”فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ “
[185]
۲۔ ھر وہ خاص وعام جو کہ احادیث اور روایات سے تھوڑی بھت آشنائی رکھتا ھے اس کے لئے یہ بات واضح ھے کہ وہ کام جن کی وجہ سے تم اسلامی ممالک کو بلاد کفر اور ان کے رہنے والوں کو کافر سمجھتے هو،اگر یہ اعمال اسی طرح ھیں جس طرح تم کھتے هو، تو پھر یہ بھت بڑی بت پرستی هوئی،اور ان شھروں کے رہنے والے کافر هوگئے، اور تمھارا عقیدہ ھے جو شخص ان کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ھے، (تو پھر اس طریقہ سے کوئی مسلمان ھی نھیں بچا) جبکہ یہ بات معلوم ھے کہ علماء اور امراء نے کسی کو بھی کافر نھیں کھا اور ان پر مرتد کے احکام جاری نھیں کئے۔
جبکہ مذکورہ اعمال اکثر اسلامی ممالک میں بطور آشکار هوتے ھیں اور ایک کثیر تعداد نے اس راستہ کو اختیار کیا ھے اور تمام شھروں سے ان مقدس مقامات کاسفر کرتے ھیں ، ان سب کے باوجود کوئی ایک عالم دین یا اھل شمشیرنے تمھاری طرح اپنی زبان نھیں کھولی ، تمام علماء نے ان لوگوں پر اسلام کے احکام جاری کئے ھیں۔
لہٰذا اگر ان اعمال کے مرتکب تمھارے گمان کے مطابق کافر او ربت پرست هوں اور علماء اور حکام نے ان پر اسلام کے احکامات جاری کئے هوں، تو اس بات کا نتیجہ یہ ھے کہ وہ علماء کافر هوئے، کیونکہ جو شخص اھل شرک اور کافر لوگوں کو کافر نہ جانے وہ خود کافر ھے، اور اس صورت میں وہ امت محمدی میں شمار نھیں هوگا اور یہ بات حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخالف ھے۔
[186]
۳۔ شیخ سلیمان کی پوری کتاب میں اس بات پر زور دیا گیا ھے کہ شیخ محمد جو عام مسلمانوں کو (اپنے مریدوں کے علاوہ) کافر قرار دیتا ھے اس کو ردّ کریں چنانچہ اس سلسلہ میں ۵۲ حدیثیں اس مضمون کی بیان کی ھیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ مسلمان هونے کا معیار زبان پر کلمہ شھادتین جاری کرنا اور ضروریات دین کو بجالانا ھے، اور اسی طرح ا ن حدیثوں میں مسلمانوں کو کافرکہنے سے روکا اور ڈرایاگیا ھے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور دیگر مشهور کتابوں سے احادیث نقل کی ھیں۔
[187]
وھابی مذھب اور حنبلی مذھب
یہ بات ظاھر ھے اور اس میںکسی قسم کا شک نھیں ھے کہ وھابی مذھب ، حنبلی مذھب سے بنا ھے اور وھابی رھبر عام طور پر ان لوگوں میں سے تھے کہ جنھوں نے قبروں کی زیارت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ سے توسل او راستغاثہ کو ممنوع قرار دیا مثلاً ابو محمد بربَھاری، ابن بطّہ، ابن تیمیہ، اور اس کا مشهور ومعروف شاگر ابن قیم جوزی ، محمد بن عبد الوھاب
[188] یہ سب کے سب حنبلی علماء میں شمار هوتے تھے، اسی وجہ سے وھابی اپنے کو اھل سنت والجماعت اور حنبلی مذھب میں شمار کرتے ھیں، لیکن ڈاکٹر عبد الرحمن زکی کے نظریہ کے مطابق وھابی حضرات حنبلیوں سے دوطریقہ سے فرق رکھتے ھیں پھلا یہ کہ اھل سنت کے چاروں اماموں (امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد ابن حنبل) کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کو ممنوع قرار دیتے ھیں اور دوسرے یہ کہ دیگر مذھب منجملہ شیعہ حضرات کے مذھب کو قبول نھیں کرتے۔
دوسری بات یہ کہ وھابی (جیسا کہ ھم نے پھلے بھی ذکر کیا ھے) بعض فرعی مسائل میں ھر اس رائے پر یقین کرتے ھیں اور اس پر عمل بھی کرتے ھیں جس میں قرآن وغیر منسوخ سنت سے دلیل موجود هو اور اس کے مقابلہ میں اس سے مضبوط کوئی مخصص اور معارض بھی نہ هو اور (احمد ابن حنبل کے علاوہ) کسی ایک امام سے صادر هو ، تو اس مسئلہ میں احمد ابن حنبل کو چھوڑ دیتے ھیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمن زکی مذکورہ بات کو آگے بڑھاتے هوئے کھتے ھیں کہ وھابی مذھب بھی دوسرے مذھبی، سیاسی، اجتماعی طریقوں سے متاٴثرهوا ھے ۔ متاٴثرهونے سے ان کی مراد مذھب میں اختلاف اور اس کی تعلیم کوسمجھنا اور اس کے نظریات کو جاری کرنا ھے۔
چنانچہ ھم دیکھتے ھیں کہ عبد العزیز آل سعود بادشاہ جو وھابیوں کا امام بھی تھا، ۱۹۳۴ ھ میں جب اس کی جنگ یمن کے امام یحيٰ (زیدی مذھب) سے هوئی ، اور جنگ کے بعد دونوں نے آپس میں اخوت اور بھائی چارگی کا عہد نامہ کیا اور اس عہد نامہ کو قبول بھی کیا کہ یحيٰ بادشاہ یمن کا شرعی حاکم ھے، یہ اعتراف کرنا گویا زیدی مذھب کا اعتراف کرنا ھے۔
قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ اعتراف وھابیوں کی اس بات کے برخلاف ھے کیونکہ یہ لوگ مذاھب اربعہ کے علاوہ کسی کو نھیں مانتے ۔
[189]
البتہ وھابیوں میں گذشتہ دو فرق کے علاوہ اور بھی دوسرے فرق پائے جاتے ھیں، منجملہ یہ کہ احمد بن حنبل اور اس کے پیروکاربھی بعض ان چیزوں کی مخالفت کرتے ھیں جن کی وھابی مخالفت کرتے ھیں، لیکن کبھی کبھی حنبلیوںنے مثلاً بر بھاری کے زمانہ میں بھت زیادہ شدت عمل اختیار کی، لیکن دوسرے اسلامی فرقوں کے کفر کا فتویٰ نھیں دیا، اور اسلامی شھروں کو بلاد کفر سے تعبیر نھیں کیا، اور کسی ایسے شخص کو کافر اور مشرک نھیں کھا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر یا دیگر اولیا ء اللہ کی قبروں کی زیارت کے لئے جائے۔ اسی طرح انھوں نے نماز جماعت کے ترک کرنے والوں کے قتل کا حکم صادر نھیں کیا۔
حُسن اتفاق یہ ھے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے یہ خطرناک نظریات(جس کے نتائج میں سے ایک یہ ھے کہ مسلمان ایک دوسرے سے جدا هوگئے اور دوسرے اسلامی ممالک کو دار الکفر شمار کرنے لگے) کم بیان هوتے ھیں، اور اس وقت سعودی عرب کے اخباروں میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاھے وہ عرب هوں یا عجم، سفید هوں یا کالے، سب کو مسلمان بھائی کے نام سے یاد کیا جاتا ھے۔
[190]اور ان آخری چند سالوں میں حجاج بیت اللہ الحرام کے ساتھ جو برتاوٴ کیا جاتا ھے وہ ھماری بات کی تائید ھے ،(کہ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہہ کر خطاب کیا جاتا ھے۔)
محمد بن عبد الوھاب کی اولاد
محمد بن عبد الوھاب کے چار بیٹے تھے جن کے نام عبد اللہ، حسن، حسین اور علی تھے، جنھوں نے اس کے مرنے کے بعد اپنے باپ کے عقائد اور نظریات کو پھیلانے کے لئے قیام کیا، اور ان کو ”اولاد شیخ“ کھا جاتا تھا ان میں سب سے بڑا بیٹا عبد اللہ تھا اس کے بھی دو بیٹے باقی بچے ، سلیمان اور عبد الرحمن، سلیمان کا کٹّر پن اپنے باپ سے بھی زیادہ تھا، آخر کار ۱۲۳۳ھ میں جیسا کہ بعد میں تفصیل بیان هوگی ابراھیم پاشا کے ھاتھوں قتل کردیا گیا اور اس کے بھائی عبد الرحمن کو مصر سے شھر بدر کردیا گیا جو ایک مدت کے بعد انتقال کر گیا۔
حسین بن محمد بن عبد الوھاب سے عبد الرحمن باقی بچا وہ وھابیوں کی شروع کی حکومت میں ایک مدت تک مکہ کا قاضی رھا ۔ اس نے تقریباً سو سال کی عمر پائی ۔ شیخ کی اکثر نسل اسی حسین کے ذریعہ باقی ھے، جو اس وقت (یعنی زینی دحلان کے زمانہ میں تقریباً سو سال پھلے) درعیہ شھر میں مقیم ھیں جن کو اولاد شیخ کھا جاتا ھے۔
[191]
[1] رسالہ ہدیہٴ طیبہ ص ۸۲، ورسالہ عقیدة الفرقة الناجیہ ص ۱۹۔
[2] اس کی یہ بات ظاھراً ابن تیمیہ کی بات سے ماخوذ ھے کہ ابن تیمیہ نے بھی اسی بات کو کتاب العبودیہ ص ۱۵۵ میں کھا ھے۔
[3] ثلاث رسائل ص ۶، شیخ عبد الرحمن آل شیخ نے کھا ھے کہ اگر کوئی خدا کی محبت میں کسی دوسرے کو خدا کا شریک قرار دے، (یعنی کسی دوسرے سے بھی محبت کرے) تو گویا اس نے دوسرے کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ھے اور اس کو خدا کی طرح مانا ھے، اور یہ وہ شرک ھے جس کو خدا معاف نھیں کرے گا، اگر کوئی شخص صرف خدا کو چاھتا ھے یاکسی دوسرے کو خدا کے لئے چاھتا ھے تو ایسا شخص موحد ھے ، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو خدا کے ساتھ دوست رکھتا ھے تو ایسا شخص مشرک ھے، (فتح المجید ص ۱۱۴)
[4] آلوسی ص ۴۵۔
[5] اس سلسلہ میںمرحوم علامہ حاج سید محسن امین ۺ فرماتے ھیں کہ اس میں کوئی شک نھیں کہ مطلق طور پرغیر خدا سے طلب حاجت کرنا یا ان کو پکارنا ، ان کی عبادت نھیں ھے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے، اس بناپر اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو پکارتا ھے تاکہ اس کے پاس جائے یا اس کی مدد کرے یا کوئی چیز اس کو دے یا اس کی کوئی ضرورت پوری کرے ، اس طرح کے کام غیر خدا کی عبادت حساب نھیں هوتے، اور کسی طرح کا کوئی گناہ بھی نھیں ھے، اور آیہ شریفہ <فَلاٰ تَدْعُوا مَعَ اللّٰہ اَحَداً ۔> (جو وھابیوں کی دلیل ھے)کامقصد مطلق دعا نھیں ھے بلکہ جس چیز سے نھی کی گئی ھے وہ یہ ھے جس سے کوئی چیز طلب کررھے هو یا جس کو پکار رھے هو اس کو خدا کی طرح قادر اور مختار نہ مانو، (کشف الارتیاب ص ۲۸۲)
[6]
[7] کشف الشبھات ص ۴۰۔
[8] تاریخ نجد ص ۸۰۔
[9] سورہ آل عمران آیت ۷۵، امان نامہ کی عبارت تاریخ وھابیان میں بیان هوگی۔
[10] حافظ وھبہ ص ۳۴۶، شوکانی کی تحریر کے مطابق اھل مکہ بھی وھابیوں کو کافر کھتے تھے، (البدر الطالع ج۲ ص۷)
[11] تاریخ المملکة العربیة السعودیة جلد اول ص ۴۳۔
[12] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۹، نجدی مورخ شیخ عثمان بن بشر اکثر مقامات پر وھابیوں کو مسلمانوں سے تعبیر کرتا ھے گویا فقط وھی لوگ مسلمان ھیں اور دوسرے مسلمان کافر یا مشرک ھیں، (عنوان المجد نامی کتاب میں رجوع فرمائیں) اسی طرح وہ کھتا ھے کہ ۱۲۶۷ھ میں قطر کے لوگوں کی فیصل بن ترکی کے ھاتھوں پر بیعت اسلام اور جماعت میں داخل هونے کی بیعت تھی، (ج۲ ص ۱۳۲)
[13] فتح المجید ص ۱۱۰۔
[14] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۹،”ابن وردی“ کھتا ھے کہ جس وقت مصر کے بادشاہ نے مغلوں کی کثرت سپاہ کو دیکھا تو اپنی زبان سے یہ جملہ کھا ”یا خالد بن ولید“ ، اس وقت ابن تیمیہ صاحب بھی تشریف رکھتے تھے انھوں نے اس کام سے روکا او رکھا کہ یہ نہ کہہ، بلکہ ”یامالک یوم الدین“ کہہ۔ (جلد ۲ص ۴۱۱)
[15] جزیر ة العرب ص ۳۴۱۔
[16] تاریخ المملکة العربیہ، جلد اول ص ۵۱۔
[17] البد ر الطالع ج ۲ ص ۵،۶۔
[18] کتاب التوحید ص ۱۲۱۔
[19] کتاب التوحید ص ۴۲۵، غیر خدا کی قسم کے بارے میں ابن تیمیہ کے عقائد کے ذیل میں وضاحت کی گئی ھے۔
[20] فتح المجید ص ۴۳۶۔
[21] فتح المجید ص ۴۶۴، یہ حدیث مسند احمد، مسند ابوھریرہ جلد دوم ص ۲۴۳ میں اس طرح ھے: ”اِذَا دَعَا اَحَدُکُمْ فَلاٰیَقُلْ:اللھم اِغْفِرْ لِی اِنْ شِئْتَ وَلٰکِنْ لِیَعْزَمْ بِالْمَسْئَالَةِ فَاِنَّہُ لاٰ مُکْرِہ لَہُ“
[22] فتح المجید ص ۴۶۶۔
[23] فتح المجید ص ۴۷۵۔
[24] ھٰذی ھی الوھابیہ ص ۷۴،مطبوعہ بیروت۔
[25] کتاب تطھیر الاعتقاد تالیف شیخ محمد بن عبد الوھاب ، ص ۳۶، اور اس کے نو رسائل، ص ۴۵، پر بھی یہ بات بیان کی گئی ھے۔
[26] بنقل از تطھیر الاعتقاد ص ۳۰، ۴۱۔
[27] نقل از منشور سلطان عبد العزیز ، بتاریخ ۱۳۲۳ھ ، شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ مسلمان کو چاہئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کو خدا سے طلب کرے، مثلاً اس طرح کھے:” اَللّٰهم لاٰ تَحْرِمْنِی شَفَاعَتَہُ، اَللّٰهم شَّفِعہُ لِی“۔(کشف الشبھات ص ۴۴)
[28] نوعدد رسائل عملیہ سے منقول ص ۱۱۰،۱۱۴۔
[29] نقل از فتح المجید ص ۴۱۴۔
[30] کتاب التوحید ص ۱۴۱،۱۴۲۔
[31] فتح المجید ، شرح کتاب توحید محمد بن عبد الوھاب ص ۱۰۶۔
[32] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۴۱۔
[33] اصحاب کے گذشتہ عمل سے مراد حضرت ابوبکر کی عرب کے قبیلوں سے جنگ ھے کہ جب بعض لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد زکوٰة دینے سے انکار کردیا تو جناب ابوبکر نے ان کو مرتد کھا، اور ان سے جنگ کی۔
[34] منجملہ ثلاث رسائل، مخصوصاً کشف الشبھات ص ۵۰اوراس کے بعد تک۔
[35] مسند احمد ابن حنبل جلد اول ص ۱۹، ۳۵ مسند عمر۔
[36] الاسلام عقیدة وشریعة ص ۳۰۔
[37] منقول از امام باقر .
[38] قول ابوحنیفہ۔
[39] قول ابو الحسن اشعری۔
[40] قول ابن تیمیہ۔
[41] قول اوزاعی۔
[42] قول ابن عینیہ۔
[43] قول ابو الحسن رویانی۔
[44] قول سفیان ثوری۔
[45] ”مَنْ مَاتَ وَهو یَعْلَمُ اَنْ لاٰ اِلَہَ اِلاّٰ اللّٰہ، دَخَلَ الْجَنَّةَ“ نقل از مختار صحیح مسلم وشرح نووی طبع مصر ، ناشر سعادت۔
[46] کتاب الاسلام بین السنة والشیعہ جلد اول ص ۳۳ تا ۳۶ کا خلاصہ، بنقل از مختار صحیح مسلم اور شرح نووی ص۸۴، ۸۸، ۴۷، ۵۱، کی روایات۔
[47] الصواعق الا لٰھیہ ص ۵۵، تا ۶۳۔
[48] سورہ فجر آیت ۲۳۔
[49] سورہ ق، آیت ۱۵، اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کی کتابوں اور رسالوں خصوصاً رسالہ العقیدة الحمویہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[50] تاریخ نجد ص ۹۰،۹۱۔
[51] تاریخ نجد ص ۴۸، معلوم نھیں خداوندعالم کو کس طرح بغیر کیفیت اور احاطہ کے دیکھا جاسکتا ھے؟
[52] سورہ مائدہ آیت ۶۴۔
[53] سورہ هود آیت ۳۷۔
[54] سورہ بقرہ آیت ۱۰۹۔
[55] کتاب التوحید فتح المجید کے ساتھ ص ۵۲۰،۵۲۱۔
[56] سورہ شوریٰ آیت ۱۱۔
[57] فرقہ جھمیہ، جُهم بن صفوان (دوسری صدی کے نصف اول)کے پیروکار ھیں ، جو جبر، ایمان اور صفات خدا کے بارے میں مخصوص عقائد رکھتے ھیں
[58] الفتاوی الکبریٰ، ج ۲ص ۲۹۶، ۲۹۸ ۔
[59] سورہ نساء آیت ۱۶۳، ثلاث رسائل ص ۲۲، مختصر سیرة الرسول ص ۶، عقیدة الفرقة الناجیہ ص ۳۳، البتہ وھابیوں کے علاوہ بعض دوسرے فرقے بھی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ھیں۔
[60] ثلاث رسائل ص ۸۔
[61] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۹،۳۴۰۔
[62] فتح المجد ص ۱۷۳۔
[63] ”اُمُّ القریٰ“ اخبار، مطبوعہ مکہ، بتاریخ ۱۱ ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ، شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ اصحاب پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے وسیلہ سے دعا طلب کرتے تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد بالکل کسی نے یہ کام نھیں کیا، مثلاً کسی نے بھی آپ کی قبر کے پاس دعا نھیں کی، یھاں تک کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس خدا کو پکارنے سے بھی انکار کیا ھے۔ (کشف الشبھات ص ۵۹)
[64] فتح المجید ص ۱۷۵۔
[65] سورہ زمر آیت ۳۔
[66] کشف الشبھات ص ۴۷،۴۸۔
[67] الفتوحات الاسلامیہ ج۲ ص ۲۵۸۔
[68] کشف الارتیاب ص ۳۰۰۔
[69] صحیح بخاری ج۸ ص ۸۲،۸۳۔
[70] فتح المجید، ص ۲۱۵۔
[71] زمان جاھلیت کے عرب کے دوبتوں کا نام۔
[72] کشف الشبھات ص ۳۴۔
[73] کشف الارتیاب ص ۳۴۳۔
[74] سورہ آل عمران آیت ۳۴۔
[75] سورہ یوسف آیت ۲۵۔
[76] کشف الارتیاب ص ۳۴۴۔
[77] الفتاوی الکبریٰ، ج ۲ص ۲۹۶، ۲۹۸ ۔
[78] شرح جامع صغیر ج ۲ ص ۵۷،۵۸۔
[79] بتاریخ ۱۱ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ ، اسی طرح ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں میں متعدد مقامات پر سید المرسلین اور سیدة نساء العالمین استعمال هوا ھے۔
[80] فتح المجید ص ۲۵۷۔
[81] جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص ۳۴۰، ھم انشاء اللہ وھابیوں کی تاریخ کے ضمن میں یہ بات بیان کریں گے کہ تقریباً ڈیڑھ صدی پھلے چونکہ وہ لوگ مکہ او رمدینہ پر قابض تھے اسی وقت انھوں نے بعض قبروں کی کی عمارتیں مسمار کردیں۔
[82] فتح المجید ص ۲۲۷۔
[83] کتاب التوحید ص ۲۴۶،فتح المجید کے ساتھ۔
[84] کشف الارتیاب ص ۶۶۔
[85] کشف الارتیاب ص ۴۲۴۔
[86] ہدیہٴ طیبہ، ص ۸۳۔
[87] مسائل الجاھلیہ ص ۵۰۔
[88] فتح المجید شرح کتاب توحید محمد بن عبد الوھاب، ص ۱۴۵، ۱۶۳، ۱۶۴۔
[89] بخاری صاحب نے اپنی صحیح (ج۲ص ۱۲۲)میں یوں تحریر کیا کہ ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دیواریں گر گئیں تو اس نے اس کو دوبارہ بنوایا۔
[90] الفتاوی الکبریٰ ج۴ ص۴۴۹۔
[91] کشف الارتیاب، ص ۳۵۸، بقیع میں موجود قبریں جو قدیم الایام سے موجود تھیں ، اور مسمار هونے پھلے ائمہ علیهم السلام کی قبروںکی وضعیت ”وھابیوں کی تاریخ“ کے تحت بیان هوگی، انشاء اللہ۔
[92] مروج الذھب ، ج۲ ص ۲۸۵، ۲۸۷، ۳۳۲ھ کی تالیف۔
[93] رحلہٴ ابن جبیر ص ۱۵۴، ۲۲۸،۲۲۹۔
[94] وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۱۲، ام حبیبہ بنت ابوسفیان ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی تھیں، اور صخر ابوسفیان کا نام ھے۔
[95] سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۹۸۔
[96] سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۹۸۔
[97] استیعاب ،ابن عبد البر ، جلد اول ص ۲۶۔
[98] صاحب فتح المجید (محمد بن عبد الوھاب کی کتاب توحید کی شرح میں) اس طرح کھتا ھے: ”لَوْذُبِحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ مُتَقَرِّباً اِلَیْہِ یَحْرُمُ“ (اگر کسی غیر خدا کے لئے قربانی کیا جائے اور اس قربانی سے اس غیر خدا کا تقرب مقصود هو تو وہ قربانی حرام هوجائے گی)اور اس کتاب کے حاشیے میں کھتا ھے کہ یہ شرک بھی شرک اکبر ھے، جبکہ یہ بات معلوم ھے کہ وہ قربانی جو مسلمان قبور کے نزدیک کرتے ھیں اس سے ان کا قصد صرف خوشنودی خدا هوتی ھے ، صاحب قبر کا تقرب مقصود نھیں هوتا۔
[99] کشف الارتیاب ص ۳۴۶ ، ۴۲۴۔
[100] ائمہ علیهم السلام کی قبروں کی زیارت شیعوں کے نزدیک کیا ھے، ابن تیمیہ کے عقائد کے عنوان کے تحت بیان هوچکی ھے۔
[101] رحلہ ابن جبیر ص ۱۸۰۔
[102] ابن خلکان کھتے ھیںامام احمد ابن حنبل کی قبر مشهور ھے اور زائرین ان کی زیارت کے لئے جاتے ھیں۔ (جلد اول ص ۴۸)
[103] وفیات الاعیان ج۵ ص ۴۶، ۴۷۔
[104] استیعاب جلد اول ص ۴۰۴، عجیب بات تو یہ ھے کہ علمائے اھل سنت نے قبور کے لئے کرامات بھی ذکر کی ھیں، جیسا کہ ذھبی نے ۷۲۵ھ کے واقعات میں بیان کیا ھے کہ قبر احمد ابن حنبل کو سیلاب نے چاروں طرف سے گھیر لیا لیکن جس حجرے میں ضریح تھی اس کے اندر داخل نھیں هوا ، جبکہ پانی حجرے کے دورازے سے ایک ھاتھ اونچا تھا۔ (دول الاسلام ج ۴ ص ۱۷۸)
[105] المنتظم ج۷ ص ۲۰۶۔
[106] رحلہٴ ابن جبیر ص ۱۵۳، ابن بطوطہ نے بقیع کی قبروں کا ذکرکرتے هوئے عثمان کی قبر کے گنبد کی بزر گی کی بھی توصیف کی ھے، (جلد اول ص۷۶)
[107] المنتظم ج۷ ص ۱۸۷۔
[108] رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص ۱۱۶۔
[109] خطط ج ۲ ص ۲۸۴۔
[110] ابن خلکان ج۲ ص ۲۰۹۔
[111] خطط، ج ۲ ص ۲۸۴۔ لیکن ابوبکر دواداری نے کنز الدّرر ج۶، ص۵۴۹، میںحضرت امام حسینںکا سر دفن هونے کی تاریخ ۵۴۴ھ بیان کی ھے اور اس سلسلہ میں اس طرح لکھتا ھے: حضرت امام حسین (ع) کا سر یزید کے زمانہ میں مختلف شھروں میں گھمایا گیا ، اور پھر عسقلان میں دفن کردیا گیا، اور جب عسقلان پر (صلیبی جنگ میں) غیروں کا قبضہ هوا ، عباس وزیر ظافر فاطمی اس بات سے آگاہ هوا، اور جب اس کے لئے یہ ثابت هوگیا کہ امام حسینںکا سر عسقلان میں دفن هوا ھے تو اس نے انگریزوں سے خط وکتابت کی کہ امام حسینںکا سر ان کے حوالے کردیں، اور عسقلان شھر ان ھی کے قبضے میں رھے، چنانچہ انھوں نے سر لے لا کر قاھرہ میں دفن کردیا۔
[112] خطط ج ۲ ص۲۸۵۔
[113] شفاء السقام ص ۳، ۳۴۔
[114] وفاء الوفاء ج۲ ص ۱۳۳۶ ۔
[115] شرح جامع صغیر ص ۲۹۷، باب سوم کتاب شِفاء الِسقام تالیف سُبکی سے اصحاب ا ور دوسرے ان افراد کا ذکر کیا ھے جو لوگ صرف آنحضرت کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ مشرف هوئے اور زیارت کے علاوہ ان کاکوئی دوسرا قصدنہ تھا ان میں سے جناب بلال (رسول خدا کے موذن) جو شام سے مدینہ زیارت رسول کے لئے تشریف لائے، (شفاء السقام ص ۱۴۳)
[116] عمدة الاخبار شیخ احمد عباسی دسویں صدی کے علماء میں سے ھیں ۔ انھوںنے ص ۲۲، ۲۶، زیارت قبور سے متعلق حدیث کو احمد ابن حنبل سے چند طریقوں سے نقل کیا ھے ، (مسند احمد ج۳، ص ۲۳۷اور ۲۵۰،وج۵ ص ۳۵۰، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۵۹) وسنن ابی داود ، ج۳ ص ۲۱۲، بخاری ج۲ ص ۱۲۲، وجامع الصغیر سیوطی جلد اول ص ۱۶۲۔
[117] سمهودی ج ۴ ص ۱۳۴۹، وکتاب مجموعة التوحید ص ۵۲۲۔
[118] سمهودی ج۴ص ۱۳۵۲، موصوف نے اس سلسلہ میں تفصیل سے بیان کیا ھے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے احادیث نقل کی ھیں۔
[119] تاریخ نجد وحجاز ص ۵۰، سورہ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[120] الفتاوی الکبریٰ ج۲ ص ۲۱۷، توجہ فرمائیں کہ جب معمولی انسان اس طرح ھے تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی کی شان کیا هوگی۔
[121] ابو عبد اللہ شرف الدین محمد ابن سعید بو صیری، جو ساتویں صدی کے مشهور ومعروف شعراء کرام میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان مبارک میں ”بُردہ “نامی ایک بھت عظیم الشان قصیدہ کھا جو عربی زبان کے مشهور قصیدوں میں سے ھے جس کا پھلا شعر اس طرح ھے:
”اَمِنْ تَذَکِّرِ جِیْرَانٍ بِذِیْ سَلَمٍ مَزَجْتَ دَمْعاً جَریٰ مِنْ مُقْلَةٍ بِدَمٍ“
اور ان اشعار کی بھت سی شرحیں بھی لکھی گئیں، وھابی علماء میں ان اشعار کا سب سے پھلے انکار کرنے والے شیخ عبدالرحمن آل شیخ صاحب فتح المجیدھیں ، چنانچہ موصوف فتح المجید ص ۱۸۵،میں کھتے ھیں: کس طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی وفات کے بعد استغاثہ کیا جائے اور ان سے ایسی چیزوں کی درخواست کی جائے جن کو خدا کے علاوہ کوئی دوسرا کرنے پر قادر نھیں ھے، جیسا کہ بوصیری اور برعی وغیرہ نے اپنے اشعار میں ایسے شخص سے استغاثہ کرتے ھیں جو خود اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ھیں نھیں اور اپنی موت وحیات اور حشر ونشر ان کے اختیار سے خارج ھیں، (یھاںپرمراد پیغمبر اکرم کی ذات ھے) اور خدا وندعالم سے استغاثہ کرنے سے پرھیز کرتے ھیں جو ھر چیز پر قادر ھے۔
[122] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۴۳، ۳۴۴، عصا کا موضوع اور وھابیوں کی اس سے بھی لمبی لمبی باتیں سننے کے لئے کشف الارتیاب تالیف علامہ امین ۺص۱۳۹،،کی طرف رجوع فرمائیں۔
[123] مکہ معظمہ سے نشر هونے والا”ام القریٰ“ نامی اخبار ، شمارہ نمبر ۹۸۹۔
[124] اھل سنت کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین اور قریش کے دس افراد کو بہشت کی بشارت دی ، جن میں سے چاروں خلیفہ، او رباقی افراد اس طرح ھیں: طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف ،سعد بن ابی وقّاص ، ابو عبیدہ جرّاح اور سعید بن زید۔
[125] بیعت شجرہ جو بیعت رضوان بھی کھی جاتی ھے اس سے مراد یہ ھے کہ ہجرت کے چھٹے سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف عمرہ کے لئے جارھے تھے اور جس وقت مکہ کے نزدیک ”حُدیبیہ“ پہنچے تو مشرکین مکہ نے اجازت نھیں دی، اس موقع پر آپ کے اصحاب نے جن کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی حضرت کے ھاتھوں پر بیعت کی کہ اگر مشرکین سے جنگ لڑنی پڑی تو اس سے منھ نھیں پھیریں گے اور ڈٹ کر جنگ کریں گے۔
[126] ھذٰہ ھی الوھابیة ص ۱۰۰۔
[127] کتاب التوحید محمد بن عبد الوھاب (رسا لہ دھم) ص ۱۳۱۔
[128] الفتاوی الکبری جلد اول ص ۳۷۰۔
[129] فتح المجیدص ۹۵۔
[130] الفتاوی الکبریٰ جلد اول ص ۲۶۲۔
[131] عقائد الواسطیہ ابن تیمیہ (رسالہ نھم از مجموعة الرسائل جلد اول ص ۴۰۸۔
[132] رسالہ الوصیة الکبریٰ (رسالہ ہفتم مجموعة الرسائل الکبریٰ جلد اول ص ۳۰۳)۔
[133] تاریخ نجدص ۴۷۔
[134] سورہ شوریٰ ۲۳۔
[135] الاسئلة والاجوبة فی العقیدة الواسطیہ ص ۲۵۷۔ ،
[136] ظاھراً آیہ مبارکہ: <وُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ اِلیٰ رَبِّها نَاظِرَةٌ۔>(اس دن بعض چھرے شاداب هوں گے ، اپنے پرور دگار کی( نعمتوںکی طرف )دیکھ رھے هوں گے“۔(سورہ قیامة آیت ۲۲،۲۳)سے استدلال کرتے ھیں جس کے بارے میں ”ابن تیمیہ کی نظر میں خدا کے دیدار“ کے عنوان سے پھلے بحث هوچکی ھے۔
[137] تاریخ نجد ص ۴۸۔
[138] وہ خط جو ابن سعود نے ذیقعدہ ۱۳۳۲ھ کو فرقہ ”اخوان“ کے لئے لکھا اس خط کی عبارت کتاب ”تاریخ المملکة العربیة السعودیہ“ (ج ۲ ص ۱۵۵) اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہ بات آلوسی کی گذشتہ بات سے تھوڑی مختلف ھے ۔
[139] سب سے پھلے جس فرقہ نے قرآن وحدیث کے ظواھر سے تمسک کرنے کا نعرہ لگایا وہ ھے فرقہ ”ظاھریہ“ ھے۔ یہ لوگ داود ظاھری اصفھانی (تیسری صدی) کے پیروکارھیں، (فقھاء کے طبقات کے بارے میں ، شیخ ابواسحاق شیرازی کی کتاب طبقات الفقھاء کی طرف رجوع فرمائیں)
[140] الفتاویٰ الکبریٰ ج۵ ص ۱۷، ابن تیمیہ کی نظر میں قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تاویل، اور محکم ومتشابہ آیات کے بارے میں اس کے نظریات کو ”رسالة الا کلیل“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
[141] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۱۴۵۔
[142] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۲۳۱۔اجتھاد اور تقلید، ابن تیمیہ کی نظر میں ، اس سلسلہ میں کتاب ”رفع الملام“ (ص۱۴۱، اور اس کے بعد) رجوع فرمائیں۔
[143] تاریخ نجد ص ۴۸ ملاحظہ فرمائیں۔
[144] جزیرة العرب ص ۱۴۸۔
[145] ھذہ ھی الوھابیة ص ۱۰۳،لیکن وھابیوں کے مخالف کھتے ھیں کہ وھابی حضرات اجتھادِ مطلق کو مانتے ھیں، اور اپنے کو مذاھب اربعہ کی پیروی کے محتاج نھیں مانتے، اور قرآن کریم اور سنت نبوی کو اپنے لئے کافی سمجھتے ھیں۔ وھابیوں کے مخالفوں نے ان باتوں کی ردّ میں دلیلیں بھی قائم کی ھیں ، چنانچہ اس سلسلہ میںمستقل کتابیں بھی لکھیں گئی ھیں، جن میں سے بعض کی طرف اس کتاب کی عبارت میں اشارہ کیا گیا ھے۔
[146] تاریخ نجد ص ۳۵۶۔
[147] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص۱۵۰، اور یہ کتاب تقربیاً چالیس سال پھلے تالیف هوئی ھے(یعنی اب سے تقریباً ساٹھ سال پھلے) اور اس مدت میں سعودی عرب اور جزیرہ عربستان بھت بدل گیا ھے خصوصا عصر حاضر کا کلچر نافذ هوگیا ھے۔
[148] جزیزةالعرب فی القرن العشرین ص ۱۴۵۔
[149] المختار من تاریخ الجبرتی، ص ۶۶۷، ھم نے مذکورہ تمام چیزوں کے بارے میں وضاحت کردی ھے۔
[150] تاریخ نجد ص ۴۹۔
[151] تاریخ مکہ ج۲ ص ۵۲، ۷۶، ۱۳۵۔
[152] ابن بشر جلد اول ص ۱۴۳۔
[153] خط کی عبارت ”تاریخ نجد“ ص ۱۰۵ میں موجود ھے۔
[154] کشف الارتیاب ص ۶۶، لیکن آج کل حجاز میں حقہ اور سیگریٹ نوشی عام ھے او ر ان چیزوں پر کوئی ممانعت بھی نھیں ھے اور دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح کھلے عام بازراوں میں سیگریٹ بکتی ھیں، (عجیب بات تو یہ ھے کہ تمباکو نوشی کو حرام جانتے ھیں کیونکہ یہ چیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نھیں تھی، لیکن اس کے مقابلہ میں چائے اور قهوہ کو حرام نھیں کھتے جبکہ یہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نھیں تھی، (کشف الارتیاب ص ۱۴۶کی طرف رجوع فرمائیں)
[155] ملوک العرب ج ۲ ، ص۷۴، گلدزیھر کھتا ھے کہ وھابیوں کے نزدیک سیگریٹ او رقهوہ (چائے) پیناگناھان کبیرہ میںشمار کیا جاتا ھے، (ص۲۶۷)
[156] ملوک العرب ج ۲ ص ۷۵۔
[157] مجلہ قافلہ الزیت ، شمارہ ۹ سال ۱۹۵۴ء۔
[158][158] ظاھراً ابو ھریرہ کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے ذریعہ استدلال کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:
”خَیْرُ اُمَّتِی اَلْقَرْنُ الَّذِیْ بُعِثْتُ فِیْهم ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلَونَهم ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلَوْنَهم“ (مسند احمد بن حنبل ج۲ ص۲۲۸)
میری امت کی بھترین نسل وہ ھے جس میں میں مبعوث هوا ،اور اس کے بعد ان کی نسل اور ان کی نسل کے بعد ان کی نسل،اور اس کے صحیح معنی یہ ھیں کہ میری بھترین امت میرے صحابہ اور اس کے بعد تابعین (جن لوگوں نے اصحاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا ھے اور ان سے احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سنا ھے) ھیں ، اور ان کے بعد تبع تابعین (جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کو تابعین سے سنا ھے)
[159] فتنة الوھابیة ، تالیف سید احمد زینی دحلان، ھمراہ با کتاب الصواعق شیخ سلیمان ص ۷۷۔
[160] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۱۵، جبرتی ۱۲۲۲ھ کے واقعات کے ضمن میں کھتا ھے کہ وھابی لوگوں نے حج کے اعمال بجالانے کے بعد یہ اعلان کرایا کہ اپنی داڑھی منڈانے والا شخص حرمین شریفین میں داخل نھیں هوسکتا، اور اعلان کرنے والا اعلان کے ضمن میں اس آیت کو بھی پڑھتا تھا : < یَا اَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاٰ یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهم ہٰذَا ۔> (ایمان والو! مشرکین صرف نجاست ھیں لہٰذا خبر دار اس سال کے بعد مسجد الحرام میں داخل نہ هونے پائیں)(تاریخ جبرتی ج۳ ص ۱۹۱) قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ داڑھی منڈانے والوں کو مشرک کھا گیا۔ ظاھراً ٹھڈی کا منڈوانا حرام ھے اور دوسرے حصہ کا منڈوانا حرام نھیں ھے۔
[161] العقیدة والشریعة فی الاسلام ص ۲۶۹، معلوم یہ هوتا ھے کہ ابن تیمیہ اور وھابیوں کا غزالی اور اس جیسے افراد سے مقابلہ گویاتصوف اور عرفان سے مقابلہ ھے کیونکہ یہ لوگ تصوف اور عرفان کے علماء مانے جاتے تھے۔
[162] تاریخ نجد ص ۹۸، ۹۹۔
[163] حاضر العالم الاسلامی جلد اول ص ۲۶۴۔
[164] تاریخ بغداد ص ۱۵۶۔
[165] زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص ۲۵۔
[166] لفتوحات الاسلامیہ ج۲ص۳۵۷۔
[167] ائمہ سے اس کی مراد اھل سنت کے چار امام ، اور وہ لوگ ھیں جن کی باتوں کو اھل سنت حجت سمجھتے ھیں اور ۸۰۰ سال سے اس کی مراد تیسری صدی کا آخر اور شیخ سلیمان کا زمانہ یعنی بارهویں صدی ہجری ھے۔
[168] ”الصواعق الالہٰیة فی الرد علی الوھابیة“ ص ۳۸
[169] ”الصواعق الالہٰیة فی الرد علی الوھابیة“ ص ۳۸۔
[170] جس کا موٴلف کے ھاتھ کا لکھا هوا قلمی نسخہ ، کتابخانہ جناب آقای سےد مہدی لاجوردی ، قم میں موجود ھے۔
[171] الفتوحات الاسلامیہ ج ۲ ص ۲۶۰۔
[172] التوسل بالنبی ص ۲۴۹تا ۲۵۳۔
[173] مدار ج السنیہ ص ۱۵۔
[174] سورہ مائدہ آیت ۳۵۔
[175] سورہ سباء آیت ۲۳۔
[176] سورہ یونس آیت ۳
[177] مدارج السنیہ ص ۶۳۔
[178] الاصول الاربعہ ص ۶۔
[179] الاصول الاربعہ ص ۲ سے ۵تک۔
[180] الاصول الاربعہ ص ۳۵، ۳۶۔
[181] الفجر الصادق ص ۱۷، ۱۸۔
[182] )اور جب شیخ سلیمان اور محمد بن عبد الوھاب میں کافی اختلافات هونے لگے تو چونکہ شیخ سلیمان کو اپنی جان کا خطرہ هوگیا تھا اس وجہ سے انھوں نے مدینہ منورہ جاکر پناہ لے لی، اور اس کے خلاف ایک کتاب لکھی (ظاھراً کتاب الصواعق مراد ھے) اور اس کے لئے بھیجی، اسی طرح بھت سے حنبلی علماء نے اس کے عقائد کی رد میں کتابیں لکھیں اور اس کے پاس بھیجیں، لیکن کوئی بھی کتاب اس کے لئے مفید واقع نھیں هوئی، (الدرر السنیہ، ص ۴۰)
[183] الدرر السنیہ، ص ۳۹، ۴۰۔
[184] الدرر السنیہ، ص ۴۱، ابوحامد بن مرزوق کھتے ھیں کہ ۱۳۴۳ھ میں جب سعودی لوگ مکہ معظمہ میں وارد هوئے، میں صبح کے وقت قبرستان معلّا کی طرف جارھا تھا،میں نے ایک مکّی شخص کو دیکھا کہ مقام سعی کی طرف جارھا ھے اور کہہ رھا ھے: ”اَللّٰهم صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّد“
اس وقت غطغط (وھابی) کا ایک گروہ وھیں حرم میں تھا ان کے رئیس نے اس شخص کی باتوںکوسنا تو غصہ کی حالت میں اپنے عصا سے اس شخص کی طرف اشارہ کیا اور کھا ”اذکرون ولا تعبدون“ ۔ (التوسل بالنبی ص ۱۰۶)
[185] الصواعق الالہٰیہ ص ۷۔
[186] الصواعق ، ص ۳۹، ظاھراً حدیث نبوی سے مراد وہ حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم هو جو صحیح مسلم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وارد هوئی ھے، کہ آپ نے فرمایا: ”اِنَّ اللّٰہَ زَوَیٰ لِیَ الاٴَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَها وَمَغَارِبها وَاِنَّ اُمَّتِی لَیَبْلُغ مُلْکَها مَازُوِیَ لِی مِنْها …الی آخر۔“
[187] الصواعق ص ۵۵ تا ۶۳۔
[188] قابل غور بات یہ ھے کہ محمد بن عبد الوھاب کے ھم عصر علمائے کرام نے (جس کی بحث ھم پانچویں باب میں کریں گے) کھا ھے کہ محمد بن عبد الوھاب حنفی مذھب تھا، اسی طرح عثمانی موٴلف” سلیمان فائق بک“ (تاریخ بغداد ص ۱۵۲) نے کھا کہ محمد بن عبد الوھاب شروع میں لوگوں کو حنفی مذھب کی تعلیم دیتا تھا لیکن موجودہ شواہد کے پیش نظر اور اس کی تعلیمات کا حنبلی مذھب کے مطابق هونا اور چونکہ اس کا باپ بھی حنبلی علماء میں سے تھا اسی طرح اس کے ماننے والے لوگ اپنے کو حنبلی کھتے چلے آئے ھیں ان تمام چیزوں کے پیش نظر اس بات میں کوئی شک باقی نھیں رھتا کہ محمد بن عبد الوھاب شروع میں حنبلی مذھب تھا۔
[189] المسلمون فی العالم الیوم ج ۳ ص ۶۳، ۶۴۔ جیسا کہ معلوم هوتا ھے کہ وھابی تقلید کے مسئلہ (جیسا کہ دوسرے اسلامی فرقوں میں رائج ھے) کے مخالف ھیں ، اور یہ لوگ خود کو اتنی اجازت دیتے ھیں کہ مسائل میں اجتھاد کریں، اور قرآنی آیات کی بھی اپنی رائے کے مطابق تفسیر کریں۔
[190] ”البلاد“ نامی اخبار چاپ جدہ، بتاریخ ۱۶ ذی الحجہ ۱۳۸۶ھ کے ایک مضمون میں اسی طرح موجود ھے۔
[191] الدرر السنیہ ص ۵۳۔

Followers